tag:blogger.com,1999:blog-65200673231889476872024-03-14T07:31:54.038+05:30محمد آصف اقبالخبریں • تبصرے • تجزیےhttps://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.comBlogger224125tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-78719079810502812572024-03-06T15:01:00.003+05:302024-03-06T15:03:14.725+05:30<div><p align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: 9.75pt; mso-outline-level: 1; text-align: center; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="color: #2d2d2d; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 36.0pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-IN; mso-font-kerning: 18.0pt;">جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟</span><span dir="LTR" style="color: #2d2d2d; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 36.0pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-IN; mso-font-kerning: 18.0pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: 9.75pt; mso-outline-level: 2; text-align: center; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="color: #717171; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-IN;">مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="color: #717171; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-IN;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>!!!</span><span style="background-color: transparent; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; text-align: right;"> </span></p><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEifb6qvqhyS1J3qVmodE1ZmqNSqb4SjFnN-exQL25SiZ07A5vhb5YiDfwAq8G9bqhq6WpEa6I0B66ugxJJ6Z0FNRTm3p634Vn4atDP4OkQelnLObgZjHqU2Bw24TcovsnNhqKoCeMdNkgE1i30tfGvvBynCVywcp9-nPFtQC5VaDmbtCMmZ4KDlvtNml8A/s750/20240303-12.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="430" data-original-width="750" height="183" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEifb6qvqhyS1J3qVmodE1ZmqNSqb4SjFnN-exQL25SiZ07A5vhb5YiDfwAq8G9bqhq6WpEa6I0B66ugxJJ6Z0FNRTm3p634Vn4atDP4OkQelnLObgZjHqU2Bw24TcovsnNhqKoCeMdNkgE1i30tfGvvBynCVywcp9-nPFtQC5VaDmbtCMmZ4KDlvtNml8A/s320/20240303-12.jpg" width="320" /></a></div><br /><p></p>
<p dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; margin-bottom: 12.75pt; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">محمد آصف اقبال، نئی دہلی</span></strong></p>
<p dir="RTL" style="background: white; box-sizing: border-box; direction: rtl; margin: 0in 0in 12.75pt; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">بھارت میں اس وقت چہار جانب لوک سبھا الیکشن 2024 کے چرچے ہیں۔
تمام ہی سیاسی پارٹیاں کوشاں ہیں کہ ان کی پارٹی کو لوک سبھا الیکشن میں بڑے
پیمانے پر کامیابی حاصل ہو تاکہ وہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں اور انہیں وہ سب کچھ
حاصل ہو جو عموماً الیکشن کے بعد سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو حاصل ہوتا ہے۔
اپریل 2023 میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن کے تعلق سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے
نوٹیفکیشن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں فی الوقت 8 نیشنل اور 55 اسٹیٹ سیاسی
پارٹیاں ہیں جبکہ 2597 غیر تسلیم شدہ سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میں حصہ لینے اور
انتخابی نشان کو حاصل کرنے کی درخواست دی ہوئی ہے۔ ان غیر تسلیم شدہ پارٹیوں میں
ایک جانب 1915 میں قائم ہونے والی اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا ہے تو وہیں ریاست
تمل ناڈو میں جوزف وجے چندر شیکھر کی 2024 میں قائم ہونے والی</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> Tamilaga Vettri Kazhagam </span><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">پارٹی
بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی میدان سیاست میں قسمت
آزمائے گی اور مقامی و ضلعی سطح پر کچھ نہ کچھ ووٹوں کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب
رہے گی جن کے نام الیکشن میں حصہ لینے اور پرچہ بھرنے سے چند دن پہلے سامنے آئیں
گے۔</span><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; margin-bottom: 12.75pt; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 10.0pt;"><br />
</span><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">ووٹر آئی ڈی ڈاٹا بیس کی روشنی میں یکم جنوری 2024 تک بھارت میں
94,50,25,694 ووٹرس نے ووٹ دینے کا حق حاصل کرلیا ہے۔ یہ اطلاع راجیہ سبھا میں ایک
سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون کرن رجیجو نے تحریری شکل میں دیا ہے۔ لیکن اگر
آزاد بھارت میں 1951 میں رائے دہندگان کی تعداد دیکھی جائے تو یہ تعداد 17.32
کروڑ تھی جو 1957 میں بڑھ کر 19.37 کروڑ ہوئی۔ پھر 2019 کے انتخابات کے وقت یہ
تعداد 91.20 کروڑ ہوئی جو کہ 2024 میں 94.50 کروڑ ہوگئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور
ووٹرس کی تعداد دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دنیا میں ایک اہم ترین ملک ہے
جہاں سیاسی پارٹیوں اور ووٹرس کی تعداد کے لحاظ سے اس کے مد مقابل کم ہی ممالک
ہیں۔ اعداد و شمار کا یہ کھیل اس بات کا بھی احساس دلانے میں کامیاب رہتا ہے کہ
بھارت وہ واحد ملک ہے جس میں ہر کسی کو اپنی سیاسی پارٹی بنانے اور رائے دہی کا
آزادانہ حق حاصل ہے۔ یعنی یہاں سیاسی پارٹی بنانا بھی آسان ہے اور دوسری جانب
ووٹ بھی خاصی تعداد میں کاسٹ ہوتے ہیں۔ غالباً اسی لیے بھارت خصوصاً آج کل اور
عموماً پہلے ہی ’مدر آف ڈیموکریسی‘ کہا جانے لگا ہے۔<o:p></o:p></span></p>
<p dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; margin-bottom: 12.75pt; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 10.0pt;"><br />
</span><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">کیا آپ جانتے ہیں کہ ‘مدر آف ڈیموکریسی’ کیا ہے؟ ہم امید کرتے
ہیں کہ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی چند ماہ پہلے بھارت میں</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> G20 </span><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس موقع پر حکومت ہند کی وزارت ثقافت
نے10-8 ستمبر 2023 کے دوران ’بھارت: دی مدر آف ڈیموکریسی‘ سے متعلق ایک نمائش
تیار کی تھی۔ اس نمائش میں ہمارے ملک کی جمہوری روایات کے تیار کردہ تجربے کو ظاہر
کیا گیا۔جس ہال میں نمائش لگائی تھی اس کے سنٹر میں سندھو :سروسوتی تہذیب کی ایک
لڑکی کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ یہ وہ لڑکی ہے جو پراعتماد ہے اور دنیا کی آنکھ
میں آنکھ ڈال کر دیکھ رہی ہے اور آزادی کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ وہ اپنے جسم پر
سجاوٹ کی طرح زیورات پہنتی ہے جیسا کہ مغربی بھارت میں خواتین ہر روز پہنتی ہیں۔
اس مجسمہ کی اونچائی 10.5 سینٹی میٹر اور 120 کلو وزن کے ساتھ کانسے میں بنائی گئی
تھی۔ ساتھ ہی بھارت میں جمہوریت کی تاریخ کو 26 انٹرایکٹو پینلز کے ذریعے ظاہر کیا
گیا تھا جہاں دیکھنے والے 16 مختلف زبانوں میں متن کو پڑھ سکتے تھے اور آڈیو سن
سکتے تھے۔ پینل میں لوکل سیلف گورننس، جدید بھارت میں انتخابات، کرشنا دیوارایا،
جین دھرم اور دیگر شامل تھے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ بھارت میں
جمہوریت کا ایک قدیم تصور ہے۔ بھارتی اخلاقیات کے مطابق جمہوریت معاشرے میں
آزادی، قبولیت، مساوات اور شمولیت کی اقدار پر مشتمل ہے اور اس کے عام شہریوں کو
معیاری اور باوقار زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے۔ رگ وید اور اتھرو وید، قدیم
ترین دستیاب بھارت کے مذہبی متن میں سبھا، سمیتی اور سنسد جیسے شراکتی اداروں کا
حوالہ دیتے ہیں۔ رامائن اور مہا بھارت، اس سر زمین کے عظیم شاہکار ہیں اور یہ بھی
فیصلہ سازی میں لوگوں کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ نیز حکومت کرنے کا اختیار
میرٹ یا مشترکہ اتفاق رائے سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ موروثی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ
پریشد اور سمیتی جیسے مختلف جمہوری اداروں میں ووٹر کی قانونی حیثیت پر مسلسل بحث
ہوتی رہی ہے۔ بھارتی جمہوریت واقعی سچائی، تعاون، اشتراک، امن، ہمدردی اور عوام کی
اجتماعی طاقت کا ایک پرمسرت اور شاندار اعلانیہ ہے۔ اس موقع پر تعلیم اور ہنرمندی
کی ترقی کے مرکزی وزیر جناب دھرمیندر پردھان نے تاریخی تحقیق سے متعلق بھارتی
کونسل (آئی سی ایچ آر) کے ذریعہ تیار اور شائع کی گئی کتاب ‘انڈیا: دی مدر آف
ڈیموکریسی’ کا اجرا کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کتاب بھارتی جمہوری میراث پر ایک
صحت مند مباحثے کی حوصلہ افزائی کرے گی اور یہ آئندہ آنے والی نسلوں کو ہماری
لازوال روایات کو یاد رکھنے کی ترغیب فراہم کرے گی۔</span><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; margin-bottom: 12.75pt; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">تو یہ ہے وہ خوبصورت تصویر جو بھارت، بھارتی سیاست، بھارتی ثقافت
اور بھارتی جمہوریت کی دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہے اور جسے مزید سنوارنے اور
نکھارنے کی منظم و منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔</span><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; margin-bottom: 12.75pt; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;">دوسری جانب گزشتہ 6 سالوں میں بھارت کی گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس میں
26 درجے تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ
کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس میں بھارت
27ویں سے 53ویں درجے پر پہنچ گیا، فریڈم ہاس کی مارچ میں جاری کردہ رپورٹ میں
بھارت جمہوری آزاد ملک کے اسٹیٹس سے جزوی آزاد اسٹیٹس پر ایکواڈور، موزمبیق اور
سربیا کے ساتھ آ کھڑا ہوا ہے۔ وہیں ہیومن فریڈم اینڈیکس کے اعداد و شمار کی روشنی
میں بھارت 118ویں درجہ پر پہنچ گیا ہے۔ یہ انسانی آزادی کا اشاریہ (ہیومن فریڈم
اینڈیکس) ایک ایسا پیمانہ ہے جو کسی ملک میں شخصی، شہری اور اقتصادی آزادیوں کی
سطح کا تعین کرتا ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی، جائیداد کے حقوق، تقریر اور مذہب کی
آزادی، اور اقتصادی مواقع تک رسائی جیسے مختلف عوامل کو مد نظر رکھتا ہے۔دوسری
جانب بھارت میں ہر سیاسی پارٹی عوام کے ووٹ حاصل کرنے اور کامیابی ملنے کے بعد بھی
یا تو پوری پارٹی ہی خرید لی جاتی ہے یا اس کے کامیاب عوامی نمائندے عوام کو منہ
چڑاتے ہوئے اقتدار میں موجود سیاسی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی نفرت کا
بازار بھی خوب ترقی کرتا نظر آرہا ہے۔عوام اور ان کے مختلف گروہ اپنے حقوق کے لیے
سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ مدر آف ڈیموکریسی والا ملک جمہوری
اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے انہیں حقوق دلائے گا۔ لیکن انہیں شاید اس بات کا
اندازہ نہیں ہے کہ جمہوریت خود اپنے فریبی جال میں آج کل بری طرح پھنسی ہوئی ہے
اور جمہوریت کے علم بردار اقتدار کے حصول کے لیے گروہ بندیوں میں کہیں ناکام تو
کہیں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ماہ میں مدر آف
ڈیموکریسی اور جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟</span><span dir="LTR" style="color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.5pt;"><o:p></o:p></span></p><blockquote style="background-color: white; border: none; color: #222222; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 13.2px; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px;"><div dir="rtl" style="text-align: center;"><span style="font-family: georgia;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div></blockquote><div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 13.2px;"><span style="font-family: georgia;"><br /></span></div><div dir="rtl" style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 13.2px; text-align: right;"><span style="font-family: georgia;">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔<br /><br /><b><span style="color: #2b00fe;"><span style="font-size: large;">نوٹ:</span> </span></b><span style="color: #351c75; font-size: large;">بلاگر کی جانب سے اس مضمون کو اخبارات و میگزین نیز ڈیجٹل میڈیا میں شائع کرنے کی اجازت ہے البتہ شائع کرتے وقت مصنف کا نام (<b>محمد آصف اقبال، نئی دہلی</b>) مع بلاگ کا ایڈیس (<b>maiqbaldelhi.blogspot.com</b>) شائع کرنا ضروری ہے۔</span></span></div>
<p align="center" dir="RTL" style="background: white; direction: rtl; margin-bottom: 12.75pt; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 0in; text-align: center; unicode-bidi: embed;"></p></div><div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-9374572310271911382024-02-27T15:52:00.002+05:302024-02-27T15:53:26.379+05:30Hate Speech Events in India - Report 2023<div><div class="separator" style="clear: both; text-align: left;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhyfcETxyOUkjmiS0Zt0TMB05gY9JIR5hC4VpbpN36rqZd8mavjh4EFZ7Od7D8MlOLk5Oy-9geWXD-0uu-HKo5S4yOw7ZoNtad8AJDTQ9rmY7wSVjrGDmlE_ksNR3EGSwcbwaGOS3DWrz0WuqznfEoefvmC6XNTBLyZUf9A_zImlkY-cxnOTf-hypxjwak/s1503/Hate%20Speech%20Events%20in%20India%E2%80%94%20Report%202023.png" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="254" data-original-width="1503" height="128" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhyfcETxyOUkjmiS0Zt0TMB05gY9JIR5hC4VpbpN36rqZd8mavjh4EFZ7Od7D8MlOLk5Oy-9geWXD-0uu-HKo5S4yOw7ZoNtad8AJDTQ9rmY7wSVjrGDmlE_ksNR3EGSwcbwaGOS3DWrz0WuqznfEoefvmC6XNTBLyZUf9A_zImlkY-cxnOTf-hypxjwak/w765-h128/Hate%20Speech%20Events%20in%20India%E2%80%94%20Report%202023.png" width="765" /></a></div><br /><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><h2 style="background-color: white; box-sizing: border-box; color: #324a6d; font-family: Poppins, sans-serif; font-size: 2rem; font-weight: 500; line-height: 1.2; margin-block: 0.5rem 1rem; text-align: left;"><span style="box-sizing: border-box; font-weight: bolder;">Executive Summary</span></h2><ul style="background: rgb(255, 255, 255); border: 0px; box-sizing: border-box; color: #324a6d; font-family: Poppins, sans-serif; font-size: 18px; margin-block: 0px; outline: 0px; text-align: left; vertical-align: baseline;"><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">In 2023, India Hate Lab (IHL) documented 668 hate speech events targeting Muslims. Similarly, IHL recorded 255 of the events in the first half of 2023, while the number rose to 413 events in the second half of the year, a 62% increase.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">498 (75%) of the events took place in Bharatiya Janata Party (BJP)-ruled states, union territories (administered by the BJP-led central government), and the National Capital Territory (NCT) of Delhi (police and public order comes under purview of the BJP-led central government).<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">Among the top eight states with the most hate speech events, six were ruled by the BJP throughout the year. The other two states held legislative elections in 2023 and were ruled by the BJP for part of the year.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">239 (36%) of the events included a direct call of violence against Muslims. 77% of these dangerous speeches were delivered in states and territories ruled/governed by the BJP.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">The Vishwa Hindu Parishad-Bajrang Dal, affiliated with the Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS), was responsible for 216 (32%) events, making it the top organizer of hate speech events. Overall, 307 (46%) of hate speech events were organized by entities that are part of the broader Sangh Parivar (RSS family).<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">Our report has found rapid growth of new Hindu nationalist groups and actors engaging in hate speech.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">BJP leaders were involved in delivering hate speeches at 100 (15%) of the events. BJP legislator T Raja Singh spoke at 23 events, including 14 dangerous speeches with calls to violence against Muslims.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">In BJP-ruled states, around 11% of events featured BJP leaders, whereas in non-BJP-ruled states, this figure rose to 28%.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">Maharashtra (118), Uttar Pradesh (104), and Madhya Pradesh (65) ranked top among states for hate speech events. These three BJP-ruled states collectively accounted for 43% of the total hate speech events recorded.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">Hate speech events peaked between August and November, coinciding with the Vishwa Hindu Parishad-Bajrang Dal Shaurya Jagran rallies and state legislative elections in Rajasthan, Madhya Pradesh, Telangana and Chhattisgarh. Approximately 318 hate speech events, or 48% of the total, took place during this period.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">420 (63%) of the events included references to conspiracy theories, primarily involving love jihad, land jihad, halal jihad, and population jihad.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">169 (25%) events featured speeches calling for targeting Muslim places of worship. Out of 193 events that took place between October 7 (the day Hamas attacked Israel and the beginning of Israel’s war on Gaza) and December 31, 2023, 41 (21%) mentioned the Israel-Gaza war to stoke hatred towards Indian Muslims.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">Hindu religious leaders delivered hate speeches at 93 (14%) of the events.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">Rohingya refugees were targeted in speeches at 38 (4%) of the events.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">176 (26%) events were held in the five states (Karnataka, Madhya Pradesh, Rajasthan, Chhattisgarh, Telangana) that conducted legislative elections in 2023.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">186 (28%) events took place in states that are slated for elections in 2024. The majority of these events were held in Maharashtra.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">Hindu far-right influencer Kajal Hindustani, chief of Antarrashtriya Hindu Parishad (AHP) Pravin Togadia, and chief of Hindu Rashtra Sena, Dhananjay Desai are the top three sources of hate speech.<br /><br /></li><li style="background: transparent; border: 0px; box-sizing: border-box; margin-block: 0px; outline: 0px; vertical-align: baseline;">BJP legislator T Raja Singh, Pravin Togadia, and Kajal Hindustani are the top three sources of dangerous speech</li></ul></div><br />source: <a href="https://indiahatelab.com/2024/02/25/hate-speech-events-in-india-2023-annual-report/">https://indiahatelab.com/2024/02/25/hate-speech-events-in-india-2023-annual-report/</a></div><div><br /></div><div style="text-align: center;">*************</div><div style="text-align: center;"><br /></div><div>آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div><div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-55008322856788922812024-02-27T12:12:00.013+05:302024-02-27T15:14:00.859+05:30رمضان المبارک کا استقبال تازہ دم ہوکریکسوئی سے کریجئئے !<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><blockquote style="border: none; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px; text-align: left;"><div style="text-align: right;"><h2 class="post-subtitle" dir="rtl" style="background-color: white; box-sizing: border-box; line-height: 1.3; margin: -5px 0px 13px; padding: 0px; text-align: center;"><span style="font-family: georgia; font-size: large;"><span style="color: #717171;">"</span><span style="color: #800180;">مسلمانوں کے ہزارہا مسائل ماہ مقدس سے مربوط ہیں</span><span style="color: #717171;">"</span></span></h2></div></blockquote><blockquote style="border: none; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px; text-align: left;"><blockquote style="border: none; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px;"><blockquote dir="rtl" style="border: none; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right;"><h2 class="post-subtitle" style="background-color: white; box-sizing: border-box; line-height: 1.3; margin: -5px 0px 13px; padding: 0px; text-align: center;"><span style="font-size: large;"><span style="color: #717171; font-family: georgia;"></span></span></h2></blockquote></blockquote></blockquote><blockquote style="border: none; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px; text-align: left;"><blockquote dir="rtl" style="border: none; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right;"><h2 class="post-subtitle" style="background-color: white; box-sizing: border-box; line-height: 1.3; margin: -5px 0px 13px; padding: 0px; text-align: center;"><span style="font-size: large;"><span style="color: #717171; font-family: georgia;"></span></span></h2></blockquote></blockquote></div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhS84cR8CbsnuwReISU6FJCF8Qkba7uirCQfb31AvGbKomYpHsOBO_oiNjw7UtBEtSP3Brtvhfwzf_l_6krl18jv5NtcPbe8pE884HGVnPccRePlmVOaCGCN2QfArW-ydGIgRBZ1Z3EHiUrmDBzsYBT11-DUsSvbCghDsujhenCyBpHs4LxS9Hyc6lFx-8/s639/ramadan.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-family: georgia;"><img border="0" data-original-height="360" data-original-width="639" height="284" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhS84cR8CbsnuwReISU6FJCF8Qkba7uirCQfb31AvGbKomYpHsOBO_oiNjw7UtBEtSP3Brtvhfwzf_l_6krl18jv5NtcPbe8pE884HGVnPccRePlmVOaCGCN2QfArW-ydGIgRBZ1Z3EHiUrmDBzsYBT11-DUsSvbCghDsujhenCyBpHs4LxS9Hyc6lFx-8/w503-h284/ramadan.jpg" width="503" /></span></a></div><div dir="rtl" style="text-align: right;"><span style="font-family: georgia; font-size: medium;"><br />کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہیں ۔اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ اُمت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانے پر خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ تقویٰ و پرہیزگاری، ہمدردی و غمگساری، محبت و الفت، خیر خواہی و خدمت خلق، راہ خدا میں استقامت و جذبہ حمیت اور جذبۂ اتحاد، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنی ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتاہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شب قدر رکھی گئی، فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے تینوں عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ، انفاق اور فطرانے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ ضروری ہے کہ ہم اس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس کے کہ رمضان کی آمد آمد ہو، ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسو کر لیں۔</span></div><div dir="rtl" style="text-align: right;"><span style="font-family: georgia; font-size: medium;"><br /><span style="color: #990000;"><b>رمضان المبارک: تین اہم واقعات</b></span><br />رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنہوں نے دنیا کی صورت یک سر تبدیل کر دی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی حکمت عملی، لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجے میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم بحیثیت امت مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ لہٰذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔<br /><br /><span style="color: #990000;"><b>نزولِ قرآن:<br /></b></span>واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیات انسانی کو جِلا بخشی اور دنیا کو تاریکی، گمراہی اورشرک سے نجات دلائی۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ہے۔<br /><br /><span style="color: #990000;"><b>غزوۂ بدر:<br /></b></span>یہ واقعہ اس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علَم بردار اس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس نے عطا کی ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعے خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہئیں ۔ اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعے جہالت، گمراہی اور باطل نظریہ ہائے افکار سے چھٹکارا پایا اور دلایا جانا چاہیے۔ اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعے نظامِ باطل کو زیر کیا جاسکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیے جائیں جن کا آغاز ہرشخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اس وقت ہوگا جب اس کا تقاضا ہو۔<br /><br /><span style="color: #990000;"><b>فتح مکہ :<br /></b></span>تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے :یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علَم بردار دنیا میں بھی سرخ رُو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کرلیا گیا ہے وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے، لہٰذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربسجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں۔ ان کی گردن غرور و تکبر سے اکڑے نہیں بلکہ مزیدوہ اللہ کے آگے جھک جانے والی بن جائے۔ فائدہ یہ ہوگا کہ ان میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔</span></div><div dir="rtl" style="text-align: right;"><span style="font-family: georgia; font-size: medium;"><br />یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہِ قرآن کے استقبال ،اس سے استفادے اور اس کے بعد کے ایام میں ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ تبدیلیاں پیدا کر لینی چاہیے جن کے نتیجے میں اللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔<br /><br /><span style="color: #990000;"><b>یکسو ہو جائیے<br /></b></span>آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی، صنعت و حرفت میں پیش قدمی، سائنس و ٹکنالوجی میں دریافتیں، چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟ حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے، اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور میسر آجائیں۔ لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو انہی بنیادوں پر قائم رہے مگر اخلاق، معاشرت، معیشت، نظم و نسق اور سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام، زندگی کی بنیادی خرابیوں کا آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ کامل پروگرام کیا ہے؟ اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ اس موقع پر ہم یہ بتاتے چلیں کہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اَب تک ہمارا نظامِ حیات بنا ہوا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی۔<br />داعی حق بن جائیے<br /><br />انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہٰذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہر سطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں، یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔لیکن یہ عمل انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔ جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الی الخیر کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔ اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم داعیِ حق بن جائیں لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پُرجوش داعی خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطہ نظر قبول کر لے لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔داعیِ حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کارِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطۂ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے اسے احسن طریقے سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ اپنے مخاطب ہی کو براہِ راست یا بلا واسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجے میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔ کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتیں۔لہٰذا رمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ نبی کریم ﷺ کی آمد کا مقصد کیا تھا۔<br /><br />پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریم ﷺ کی آمد کا مقصد کیا تھا اور وہ کس طریقہ سے رمضان کا استقبال کرتے تھےتوہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اسلامی نظریہ حیات کو عام کرکے اور ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں اس ماہ مقدس کا استقبال کریں نیز رمضان کا خیرمقدم اِس عہد و پیمان کے ساتھ کریں جس کے نتیجے میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں، اور رمضان المبارک کا ایسا استقبال ہوکہ یہ امت کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔<br /><br />حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریمؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسا کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینے میں کسی نے ستر فرض ادا کیے ہوں۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے‘‘۔ پس یہ وہ عبادات ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ پھر یہی استقبال ہے اور یہی استفادہ بھی۔</span></div><blockquote style="border: none; margin: 0px 40px 0px 0px; padding: 0px;"><div dir="rtl" style="text-align: center;"><span style="font-family: georgia;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div></blockquote><div><span style="font-family: georgia;"><br /></span></div><div dir="rtl" style="text-align: right;"><span style="font-family: georgia;">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔<br /><br /><b><span style="color: #2b00fe;"><span style="font-size: large;">نوٹ:</span> </span></b><span style="color: #351c75; font-size: large;">بلاگر کی جانب سے اس مضمون کو اخبارات و میگزین نیز ڈیجٹل میڈیا میں شائع کرنے کی اجازت ہے البتہ شائع کرتے وقت مصنف کا نام (<b>محمد آصف اقبال، نئی دہلی</b>) مع بلاگ کا ایڈیس (<b>maiqbaldelhi.blogspot.com</b>) شائع کرنا ضروری ہے۔</span></span></div><div><br /></div><div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-86396042775170253242019-03-18T12:56:00.001+05:302019-03-18T12:56:33.855+05:30جھوٹ پر مبنی معاشرہ کی ہلاکت خیزیاں !<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
جھوٹ پر مبنی معاشرہ کی ہلاکت خیزیاں !</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="white-space: pre;"> </span>انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ جس چیز سے ڈرتا ہے اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے یعنی اس کی ہرصحیح و غلط بات کو بے چوں و چرا تسلیم کر لیتا ہے۔ اسی ڈر اور خوف کی حقیقت سے واقفیت رکھنے والے فی زمانہ ظالم افراد،گروہ اور نظریات کے حاملین فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔برخلاف اس کے ڈر و خوف سے نجات پاچکے افراد ظالمین کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں ۔پھر جب وہ اُنہیں لالچ میں مبتلا کرنے ،ڈر و خوف پیداکرنے اورہر طرح کا حربہ استعمال کرنے کے باوجود ناکام ہوجاتے ہیںتو وہ ان پر ظلم کرتے ہیں،کچلنے،تباہ وبرباد کرنے اور فنا کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔یہ بات تاریخ انسانی سے بھی ثابت ہے کہ ظالمین نے اختلاف رائے رکھنے والوں پر کس کس دور میں کون کون سے طریقے اختیار کیے اور کس طرح بربریت کا ننگا ناچ کھیلا،عام انسانوں پر ظلم و زیادتیاں کیں،لوگوں کی زبانوں پر قفل چڑھائے،جھوٹ کو مشتہر کیا اور حق یا سچائی پر پردے ڈالے،روشنی سے انسانوں کو محروم کیا اور اندھیرے میںجینے پر مجبور کیاہے۔اس </div>
<div style="text-align: right;">
سب کے باوجود سچائی زیادہ دیر چھپی نہیں رہی،حق کو دبایا نہیںجا سکا،آخر کار باطل کو شکست ہوئی اور وہ نامراد ہوا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="white-space: pre;"> </span>سچ اور جھوٹ کے سلسلے میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم پر سچ بولنا لازم ہے، کیونکہ سچ بولنا نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ اور انسان لگاتار سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم لوگ جھوٹ بولنے سے بچو، کیونکہ جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کا راستہ دکھاتی ہے، اور انسان لگاتار جھوٹ بولتا رہتا ہے، جھوٹ بولنے کا متمنی رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے"(صحیح مسلم)۔اس حدیث میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر ہدایت کی گئی ہے کہ سچ بولیں، سچ کو فروغ دیں، سچ کی تشہیر کریں برخلاف اس کے جھوٹ سے پرہیز کریں، جھوٹ کے فروغ میں حصہ دار نہ بنیں اور جھوٹ کی تشہیر سے شعوری طور پر پرہیز کریں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ کی تشہیر سے شعوری طور پر ایک فرد کیسے پرہیز کرسکتا ہے جبکہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ فلاں بات سچی ہے یا جھوٹی؟اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرماتا ہے ،کہا کہ:"اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو"(الحجرات:۶)۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو، یعنی جس کا ظاہر حال ی بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ہم سب جانتے ہیں کہ جھوٹ کوئی اچھے چیز نہیں ہے۔ اس کے بے شمار منفی نتائج انسان کی نفسیات،مزاج اور عمل پر مرتب ہوتے ہیں۔اس کے باوجود ہم جھوٹ سے پرہیز نہیں کرتے، ہماری یہ صورتحال حد درجہ افسوس ناک ہے۔جھوٹ بولنے سے انسان باطنی طور پر کھوکھلا ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ جھوٹ سے انسان اپنے کردار کی مضبوطی کھو دیتا ہے۔بعض لوگ مذاق میں جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذاق میں جھوٹ بولنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ احادیث مبارکہ میں مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ مزاح کی حس قابل تعریف ہے، لیکن اس میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ بعض لوگ مسکراہٹ کی آڑ میں جھوٹ بولتے ہیں کہ مسکراہٹ ان کے جھوٹ پر پردہ ڈال دے گی، لیکن اللہ تعالیٰ جو کچھ سینوں میں ہے، اس کو بھی جاننے والا ہے۔ مزاح میں جھوٹ بولنے کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : "ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے۔ ہلاکت ہے اُس کے لیے، ہلاکت ہے اُس کے لیے ©"(سنن ترمذی و ابودا ¶د)۔حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مجھے اطلاع ملی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، اس وحشت ناک خبر کو سن کر میں اپنے گھر سے چل کر مسجد میں گیا، کچھ دیر وہاں توقف کیا تو کچھ لوگ وہاں بھی یہی باتیں کر رہے تھے یہ دیکھ کرمیں نے سوچا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے، میں اجازت لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا یا رسول اللہ! کیا حضور نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،نہیں۔ میں نے تعجب سے کہا: اللہ اکبر اور پھر مسجد کے دروازے پر آکر بلند آواز سے ندا کر دی کہ یہ خبر غلط ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو طلاق نہیں دی۔اس واقعہ میں جس طریقہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا ٹھیک یہی طریقہ ہم سب کا بھی ہونا چاہیے۔اس کے برخلاف عمل کے نتیجہ میںہم خود جھوٹ کو فروغ دینے والوں میں شامل ہو جائیں گے،جوکسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔وہیں یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے،لہذا کسی بات کا قلم سے لکھنا ٹھیک وہی حکم رکھتاہے جو زبان سے کہنے کاہے۔جس بات کا زبان سے ادا کرنا ثواب ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے اور جس کا بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے۔بلکہ لکھنے کی صورت میں ثواب اورگناہ دونوں میں ایک درجہ مزید زیادتی ہو جا تی ہے، کیوں کہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے،مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے، اس لیے جب تک وہ دنیا میں موجود رہے گی اور لوگ اس کے اچھے یابرے اثر سے متاثر ہوتے رہیں گے اس وقت تک کاتب کے لیے اس کا ثواب یا عذاب جاری رہے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="white-space: pre;"> </span>انسانی معاشرہ جب جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے تو اس میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔جھوٹ پر مبنی معاشرہ کے ہر فرد سب سے پہلے شجاعت و جرات ختم ہوتی ہے۔ایسے معاشرے میں مظالم بڑھتے جاتے ہیں۔اورظلم کے خلاف اہل باطل کے سامنے سچ کی گواہی دینے کی جرات اور ان سے سوال کرنے کی ہمت ختم ہو جاتی ہے۔انسانوں کے درمیان نفرتیں فروغ پاتی ہیں، اعتماد ختم ہوتا ہے،مسائل کا حل سوجھتا نہیں ہے، اور سوجھتا بھی ہے تو فکر و عمل میں اس کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے۔وہیں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس طرح مچھلی ہمیشہ سرکی جانب سے سڑتی ہے ٹھیک اسی طرح کسی قوم اور اجتماعیت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے کا آغاز اس کے سر کی جانب سے ہی ہوا کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سب سے پہلے کسی قوم کے اہلِ دانش میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں مفکرین، فلسفی، علماءکرام، شاعر، ادیب، صحافی، سیاسی و سماجی رہنما وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ منطقی بات ہے کہ ابتدا میں ابلاغ کا عمل اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے، جب ابلاغ کے عمل کا یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو ابلاغ کا یہ عمل اپنے پھیلاﺅ کے لیے دوسری سمتیں تلاش کرتا ہے۔اور دوسری سمتیں آج وہی ہیں جسے ہم سوشل میڈیا کہتے ہیں۔جس کے ذریعہ سے آج بڑے پیمانہ پر جھوٹ کی تشہیر اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ زبان و قلم اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ہم بہت محتاط رہیں۔لیکن اگر ہم نے اپنے شعور و بصیرت کا استعمال نہیں کیا تومعاشرہ حد درجہ بدصورت ہوتا جائے گا،اور اس کی بدصورتی میں ہم بھی کسی نہ کسی درجہ ذمہ دار ہوں گے!</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-52906275487385323112018-01-25T12:05:00.002+05:302018-01-25T12:11:11.761+05:30نفرت کے مبلغین اپنے ہی پھیلائے جال میں پھنستے ہیں!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<b><span style="color: blue; font-size: medium;">اس ہفتہ</span></b> کی خبروں پر نظر ڈالی جائے تو دو اہم خبریں ابھر کے سامنے آتی ہیں۔ایک :وشو ہندوپریشد کے بین الاقوامی ایگیزیکٹیو چیرمین پروین توگڑیا کا اچانک غائب ہو جانا اور پھر پریس کانفرنس میں ان کا یہ کہنا کہ میرے انکاﺅنٹر کی سازش رچی گئی ہے۔تو دوسری خبر : 'فائدے کا عہدہ'معاملہ میں عام آدمی پارٹی کے بیس اسمبلی کی رکنیت کا خطرے میں پڑنا ہے۔اس کے علاوہ چند ایسی خبریں بھی سرخیوں میں رہیں جنہیں کم نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔جن میں i)اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا دورہ ہندوستان اور اس کے خلاف حقوق انسانی کی تنظیموں کا احتجاج ہے ۔ii) دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سوشل میڈیا پر کنٹرول کی بات کہتے جنرل راوت کا بیان۔iii)سرحدوں پر جنگ جیسے حالات اورانسانی جانوں کی ہلاکت۔iv)سیٹلائٹ امیج کے حوالہ سے ڈوکلام کے شمالی حصے میں چینی فوج کی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش۔جہاں نہ صرف دو منزلہ واچ-ٹاور اور سات ہیلی پیڈ بنالیے گئے بلکہ ٹینک،میزائل،آرمڈوہیکلس اور آرٹلری تک جمع کیے جانے کی کوششیں۔v)جج لویا کے دوست کا دہلی میں ہوئی ایک میٹنگ میں سینئر وکیل ادے گوارے کا یہ کہنا کہ جج کی اچانک ہوئی موت پر ان کے ساتھیوں کو شک ہوا تھا اور لویا کی موت منصوبہ بند قتل ہو سکتی ہے۔اور وہیں vi) جج لویا کی موت کے معاملے میں سپریم کورٹ میں داخل عرضی پر چیف جسٹس دیپک مشرا کی بنچ کی سماعت کی خبر۔اس بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی شمولیت کا فیصلہ۔یہ ساری خبریں بہت اہم ہیںلیکن فی الوقت ہم اُن دو خبروں پر نظر ڈالیں گے جن کا تذکرہ آغاز میں کیا ہے۔<br />
<br />
<br />
شروع کرتے ہیں پروین توگڑیا کے اُس بیان کی جو انہوں نے انکاﺅنٹر کی سازش رچنے کی بات سے کی تھی ۔16جنوری کو اچانک وشوہندوپریشد کے لیڈر پروین توگڑیا تقریباً دس گھنٹے پراسرار گمشدگی میں رہتے ہیں۔اگلے دن وہ ایک پریس کانفرنس بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرضی پولیس انکاﺅنٹر میں ان کے قتل کے اندیشوں کے سبب خاموشی سے ہوائی اڈے سے راجستھان جانے کے لیے نکلے تھے اور اسی اثنا میں انکی طبیعت بگڑنے سے وہ بیہوش ہو گئے۔توگڑیا نے کہا کہ کل یعنی 16جنوری 2017،میں بھیاجی جوشی کے ساتھ پروگرام کر رہا تھا،میں نے گرفتاری کے سلسلے میں پولیس کو ڈھائی بجے آنے کے لیے کہا تھا لیکن میں جب صبح پوجاکررہا تھا تبھی ایک شخص آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ میرے انکاﺅنٹر کی سازش ہو رہی ہے۔توگڑیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے راجستھان کی وزیر اعلیٰ ،وزیر داخلہ سے رابطہ کیا اور اس کے بعد فون بند کر لیا تاکہ میرے فون کی لوکیشن پتہ نہ چل سکے۔اگلے دن 17جنوری 2017توگڑیا نے براہ راست پی ایم نریندر مودی پر حملہ بولا اور کہا کہ دہلی کے سیاسی باس(پی ایم مودی)کے اشارے پر کرائم برانچ کے جوائنٹ کمشنر جے کے بھٹ ان کے خلاف اور وی ایچ پی کے کارکنوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔توگڑیا نے مطالبہ کیا کہ بھٹ اور پی ایم نریندر مودی کے درمیان ہوئی بات چیت کو عام کیا جائے۔توگڑیا نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس کے پروموشنل سنجے جوشی کے خلاف 2005میںآئی سیکس سی ڈی فرضی تھی اور اس کو بنانے والوں کا نام وہ وقت آنے پر بتائیں گے۔ادھر ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق وشوہندوپریشد کاایگزیکٹو اجلاس فروری کے آخر تک منعقد کیا جائے گا۔جس میں آر ایس ایس کونسل کے دوبارہ انتخابات کو لے کر دباﺅ پیداکرے گا تاکہ راگھو ریڈی کو ہٹا کر نئے صدر کا انتخاب کیا جا سکے۔اس کے ساتھ ہی ریڈی کے توگڑیا سمیت دیگر حامیوں کو بھی ہٹانے کی مکمل منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔آر ایس ایس نے ان تمام لوگوں کو سنگھ سے باہر کا راستہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے ،جو بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سامنے آئے ہیں۔اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ 2019کے عام انتخابات ہیں۔<br />
<br />
<br />
دوسری جانب فائر برانڈ دلت لیڈر اور گجرات کے وڈگام سے رکن اسمبلی جگنیش میوانی نے بھی توگڑیا کے سر میں سرملاتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے بھی پروین توگڑیا کی طرح ڈرلگتا ہے۔مجھے بھی اس بات کا ڈر ہے کہ کچھ لوگ میرا قتل کر سکتے ہیں۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ مجھے قتل کر سکتے ہیں۔مجھے ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ مجھے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔میوانی نے یہ بات انڈین ایکسپریس سے گفتگو کے دوران کہی ہے۔نیز اِس آواز میں ایک اور آواز اس وقت مل گئی جب شری رام سینا کے بانی پرمود متھالک نے الزام لگایا کہ آر ایس ایس کے کچھ ساتھیوں سے انہیں جان کا خطرہ ہے۔نیوز 18کو انٹرویو میں پرمود متھالک نے کہا کہ میں اپنے دشمنوں کو بہت اچھے سے جانتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ وہ پیچھے سے وار کرنے میں بہت اچھے ہیں۔پروین توگڑیاکے ساتھ جو ہوا وہ میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔متھالک نے براہ راست طور پر آر ایس ایس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ "کرناٹک کے سینئر آر ایس ایس لیڈر منگیش بھینڈے مجھے پسند نہیں کرتے۔انہیں سابق وزیر اعلیٰ جگدیش سیٹر او دھرواڑ ممبر پارلیمنٹ پرہلاد جوشی کی حمایت حاصل ہے۔وہ مجھے شمالی کرناٹک میں نہیں چاہتے ہیں۔میرے پیچھے میرے اپنی ہی لوگ ہیں۔انہیں میری مقبولیت پسند نہیں ہے۔انہیں یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ کسی کو نام اور شہرت ملے۔متھالک نے کہا میں انے ان کے ساتھ اور ان کے بغیر بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس وجہ سے مجھے زبردستی تنظیم چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔واضح ہو کہ پرمود متھالک کرناٹک میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے تیز طرار لیڈر ہوا کرتے تھے۔دس سال پہلے انہوں نے تنظیم چھوڑ کر خود شری رام سینا تنظیم بنائی تھی۔حال ہی میں متھالک کرناٹک یونٹ چیف کے طور پر شیوسینا میں شامل ہوئے ہیں۔وہیں پرمود متھالک کے الزامات پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔حالات کے پس منظر میں بخوبی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا چل رہا ہے۔متذکرہ واقعات کے پس منظر میں ہی اگر سپریم کورٹ آف انڈیا کے چارججوں کی پریس کانفرنس کو یاد کر لیا جائے تو ہم سب پر حقیقت عیاں ہو جائے گی۔اس سب کے باوجود ہماری آنکھیں بند ہیں۔میڈیا جو کچھ دکھانا چاہتا ہے ہم بس اسی کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔برخلاف اس کے ظاہری چیزوں کے پس پشت حقیقت ہم سے عموماً اوجھل ہی رہتی ہے۔<br />
<br />
<br />
لیکن اگر دہلی کے سیاسی حالات پر نظر ڈالی جائے تو بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کا اعلان کرکے برسراقتدار عام آدمی پارٹی کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کابینہ وزیر سمیت کل 20ممبران اسمبلی کو فائدے کے عہدے پر رہنے کی بنا پر نا اہل قرار دیدیا ہے اور اس کی سفارش صدر جمہوریہ کو بھیج دی ہے۔نتیجہ میں دہلی میں ایک بار پھر ضمنی انتخابات کے امکانات قوی ہوگئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی ضمنی انتخابات کے نتیجہ میںکہاں کھڑی نظر آتی ہے؟ وہیں کانگریس اور بی جے پی کو لوگ کس قدر اور کن بنیادوں پر کامیاب کرتے ہیں؟اس کے باوجود کہ عام آدمی پارٹی نے اپنی حکومت کے دوران فلاحی کاموں کو عام آدمی کی رسائی تک پہنچانے اور ان سے مستفید ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ دیگر اسکیموں کے تحت آگے بھی جاری رہنے کے امکانات ہیں۔اس کے باوجود الیکشن کے دوران وہ اپنی کامیابیوں کو عوام تک کیسے باور کراتے ہیں اور کس قدر عوام ان کے کاموں سے خوش ہیں؟ یہ فیصلہ کسی حدتک ضمنی انتخابات کے نتیجہ میں سامنے آئے گا!<span style="white-space: pre;"> </span><br />
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-53674752976743581162017-07-05T11:22:00.002+05:302017-07-05T11:24:48.709+05:30بدلتے حالات میں صحیح تجزیہ کی ضرورت !<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14pt; line-height: 115%;"> </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14pt; line-height: 115%;">بے قابو بھیڑ
جس طرح آج کل ہندوستان میں بے قصور انسانوں کے قتل کی پیاسی بنی ہوئی ہے۔ان حالات میں
انسانیت سے ہمدردی رکھنے والا ہر شخص بے چین اور پریشان ہے۔اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے
بھی ہیں جو بھیڑ سے ہمدردی رکھتے ہیں، اس کی حمایت کرتے ہیں اور اُس کے اِس غیر قانونی
اور غیر انسانی عمل کی نہ صرف تائید کرتے ہیں بلکہ اُن کی نگہبانی اور محافظت کا کام
بھی انجام دے رہے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ جن حالات سے ہندوستان آج کل گزر رہا ہے وہ نئے
نہیں ہیں۔ظلم و تشدد اور قتل و غارت گری ہندوستانی سماج کی گھٹی میں موجود ہے۔یہ الگ
بات ہے کہ وقت اور حالات کی مناسبت سے اس کے اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں اور مختلف افکار
و نظریات اور عقائد سے وابستہ افراد و گروہ اِس کا شکار ہوئے ہیں۔یہ ظلم و تشدد کا
نظریہ سماج میں آزادی سے قبل بھی تھا اور آزادی کے بعد بھی جاری ہے۔ اس نظریہ کو فروغ
خصوصاً اس وقت حاصل ہوا جبکہ ہندوستان کی قدیم مہذب قوموں دراوڑ کوجنوب کی طرف دھکیل
کر تقریباً دیڑھ ہزار قبل مسیح وسط ایشا ءکی چراگاہوں سے نکلی ایران کو پامال کرتی
ہوئی خود کوآریہ کہلانے والی قوم نے ہندوستان میں اقتدار حاصل کیا۔ڈاکٹرمعین الدین
اپنی کتاب' عہد قدیم اور سلطنت دہلی'،ص 33پر لکھتے ہیں کہ:آریاکے معانی سنسکرت میں
بلند مرتبہ اور معزز کے آئے ہیں۔ یہ معنی غالباً آریوں نے برصغیر میں اپنائے ہیں۔ کیونکہ
وہ مقامی باشندوں کو پشیاجی یعنی کچاگوشت کھانے والے، داس یعنی غلام اور تشا یعنی حقیر
کہتے تھے۔ جب کہ ان کے مقابلے میں خود کو آریاکہتے تھے۔لیکن چونکہ دوسروں کو حقیر اور
خود کو برتر سمجھنے والی قوم آزادی سے قبل ایک طویل عرصہ تقریباًگیارہ صدیوں پر مشتمل
مدت ،اقتدار سے دور رہی لہذا اس کے ظلم وتشدد سے بھی لوگ محفوظ رہے۔اس کے باوجود حقائق
سے ثابت ہوتا ہے کہ آریہ قوم اور اس کا منووادی نظریہ ختم نہیں ہواہے۔ اور چونکہ کوئی
بھی قوم اس وقت تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ اس کے خاتمہ کا فیصلہ نہ
کردے لہذا وہ آج بھی نہ صرف اپنی آن بان اور شان کے ساتھ موجود ہیںبلکہ اپنے منو وادی
نظریہ کو جسے موجودہ دور میں ہندتو کا نام دیا گیا ہے ،منظم و منصوبہ بند انداز میں
فروغ دے رہے ہیں۔</span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">منو وادی
یا ہندتو نظریہ کے باالمقابل ہندوستان میں اسلام کا نظریہ گزشتہ بارہ صدیوں سے موجود
ہے۔لیکن چونکہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے اسلام کے نظام
حیات کو فروغ دینے کے لیے کسی سازش یا ظلم و تشدد کا طریقہ اختیار نہیں کیا لہذا اس
نظریہ کو خود با خود تقویت حاصل ہوئی اور چند مبلغین اسلام کی کوششیں رنگ لائیں۔نتیجہ
یہ نکلا کہ انسانوں پر اپنے ہی جیسے انسانوںکا اقتدار ختم ہوا ۔دوسری جانب مسلم حکمرانوں
نے ہندوستانی معاشرہ میں دراڑ ڈالنے اسے تقسیم کرنے اور منظم و منصوبہ بند انداز میں
ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش نہیں کی لہذا ہندو اکثریت ہونے کے باوجود امن و امان برقرار
رہا۔ہندوستانی حکمرانوں کے دور اقتدار کے بعد انگریز وں نے حکومت سنبھالی اور اس بات
کی کوشش کی کہ ہندوستانی معاشرہ تقسیم ہو،تاکہ وہ حکومت و اقتدار سے فائدہ حاصل کرتے
رہیں ۔انگریز اپنے لائحہ عمل 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو'کے پہلے حصے میں کامیاب رہے لیکن
دوسرے حصے میں ناکامی کے سبب حکومت و اقتدار اُنہیں چھوڑنا پڑا۔ہندوستان آزاد ہوا لیکن
پہلے دو حصوں میں اور بعد میں تین حصوں میں تقسیم ہو گیا۔موجودہ ہندوستان اور آج کے
حالات کے پس منظر میںجو عموماً گزشتہ سوسال پر محیط ہیںاور خصوصاً آزادی کے بعد سے
اب تک ،ہندوستانی معاشرہ کو دوبڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">i)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ظلم
و تشدد کا نظریہ ساتھ ہی جو کل حقیر تھے وہ آج بھی حقیر ہیں اور جو کل برتر تھے وہ
آج بھی برتر ہیں ، کا نظریہ۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ii)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">منو وادی
یا ہندتو نظریہ حیات کو قائم کرنے اور ہند میں جس نظریہ کی آمد کے سبب سابقہ نظریہ
میں ٹھہرا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> آیا تھایا
وہ بہت حد تک ختم ہو گیا تھا ،اس سے نفرت اور نظریہ اور حاملین نظریہ کے خاتمہ کی خواہش۔وہیں
چلینج یہ بھی ہے کہ کل انگریزوں نے جو طریقہ 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو'کا اختیار کیا
تھا اور اس کے لیے جس نفرت کی فضا کو ہموار کیا تھا ٹھیک وہی طریقہ آج بھی جاری ہے۔وہیں
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ منووادی نظریہ کے حاملین کو آزادی کے بعد ہی سے
اقتدار حاصل رہا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کل وہ کچھ کم تھے لیکن آج وہ اکثریت میں ہیں۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">گفتگو کے
پس منظر میں چند باتیں قابل توجہ ہیں جنہیں سمجھ لینا ضروری ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">i)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہندوسماج
آج بھی اُسی منو وادی نظام میں تقسیم ہے جس میں اسلام آنے سے قبل تقسیم تھا۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ii)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">منو
وادی نظام کے دو بڑے حصے آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں،ان میں پہلا
برہمن ہے تو دوسرا دلت۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">iii)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">نظریہ کے
اعتبار سے ہندوستان میں مارکس کے مبلغین اور الحاد پر یقین رکھنے والے بھی اچھی خاصی
تعداد میں موجود ہیں۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">iv)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اللہ پر یقین رکھنے والے لیکن
خدائی میں تین طاقتوں کے باطلانہ نظریہ کے حاملین بھی ہندوستان میں موجود ہیں،گرچہ
وہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">v)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہندوستان
میں رائج الوقت نظریہ تعلیم جو قوم و ملت کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے اس پر مارکس کے
مبلغین و الحاد پر یقین رکھنے والے نیز خدائی میں مثلث بنانے والوںکا تسلط ہے اور اب
دھیرے دھیرے ہندتو وادی نظریہ کے حاملین بھی اس میدان میں تیزی سے آگے بڑھتے نظر آرہے
ہیں ۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">vi)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">معاشی اعتبار سے ہندوستان میں بنیا
کہلانے والے لوگ بازار پر قابض ہیں ساتھ ہی کچھ ملٹی نیشنل کمپنیز ہیں جو عموماً بھید
بھا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> نہیں کرتے اور بس منافع حاصل کرنے کے سراغ میں
رہتے ہیں ۔اس کے باوجود یہاں بھی تیزی کے ساتھ بازار پر ان طاقتوں کا دائرہ بڑھتا جا
رہا ہے جو یا تو راست یا بلاواسطہ منووادی اور ہندتو نظریہ کے ہمدرد ہیںیا مجبوراًاُنہیں
اِن طاقتوںسے اظہار ہمدردی کرنا پڑتی ہے۔ویسے پالیسی کے اعتبار سے یہی بازاری قوتیں
ملک کی معاشی پالیسی بناتی ہیں اور حکومتیں عموماً اُنہیں کی بنائی مارکیٹ پالیسیوں
کونافذ بھی کرتی ہیں۔کیونکہ یہ جگ ظاہر ہے کہ صنعتی مالکان ہی مختلف سیاسی پارٹیوں
کو دولت فراہم کرتی ہیں جس کی بناپر وہ الیکشن لڑتی ہیں لہذا مارکیٹ پالیسی مستقبل
میں بھی یہی صنعتی مالکان بناتے رہیں گے ۔البتہ اس میں بھی متشدد نظریہ کے حاملین جیسے
جیسے اپنا دائرہ بڑا کریں گے دوسروں کا دائرہ تنگ ہوتا جائے گا۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">درج بالا
تجزیہ کی روشنی میں ضروری ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے۔جس تیز رفتاری
کے ساتھ معصوم ،مظلوم اور بے گناہ لوگوں کو بھیڑ کے ذریعہ ہلاک کیا جا رہا ہے اسے سمجھا
جائے۔جو لوگ اس بھیڑ کو جودرحقیقت منظم و منصوبہ بند اپنے طے شدہ اہداف پر عمل پیرا
ہے ابھی بھی بھیڑ سمجھ رہے ہیں وہ اس مغالطہ سے باہر نکلیں ۔منو وادی یا ہندتو وادی
سافٹ یا ہارڈ نظریہ کے حاملین جس خاموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
اسے بھی یاد رکھیں اور کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔جو نظریات کمزور پڑتے جا رہے ہیں
اور جو فروغ پا رہے ہیں یا فی الوقت انہیں کچھ زیادہ حوصلہ مل رہا ہے،انہیں سمجھیں،
مشاہدہ کریںاور ممکن ہو تو نوٹ بھی کریں۔ساتھ ہی ملک کا تعلیمی نظام،معاشی نظام اور
سیاسی نظام جن نظریات پر آج تک برقرار رہا ہے اور جو تغیرات مزید اس میں برپا ہو رہے
ہیںان کاتجزیہ کریںاورسمجھنے کی کوشش کریں۔اور اس پورے پس منظر میں اپنی حیثیت اور
شناخت کو برقرار رکھیں۔جو لوگ آج آپ کے ساتھ کھڑے ہیں یا آپ ان کے ساتھ کھڑے ہیں یا
کسی بھی طرح کے ظلم و نا انصافی کے خلاف کوئی محاذ بنتا نظر آرہا ہے تو خدا کے واسطے
وہاں بھی اپنی شناخت کھونے نہ دیں۔آپ کہیں گے شناخت کیسے برقرار رکھی جائے؟تو اس کے
بہت سے طریقہ ہیں لیکن دن میں پانچ مرتبہ آپ کی شناخت واضح کرنے کا ذریعہ نما ز ہے
اس سے کہیں بھی اور کسی بھی محاذ پرغفلت نہ برتیں۔۔۔ (جاری</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="LTR"></span>(<o:p></o:p></span></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-57830664705455823672017-05-17T15:00:00.001+05:302017-05-17T15:03:09.041+05:30ظلم و زیادتیوں کی شکار - ہندوستانی عورت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>بلقیس بانو اور نربھیا دو ایسی متاثرہ ہیں جن کے ساتھ دو الگ الگ مقامات پر بدسلوکی کی گئی۔ان کی عفت و عصمت سے اجتماعی طور پر کھلواڑ کی گئی۔اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی نے پورے ملک کو شرمسار کیا ہے۔اس کے باوجود یہ دو واقعات پہلے نہیں ہیں اور نہ ہی آخری ہیں۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ ان واقعات نے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ میڈیا بھی اپنا نظر کرم اسی وقت کسی واقعہ کی جانب کرتا ہے جبکہ اسے حد درجہ عوام کا اعتماد حاصل ہو۔نہیں تو ان دوواقعات کے درمیان گزرنے والے عرصہ میں نہ جانے کس قدر ملتے جلتے ظلم و زیادتیوں کے واقعات رونما ہوئے ہیںلیکن میڈیا نے انہیں نظر انداز کر دیا۔خواتین کے ساتھ حد درجہ ظلم و زیادتیوں کے یہ واقعات یا ان جیسے دیگر بے شمار واقعات جہاں عورت کو برہنہ کرکے عوام کے سامنے گھمایا جاتا ہے،اس کی عزت نفس سے کھلواڑ کی جاتی ہے،اس کو ایک داسی خادمہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،کبھی اسے جہیز کے نام پر آگ کے حوالے کیا جاتا ہے تو کبھی اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے ڈائن کہ کے موت کے حوالے کیا جاتا ہے۔مزید اسی سماج میں پلنے بڑھنے والے لفنگے اور غنڈے اپنی نظر بد اور بدکلامی سے ہر گلی کوچے میں سال کے بارہ مہینہ اور دن کے چوبیس گھنٹے عورت کو ذلیل و خوار کرنے سے بعض نہیں آتے۔یہ بھیانک تصویر اس سماج کی ہے جسے ہندوستانی سماج کہا جاتا ہے۔لیکن جہاں سماج کی یہ تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر یہ برتاﺅ ہندوستانی سماج میں عورت کے ساتھ کیوں روا رکھا جاتا ہے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>سوال کا جواب اگر ایک جملہ میں دیا جائے تو اس کی بنیادی وجہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور نظریہ ہے جہاں عورت کو کسی بھی سطح پر عزت نہیں بخشی گئی ۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ جیسے جیسے اسلام اور اسلامی تعلیمات ہندوستانی سماج میں پروان چڑھیں نیز دنیا کے دیگر مذاہب و ثقافت سے تعلق رکھنے والوں سے تعلقات استوار ہوئے،ہندوستانی سماج کو ظلم و زیادتیوں سے محفوظ رکھنے ،اس کو ذلت و رسوائی سے بچانے اور اس میں تبدیلی کے خواہاں چند افراد نے منظم و منصوبہ بند کوششیں انجام دیں ۔نتیجہ میں ہندوستانی ثقافت و نظریہ میں تبدیلی آئی اور چند حقوق ہندوستانی سماج میں عورت کو فراہم کیے گئے جو اس سے قبل نہیں تھے۔وہیں دوسری جانب جب عورت کو گھر سے باہر نکالنے والوں نے اسے بازار کی زینت بنایاتو وہ خود اُس نظریہ اور ثقافت کے جال میں پھنستی چلی گئی جہاں عورت کو بازار میں بکنے والے اشیاءکی مانند ایک کموڈتی سے بڑھ کے کوئی حیثیت نصیب نہیں ہو سکی ۔انہیں دو متشدد دھاروں کے درمیان جب عورت نے اپنی آزادی اور ہر سطح پر برابری کی بات کی تو وہ خود نہیں سمجھ سکی کہ اس کو راستہ دکھانے والے،اس کے رہبر اور مددگارآخر اس سے کیا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اور آج واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ عورت جو خود کو "مہذب معاشرہ"کا حصہ بناچکی ہے وہ اندرون خانہ پریشان ہے۔اس کے باوجود یہ الگ بات ہے کہ چونکہ گھر کے اندر ظلم و زیادتیوں میں وہ زیادہ مبتلا ہوتی ہے لہذا وہ "مہذب معاشرہ"کی تہذیب و شرافت کے لبادہ میں ڈھکی زیادتیوں کوبرداشت کرنے پر مجبور ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ہندوستان میں فی الوقت دو ریاستیں مخصوص ہیں ۔ایک دہلی جسے ہندوستانی کی راجدھانی ہونے کا شرف حاصل ہے۔تو دوسری ریاست گجرات جسے ماڈل ریاست کے طور پر ایک زمانے میں بہت زور و شور کے ساتھ میڈیا میں پیش کیا گیاتھا۔ان دونوں ہی ریاستو ں میں عورت پر بے شمار ظلم ڈھائے جاتے رہے ہیں ۔انہیں مظالم کی شکار وہ دو خواتین بھی ہیں جن کے نام سے اس مضمون کا آغاز کیا گیا۔یعنی بلقیس بانو جس کا تعلق گجرات سے ہے۔19سالہ بلقیس بانو کے ساتھ 2002میں دوران حمل اجتماعی عصمت دری کی گئی نیز 14رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔اس کا بیان ہے کہ 2002قتل عام کے دوران وہ نیم کھیڑا میں رہتی تھی۔حالات خراب ہونے کے بعد وہ اہل خانہ کے ساتھ وہاں سے جارہی تھی،جب مجرمین نے انہیں پکڑ لیا۔وہ کہتی ہے کہ وہ سب کو مار رہے تھے،مجھے بھی مارا اور کچھ دیر بعد بیہوش ہوگئی،جب میں ہوش میں آئی تو عریاں تھی۔بچی کی لاش پاس ہی رکھی تھی اور جتنے لوگ تھے وہ مر چکے تھے۔بعد میں اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ، 15سال عدالتی جدوجہد کے بعد اجتماعی آبروریزی اور 14افراد کے قتل کے جرم میں ممبئی ہائی کورٹ نے 11مجرموں کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی اور5پولیس اہلکاروں کے خلاف پھر سے تفتیش کا حکم دیا ۔لیکن اُنہیں 11ملزمان میں سے تین اہم ملزمان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ سی بی آئی نے کیا تھا، جسے ہائی کورٹ نے رد کر دیا۔یہ صرف ایک واقعہ ہے اُس مہذب ترین اور ترقی یافتہ ریاست کا جس سے ہمارے وزیر اعظم کا تعلق ہے اور جسے تہذیب و ثقافت اور تعمیر و ترقی کا گہوارا بیان کیا جاتا ہے۔دوسرا واقعہ بلقیس کے واقعہ سے کچھ کم وحشت ناک نہیںہے۔یہ واقعہ 16دسمبر 2012کی شام ملک کی راجدھانی دہلی میں واقع ہوا۔اس حادثہ کا فیصلہ بھی 5سال بعد سپریم کورٹ آف انڈیا نے 5مئی 2017جسٹس مشرا کے اِن الفاظ کے ساتھ سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ نربھیا کے ساتھ جس بربریت کا ثبوت دیا گیا،اس کی جتنی بھی تنقید کی جائے کم ہے۔قصورواروں نے نہ صرف سماجی اعتماد کا گھلا گھونٹا، بلکہ بربریت کی ساری حدیں پار کردیں۔315صفحات کے فیصلے اور جسٹس بھانومتی کے 114صفحات کے فیصلے کو ضرور پڑھنا چاہیے،جس سے اس معاملہ کے سنگین ہونے کے مزید ثبوت سامنے آئیں گے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>وطن عزیز میں خواتین کے ساتھ جاری ظلم و زیادتیوں اور استحصال کے پس منظر میں جس کی دومثالیں یہاں پیش کی گئیں،باخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ معاشرہ کس نہج پر گامزن ہے؟اس موقع پر ایک اور تصویر سامنے لانا بھی ضروری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے ہندوستان میں کامن سول کوڈ نافذ کرنے اور مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے کی منظم و منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔کامن سول کوڈ کے نفاذ میںممکن ہے ملک کے وہ افراد و گروہ اور خود حکومت ہندو معاشرہ و خاندان میں جاری عورت پر حد درجہ ظلم و زیادتیوں سے نجات چاہتے ہوں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ وہ اس معاشرہ کا راست حصہ ہیں اور بہت قریب سے خواتین پر جاری ظلم و زیادتیوں کو دیکھتے ہیں،لہذاچاہتے ہوں کہ کہیں ایسی کوئی صورت نہ پیدا ہو جائے کہہماری خواتین مسلم معاشرہ اور خاندان سے وابستہ خواتین کا تقابل کریں اور اسلام کی جانب اُن کا جھکاﺅ پیدا ہو جائے ۔اور یہ صورت اس لیے ممکن ہے کہ آج خصوصاً شہروں میں اور عموماً ملک کے بڑے حصہ میں خواتین علم کی طرف راغب ہوری ہیں ساتھ ہی معاشرتی تغیرات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔لہذا عین ممکن ہے کہ اگر وہ خود اپنے پرسنل لا میں تبدیلی نہیں لاتے ،تو ہندوستانی معاشرہ سے وابستہ خواتین اسلام یا اسلامی تعلیمات سے کسی قدر متاثر ہونے کے نتیجہ میں ان میں مخصوص مذہب سے رغبت پیدا ہوجائے،یا وہ خودجبکہ دستور کے مطابق اختیاری عمر میں داخل ہوچکی ہیں،اپنے نظریات اوررسم و رواج سے بغاوت کریں ۔لہذا کامن سول کوڈ کے قیام کی سعی و جہد میں اس نکتہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ ایک جانب کامن سول کوڈ کی بات کی جائے جس کے ذریعہ اندرون خانہ خامیوں پر پردہ ڈالا جا سکے،اسے دبایا جا سکے تو وہیں دوسری جانب مسلم معاشرہ میں موجود کمیوں کو اس درجہ بڑا کرکے دکھایا جائے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>گفتگو کے پس منظر میں اب ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ایک جانب ہم خودبحیثیت مسلمان اسلام اور اسلامی تعلیمات سے زندگی کے ہر مرحلے میں وابستہ ہوجائیںتو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر واقف ہواجائے۔ساتھ ہی ہر شخص جس درجہ میں بھی اسلامی تعلیمات کا علم رکھتا ہے اسے بحیثیت امتی محمدصلی اللہ علیہ وسلم عام کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-6845446009773245582016-09-27T12:02:00.003+05:302017-02-18T17:55:46.599+05:30ناکامیوں اور عدم اعتماد کی کیفیت سے باہر نکلیے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div style="text-align: right;">
فی الوقت ملک اندرون و بیرون خانہ بڑے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔اور بڑے ممالک عموماً ان حالات سے وقتاً فوقتاً دوچار ہوتے بھی رہتے ہیں۔اس لحاظ سے جن مسائل سے ملک دوچار ہے وہ نئے نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے حالات ہیں جس کامشاہدہ آج سے پہلے نہ کیا گیاہو۔وجہ یہ ہے کہ دنیا نے جس وقت سے خود کو حد بندیوں میں محدود کیا ہے،تبھی سے نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہوا ہے،نوسامراجیت،قوم پرستی،سرمایہ دارانہ نظام،ثقافتی سامراجیت،گلوبلائزیشن، انسانی کج دشمنی ، دوسرے ممالک پر اثر انداز ہونے یا یا دباﺅ ڈالنے کی پالیسی اورحقوق انسانی اور سا لمیت کے نام پر انتہا پسندی کے فروغ میںاضافہ سامنے آیا ہے۔یہ وہ مسائل ہے ہیں جنہیں بیرونی مسائل کے ذیل میں درج کیا جا سکتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<a name='more'></a>دوسری جانب وہ اندرونی مسائل ہیں جن کی موجودگی میں ملک اندر سے کمزور ہوتا رہتا ہے،اس کے باوجود غور و فکر کرنے والے اُن مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔بلکہ بعض اوقات مسائل کے اضافہ میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے انہیں خاموش حمایت کا اشارہ بھی دیا جاتا ہے۔ان مسائل میں وطن عزیز میں آزادی سے لے کر اب تک جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا ہے وہ اشتعال پر مبنی قوم پرستی کا مسئلہ ہے۔جس کے چلتے ملک کے مختلف مذاہب ، طبقات اور گروہ کو تقسیم کرنے کا کام منظم انداز میں سامنے آیا ہے۔اس کے علاوہ غربت و افلاس،جہالت، بے روزگاری، صحت عامہ کے مسائل وغیرہ ہیں،جنہیںآزادی سے لے کر اب تک ستر سال گزرنے کے باوجوداں پر قابو پانے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ بنیادی مسائل جیسے ٹوائلٹ اور صفائی ستھرائی تک کا منظم و پختہ نظام نہ ہم قائم نہیں کر سکے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے کو ئی سنجیدگی نظر آتی ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں گزشتہ دو سالوں سے اس پر کچھ توجہ دے رہی ہیں۔جس کے مظاہر یہ ہیں کہ پروجیکٹ تیار کیے جا رہے ہیں، نفاذ کی کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن اگر آپ اس پورے عملکا اعتدال پر مبنی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ نہ یہ کوششیں مستحکم بنیادوں پر جاری ہیں اور نہ ہی اس جانب خصوصی توجہ ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ بے تحاشہ دولت خرچ ہو رہی ہے اور وسائل کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے ،اس کے باوجود ،معاملہ وہیں کا وہیں ٹھہر ا ہوا نظر آتا ہے۔<br />
ملک اور سماج کے حالات اور مزاج کو سمجھنے کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وطن عزیز میں جو مرکزی و ریاستی حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں ان کی بنیاد یں کیا ہیں؟اس پہلو سے ملک کے طول و عرض میں مختلف ماڈل سامنے آتے ہیں۔اس کے باوجود ان میں کچھ باتیں یکساں ہیں۔جیسے مذاہب کی تقسیم،طبقات و گروہ اٹھک پٹخ،ذات پات کا نظام ،اقتدار پر قابض رہنے کی خواہش اور خوابوں کی خرید و فروخت۔وہیں جن چیزوں کی کمی محسوس ہوتی ہے ان میں جذبہ ہمدردی جذبہ انسانیت کی عدم موجودگی،عدل و انصاف پر مبنی نظام کی خواہش کا نہ پایا جانا، معاشی پالیسی میں تضاد،افکار و نظریات پر مبنی نظام کا نہ ہونا اور ہمہ جہت ترقی جو ملک اور اہل ملک کی مختلف جہات کو اوپر اٹھانے میں معاون و مددگار ہے اس کی قلت۔یہ وہ بنیادی اور بڑی خامیاں ہیں جو وطن عزیز کی سیاست و اقتدار میں شامل افراد کی کمیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔وہیں یہ بات جو عموماً کہی جاتی ہے، صحیح نہیں ہے کہ اہل سیاست بھی سماج ہی کا حصہ ہیںیعنی جس فکر و نظر اور جذبہ سے عاری سماج کے افراد ہیں ان ہی کی نمائندگی اہل سیاست بھی کرتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ جن بنیادو ں پر اور جس طریقہ کار کے ذریعہ اہل سیاست منتخب ہوتے ہیںوہ خود ناقص ہے خامیوں سے بھر پور ہے ۔لہذا کمیاں و خامیاں طریقہ انتخاب میں ہے نہ کہ شہریوں میں۔اس کی تین مثالیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔جن ریاستوں کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں وہ ملک کی راجدھانی سے قریب ترہیں۔پہلی مثال خود راجدھانی دہلی کی ریاستی حکومت اور اس کی پالیسیاں ہیں،جہاں انتخاب کے وقت بے شمار وعدے اور دعوے کیے گئے تھے،لیکن خود اُس پارٹی کی اندرونی و بیرونی کشمکش نے وعدوں اور دعوں کو ابھی تک پورا نہیں ہونے دیا ہے۔اس کے باوجود جس بڑی اکثریت کے ساتھ انہیں کامیابی حاصل ہوئی تھی یعنی 70میں سے 63ایم ایل اے،وہ کامیابی انہیں مطمئن کیے ہوئے ہے کہ ریاستی حکومت کے پانچ سال تو انہیں بنا کسی بڑے دباﺅ کے پورے ہونے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔لہذا مسائل جو جاری ہیں انہیں مزید بڑے کینوس پر مسائل کی شکل میں پیش کیا جائے تاکہ اپنی ناکامیاں چھپائی جا سکیں۔دوسری ریاست اترپردیش ہے ،یہاں بھی دہلی جیسے ہی حالات تھے جس کے نتیجہ میں موجودہ ریاستی حکومت کو 404ایم ایل اے والی اسمبلی میں 229سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔اس کے باوجود ریاست اترپردیش میں بے شمار مسائل ہیں جہاں تقریباًپانچ سال مکمل ہونے کے باوجود قابو نہیں پا یا جا سکا ہے ۔ان میں لاءاینڈ آڈر کی ناکامی اور ریاست میں ہونے والے چھوٹے بڑے فسادات ،کمزور و مظلوم طبقات پر ظلم و زیادتیاں،اقلیتوں کو نظر انداز کیا جانا، غربت و افلاس، بے روزگاری جیسے بے شمار مسائل جیسے پانچ سال پہلے تھے تقریباً وہی حالات آج بھی ہیں۔تیسری مثال ریاست بہار ہے جہاں حالیہ دنوں ہوئے آرجے ڈی اور جے ڈی یو اور کانگریس اتحاد کو 243سیٹوں میں سے 178سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور حکومت جاری ہے۔اس کے باوجود یہ اتحاد ایک بار پھر اندرون خانہ کمزور ہوتا نظر آرہا ہے۔وجہ وہی پرانی ہے کہ یہاں بھی ہوس اور اخلاقی جوابدہی سے عاری حکومت تشکیل دی گئی ہے۔اور اب اِس کے اشارات بھی ملنے شروع ہو گئے ہیںکہ جن لوگوں نے نظریاتی بنیادوں پر اور ذاتی رنجش کی وجہ سے ایک سیاسی پارٹی سے دوریاں اختیار کی تھیں آج ایک بار پھر وہ قربت محسوس کر رہے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ وہ نتیش کمار جنہوں نے چند روز قبل آر ایس ایس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اور اس کے لیے مہم چلانے کی بات بھی کہی تھی، اب وہی نتیش کمار آر ایس ایس کے سربراہ مفکرین میں شمار کیے جانے والے پنڈت دین دیال اپادھیائے کی صدی پر ہونے والی تقریبات کے لیے بنائے جانے والی کمیٹی میں بحیثیت رکن شامل ہیں۔سیاسی گلیاروں میں ان کی شرکت کو لے کر بی جے پی کے قریب جانے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔اس پس منظر میں وہ تمام دعوہ کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں جو کیے گئے تھے اور جو ابھی تک منظر عام پر موجود ہیں۔وہیں ریاست کے اندرونی مسائل پر نظر ڈالی جائے تو ریاست بہار حددرجہ غربت و افلاس میں مبتلا ہے، صحت عامہ کے مسائل سے بڑے پیمانہ پر متاثر ہے، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی قلت ہے،بے روزگاری ایک عام مسئلہ ہے،نتیجہ میںریاست کا نوجوان مختلف ریاستوں میں اپنے آبائی وطن ،اہل خانہ اور خاندان سے دور ،دربدر بھٹکنے پر مجبور ہے۔<br />
گفتگو کے پس منظر میں جب کہ حقیقی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے،عموماً ایک بڑا طبقہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔محسوس یہی ہوتا ہے کہ جب اس قدر مسائل ہیں اور حکومتیں بھی بے توجہی کا رویہّ اختیار کیے ہوئے ہیں،تو مسائل کیسے حل ہوں گے؟اور اگر وہ حل نہیں ہوتے تو ہم کب تک عدم اطمینان کی زندگی بسر کریں گے؟اس موقع پر دو طرح کے افراد و گروہ سامنے آتے ہیں۔ایک جو حالات کا مسائل کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہاتھ پیر چھوڑ کے بیٹھ جاتے ہیں تو دوسرے وہ جو قبل از وقت مسائل پر نظر رکھے ہوئے تھے،اس کے لیے کسی حد تک سرگرم عمل بھی تھے،اب مزید منظم و منصوبہ بند انداز میں اور نئے حالات اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے نئے لائحہ عمل کے ساتھ میدان عمل میں مزید قوت اور سرگرمی کے ساتھ میدان عمل میں اترتے ہیں۔اس مضمون کے پڑھنے والے ہر قاری کو اسی دوسرے گروہ میں شامل ہونا چاہیے،امید ہے کہ مسائل بھی حل ہوں گے،ناکامیوں اور عدم اعتماد کی کیفیت سے بھی باہر نکلیں گے،اور قوم و ملت اور ملک و اہل ملک سب ہی کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے اور یہی حوصلہ مند اور شجاعت پسند لوگوں کی زندہ مثال ہونی چاہیے !</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-13938959952179967572016-09-19T16:59:00.005+05:302017-02-18T17:59:58.754+05:30عدم تشدد کی تعلیم،جین دھرم اوراسلام کا فلسفہ قربانی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تازہ خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف انڈیا میںایک عرضی برائے مفاد عامہ دائر کی گئی ۔جس میں کہا گیا ہے کہ عید الا ضحی جسے عرف عام میں بقر عید کہتے ہیں،کے موقع پرجانوروں پر جاری ظلم و زیادتی کے روک تھام ایکٹ کی قانونی حیثیت کو صرف مذہب کی بنیاد پر نظر اندازنہیں کیا جاسکتا ہے،اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پوری طرح غیر انسانی وغیر قانونی عمل کہلائے گا۔اترپردیش کے سات افراد کی جانب سے دائر کی گئی عرضی میں مانگ کی گئی ہے کہ عدالت آنے والے دنوں میں اس کو بات کو یقینی بنائے کہ بقرعید کے موقع پر کسی جانور کا قتل ،قربانی کے نام پر نہیں کیا جائے گا۔عرضی وکیل وشنو شنکر جین کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔جس میں قانون کی دفع 28 کے تذکرہ کے ساتھ چیلنج کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی بھی برادری یا مذہب کے نام پر جانوروں کا قتل صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔انہوں نے مانگ کی ہے کہ عدالت جانوروں پر جاری ظلم و زیادتی کی روک تھام ایکٹ کی دفع28کے تحت ،بقر عیدکے موقع پر ہونے والی قربانی کو غیر قانونی قرار دے۔<br />
<a name='more'></a><br />
اس سے قبل کہ اس عرضی پر کوئی بات کی جائے اور اسلامی عبادت کا ایک اہم رکن قربانی کا کچھ تذکرہ ہو،آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جین مذہب آخر ہے کیا؟جین مت جو جین شاسن اور جین دھرم کے ناموں معروف ہے، ایک غیر توحیدی ہندوستانی مذہب ہے جو تمام ذی روح اور ذی حیات اجسام کے حق میں عدم تشدد(اہنسا ) کی تعلیم دیتا ہے اورجملہ مظاہر زندگی میں مساوات اورروحانی آزادی کا حامی ہے۔ جین مت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ عدم تشدد اور ضبط نفس کے ذریعہ نجات (موکش) حاصل کرسکتے ہیں۔فی الوقت جین مت دو بڑے فرقوں میں تقسیم ہے، شویتامبر اور دگمبر۔جین گرنتھوں کے مطابق 527 ق م وردھمان مہاویر (599-527 ق-م) نے نروان حاصل کیا تھا۔ روایتی طور پر جین مت کے پیروکار اپنے مذہب کی ابتدا اُن چوبیس تیرتھنکروں کے سلسلہ کو قرار دیتے ہیں جن میں پہلا تیرتھنکر رشبھ دیو اور آخری مہاویر تھے۔پارشوناتھ جو مہاویر کے پیشرو کہلاتے ہیں، وہ پہلے جین مت کی شخصیت ہے جن کی تاریخی شہادت میسر ہے۔ پارشوناتھ نویں سے ساتویں صدی ق م کے درمیان کسی زمانہ میں موجود تھے۔پارشو کے پروکاروں کا ذکرجین گرنتھوں میں ملتا ہے۔ ہندوستان میں ایک طویل عرصہ تک جین مت ریاستوں و مملکتوں کا سرکاری مذہب رہا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی سے جین مت کی شہرت اور اشاعت میں کمی آنے لگی، جس میں اس خطہ کے سیاسی ماحول کا بھی اثر تھا۔جین مت خدا کی ہستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بڑا ہے وہی انسان کی روح میں پائی جانے والی طاقت، خدا ہے۔ دنیا میں ہر چیز جاودانی ہے۔ روحیں جسم بدل بدل کر آتی ہیں مگر اپنی الگ ہستی کا احساس باقی رہتا ہے۔ نروان یعنی روح کی مادے اور جسم سے رہائی نویں جنم کے بعد ممکن ہو سکتی ہے۔جین مت کے عقائد سات کلیوں کی شکل میں بیان کیے جاتے ہیں، جن کو جین مت کی اصطلاح میں سات تتو یا سات حقائق کہا جاتا ہے۔یہ کائنات اور زندگی کے بنیادی مسئلہ اور اس کے حل کے بارے میں سات نظریات ہیں۔ جن میں جین مت کا بنیادی فلسفہ بخوبی سمٹ کر آ گیا ہے۔جین مت نے اپنے ماننے والوں پر کچھ مخصوص پابندیاں لگائی ہیں،ان میں جانوروں کا ہلاک کرنا،درختوں کو کاٹنا،حتی کہ پتھروں کو کاٹنابھی ان کے قریب گناہ ہے۔لہذا بقر عید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کے تعلق سے پابندی عائد کرنے کی عرضی کو مخصوص مذہب کے عقائد کی روشنی میں ہی دیکھنا اورسمجھنا چاہیے۔<br />
یہ بات بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب آج اختیار کیے جاتے ہیں،ان کی بنیادیں کہیں نہ کہیں آفاقی مذہب اسلام سے ملتی ہیں۔لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی ہے کہ مذاہب جوآج موجود ہیں،ان میں سے کون سا مذہب کس نبی ،رسول یا اس کی امت سے تعلق رکھتا ہے۔قرآن حکیم میں یہ بات بتائیگئی ہے کہ ہم نے آدمؑ کو علم اور حکمت کے ساتھ دنیا میں بھیجاتھا۔دوسرے الفاظ میں بتایا گیا کہ ہم نے آدم ؑکو علم بھی دیا اور نبی بھی بنایا ۔نبیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ آخری رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔اس لحاظ سے آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاءآئے انہوں نے صرف اور صرف توحید خالص اورسنت نبوی کی دعوت دی اور اسلام کو دین حنیف کے طور پر پیش کیا۔لیکن چونکہ ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کے آنے کی وجہ یہی رہی کہ درمیان میں لوگوں نے نبی کی تعلیمات اور شرعیت میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کیں،لہذا ایک اور نبی کو تمام آلودگیوں سے پاک تعلیمات دے کر بھیجا گیا۔یہاں تک کہ آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیوں کے سلسلے کو ختم کردیا گیا۔اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے جاتے وقت وہ عظیم ذمہ داری جو نبیوں کا خاصہ ہے،معروف کا حکم اور منکر سے ازالہ کی اہم ترین ذمہ داری امت محمدی کے سپرد کی ہے۔اُسی امت کو جس سے ہمار اور آپ کا تعلق ہے۔اس مختصر گفتگو میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ تمام افکار و نظریات ،جنہیں بعد میں مذہب کا نام دیتے ہوئے توحید خالص کی نفی کی گئی ،اُن مذاہب میں سے کسی کا بھی تعلق آفاقی تعلیمات سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔نیز وہ تمام بد اخلاقیوں پر مبنی نظریات،جن کے خاتمہ کے لیے نبیوں کو بھیجا گیا ، ان کا تعلق بھی کسی طرح خدا یا اس کی تعلیمات سے استوار نہیں کیا جاسکتا۔اس بنیادی گفتگو کے بعد آئیے اسلام میں فلسفہ حج اور قربانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس فلسفہ پر عمل کی توفیق بخشے،آمین۔<br />
اللہ تعالیٰ جو تمام مخلوقات کا خالق برحق ہے اس نے روز اول سے آج تک عبادت کی ایک شکل جانور کی قربانی رکھی ہے۔اس سلسلے کا پہلا واقعہ آدم ؑ کے بیٹوں کی قربانی میں بیان کیا گیا تو آخری انتہا حضرت ابراہیم ؑاور ان کے بیٹے اسماعیل ؑ کا واقعہ ہے جس میں اللہ کی مرضی اور رضا ہی بنیادی نکتہ ہے۔قربانی کا مقصد یہ ہے کہ بندہ مومن صرف اور صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ اس امّت کے لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اسی کے تم مطیعِ فرمان بنو" (سورہ حج : ۳۴) ۔عمل کے نتیجہ میں فائدہ یہ ہوگا کہ خدا کی رحمتیں وسیع تر ہوں گی،نیکی اور احسان کی صفات پیدا ہوں گی اور مغفرت الٰہی نصیب ہوگی۔دوسری جانب حج سب سے بڑی اجتماعیت اور سب سے زیادہ اجتماعیت والی عبادت ہے۔ سب سے بڑی اس لحاظ سے کہ سب سے زیادہ امتی اسی موقعہ پر ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، سب سے زیادہ اس پہلو سے کہ یہاں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت اختیار کرنے کے لئے ذرا بھی رخصت نہیں ہے۔برخلاف اس کے دوسری عبادتوں میں بھی اجتماعیت کی تاکید ہے لیکن انفرادیت کی گنجائش موجود ہے۔حج بین الااقوامی سطح پر امت میں اتحاد کا مظہر ہے نیزیہ وہ واحد عبادت ہے جس میں بیک وقت توحید،رسالت اور آخرت کے تصورات شامل ہیں۔ ارکان حج میںمیدان عرفہ میں قیام ایک اہم ترین رکن ہے۔یوم عرفہ قیامت کا منظر کشی کرتا ہے،جہاں تمام انسان رب اعلیٰ کے سامنے سربجود اس کی رحمت،نصرت اور مغفرت کے طلبگار ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ان دو عبادات کے ذریعہ امت مسلمہ کے میں وہ تمام خوبیاں پید اکرنا چاہتا ہے،جس کا مختصر تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔اس پس منظر میں اللہ کا نام لے کر قربانی کرنے کو جولوگ جانوروں پر ظلم و زیادتی سے تعبیر کرتے ہیں،انہیں نہ صرف تحریر و تقریر سے بلکہ عمل سے بھی حقائق کا مشاہد ہ کروانا چاہیے،جن حقائق سے یہ لوگ دراصل ناوقف ہیں۔ اور یہی وہ ناواقفیت ہے کہ جس کی بنا پر یہ خداواحد کا انکار کرتے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو اختیار نہیں کرتے،اور ان اندھیروں میں راستہ تلاش کرتے ہیںجہاں راستہ خود اپنا وجود نہیں رکھتا!<br />
12.09.2016</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-80983769981470379882016-09-18T17:02:00.000+05:302017-02-18T18:17:38.275+05:30راجدھانی دہلی- ڈینگو اور چکن گنیا کی چپیٹ میں<div dir="rtl" style="text-align: right;" trbidi="on">
<br />
یہ بات صحیح ہے کہ گرمیوں کے آواخر اوربرسات کے آغاز میں ایک طویل عرصہ سے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ڈینگو اور چکنگنیا جیسی خطرناک بیماریاں گزشتہ کئی سالوں سے شہریوں کو اپنی چپیٹ میں لیتی رہی ہیں۔اس کے باوجود اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات بھی موجود ہے کہ جس طرح امسال ان بیماریوں نے ملک کی مختلف ریاستوں میں لوگوں کو بیماریوں سے دوچار کیا ہے ،اس قدر بڑے پیمانہ پر آج تک یہ بیماریاں وبائی امراض کی طرح عام نہیں ہوئیں۔وہیں دہلی جو ملک کی راجدھانی ہے یہاں بے شمار مسائل آغاز ہی سے موجود ہیں، جن کے خاتمہ کے لیے کبھی منظم کوشش نہیں کی گئی۔<br />
<br />
<a name='more'></a>راجدھانی کے بڑے مسائل میں برسات کے پانی کی نکاسی آغاز ہی سے ایک بڑا مسئلہ بناہوا ہے،وہیں راجدھانی دہلی کی جغرافیائی وسعت ،آبادی کا اضافہ ، ترقی کے نام پر بلڈنگوںکی تعمیرات ،خراب مٹیریئل سے بننے والی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، نئی کالونیوں کا نقشہ کے بنا ہی وجود میں آنا، کوڑا اور غلاظت کے جمع کرنے اور اٹھانے کا ناقص نظام،صحت عامہ کے لیے ایمس جیسے بڑے اسپتالوں کی قلت،گندے پانی کے بہتے نالوں کے آس پاس جھگی جھونپڑیوں کا وجود میں آنا،اور حکومت کی قائم کردہ جے جے کالونیوں (جگھی جھونپڑی کالونیوں)کی وسائل کے لحاظ سے بدترین صورتحال،وغیرہ جیسے بڑے مسائل نے دہلی کو آج تک وہ درجہ نہیں دلایا،جس کی وہ بحیثیت ملک کی راجدھانی حق دار ہونی چاہیے تھی۔آزادی کے بعد ہی سے ملک اور رراجدھانی میں مختلف حکومتیں آئیں اور جاتی رہیں،اس کے باوجود یہ مسائل جن کا تذکرہ کیا گیا، آج بھی برقرار ہیں۔ہاں یہ صحیح ہے کہ جس شہر کے ہم واسی ہیں اس شہر میں اور عموماً بڑے شہروں میں تین طرح کے علاقہ پائے جاتے ہیں۔ایک پاش کالونیاں ،دوسرے درمیانی درجہ کے لوگوں کی کالونیاں اور تیسرے جے جے کالونیاں یا اس سے بدتر حالت میں رہنے بسنے والے لوگ،جنہیں بدبودار بہتے پانی کے آس پاس دیکھا جاسکتا ہے تو وہیں کوڑے اور غلاظت کے ڈھیروں کے نزدیک۔<br />
<br />
راجدھانی دہلی کی جو تصویر یہاں کھینچی گئی ہے ایسا نہیں ہے یہ تصویر آپ کی نظروں سے نہیں گزری ۔ملک کے کسی بھی بڑے شہر سے آپ کا تعلق ہو،یہی تصویر آپ کو وہاں بھی دیکھنے کو ملے گی۔لیکن اگرہر بڑے شہر کی تصویر ایک جیسی ہی ہے تو پھر یہ سوال لازماً اٹھنا چاہیے کہ بڑے شہروں کے یہ پڑھے لکھے ،سمجھ دار،دانا،عقل مند،ہوش مند،دولت مند،برسراقتدار لوگ کیا یہ ساری سمجھداری ، عقل مندی اور دولت کا استعمال انہیں جیسے مسائل کو برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں؟یا پھر حقیقت یہ ہے کہ یہ "پڑھے لکھے"اور"روشن خیال"لوگ ہی دراصل انسانوں کو انسانوں کے درمیان بانٹنے اور تقسیم کرنے کا کام کرتے ہیں؟واقعہ بھی شاید یہی ہے کہ جیسے جیسے انسان معاشی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے اس کا رہنے سہنے کا انداز بھی بدلتا جاتا ہے۔اِس پڑھے لکھے اور دولت مند انسان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو چکھ اس نے کمایا اور حاصل کیا ہے اس کو صرف اور صرف وہ اپنے اوپر استعمال کرے،یہاں تک کہ بعض اوقات یا زیادہ تر خونی رشتہ دار وں کو بھی اُن وسائل سے فیض یاب نہیں ہونے دیا جاتا جس کے وہ حقدار ہیں۔اور اگر آپ مزید سوال کریں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے تو اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ جس تیز رفتار ی کے ساتھ دنیا وسائل کے اعتبار سے ترقی حاصل کرتی جا رہی ہے، اخلاقی ذمہ داریوں اور احساس ذمہ داری سے اسی قدر تیزی سے پستی میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے،وجہ یہ ہے کہ مادیت اُن پر غالب آچکی ہے۔آج کسی بھی فرد کودوسرے کی تکلیف اور پریشانی سے واسطہ نہیںہے،الّا ماشااللہ۔سماج کی یہ وہ تکلیف دہ صورتحال ہے جس کے نتیجہ میں مسائل میں ہر صبح اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔غنڈے اور لوفر افراد و گروہ مختلف بہانوں سے اپنے ہی جیسے انسانوں پر ظلم و زیادتیوں میں مصروف ہیں۔اس کے باوجود مادیت اور خود میں کھوجانے کی کیفیت نے دوسرے کے دکھ درد اور مسائل سے ہر ایک کو دوسرے سے دور کیا ہوا ہے۔حکومتوں اور سرکاری اداروں کی صورتحال بھی اسی سے ملتی جلتی ہے۔کیونکہ ان حکومتوں اور سرکاری فلاح و بہبود کے ادارووں میں بھی اسی ناقص سماج کے تربیت یافتہ افراد موجود ہیں۔لہذا حکومتیں اور فلاح و بہبود کے ادارے بھی اپنی ان ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں،ادا نہیں کرتے جو ان پر لازم آتی ہیں۔وہیں برسراقتدار طبقہ یا لیڈران خودنمائی میں تو مصروف رہتے ہیں لیکن مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس اور قبل از وقت لائحہ عمل طے نہیں کرتے۔نتیجہ میں صحت عامہ سے متعلق جن بیماریوں کا تذکرہ کیا گیا تھا،ڈینگو اور چکنگنیا جیسے امراض ہر دن بڑھ رہے ہیں،بیماروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،بچے بوڑھے جوان،گھر کی خواتین، بیٹے اور بیٹاں ، اور ماں باپ و دیگر رشتہ داروں کی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ایک عجیب و غریب خوفناک صورتحال ہے کہ جس سے ہر شخص گھبرایا ہوا اور ڈرا سہما ہے۔اس سب کے باوجود کلیم اور بلیم کا کھیل جاری ہے۔ایک طرف ایم سی ڈی ہے،دوسری طرف ریاستی حکومت ہے، تیسری طرف مرکزی حکومت ہے،سب بیماریوں کو ختم کرنے میں جٹے ہوئے ہیں،ایک دوسرے کو سہارا دے رہے ہیں،لیکن وبا کی طرح پھیلی ڈینگو اور چکنگنیا کی بیماریاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔پڑھنے والا سوچے گا کہ جب تمام ہی ادارے اور ذمہ داران مصروف عمل ہیں تو مسئلہ حل کیوں نہیں ہو رہا ہے؟جواب یہی ہے کہ قبل از وقت بیماریوں کو نظر انداز کیا گیا،ہلکے میں لیا گیا،کوششیں جو ہونی چاہیں تھیں وہ نہیں کی گئیں،اور اب جبکہ حالات بے قابو ہو چکے ہیں،تو کی جانے والا عمل ،ناکام ثابت ہو رہا ہے۔<br />
<br />
31اگست2016تک 12,255چکنگنیا کے کیسس رجسٹرڈ کیے جا چکے تھے،جبکہ گزشتہ سال 2015میں یہ تعداد آدھی ہی تھی۔جبکہ 27,879کیسس ڈینگو کے سامنے آچکے تھے جن میں سے 60لوگوں کی اموات بھی ہوئی تھیں۔وہیں گزشتہ 2015میں ڈینگو کے مریضوں کی تعداد99,913تھی جس میں 220لوگوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھویا تھا۔اگر یہ تعداد گزشتہ سال بڑھی ہوئی پہلے ہی سامنے آچکی تھی تو کیا وجہ تھی کہ اس سال ان تمام ریاستوں میں جہاں سے یہ تعداد لی گئی ،قبل از وقت ہی الرٹ جاری نہیں کیا؟کیوں ان ریاستوں کی حکومتوں اور متعلقہ اداروں نے کوششیں نہیں کیں؟وجہ صاف ہے کہ سماج کے جس پیرامڈ کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے،اس میں ان بیماریوں سے بھی سب سے زیادہ متاثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو سماج کے نچلے یا درمیانی طبقہ میں آتے ہیں۔پڑھے لکھے ،سمجھ دار،دانا،عقل مند،ہوش مند،دولت مند اوربرسراقتدار لوگ عموماً ان بیماریوں سے بچے رہتے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہی طبقہ سماج کے اِن کمزور ترین افراد کی زندگی کے مختلف اتار چڑھاﺅ سے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ بھی کرتا ہے۔انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق ہر سال حساس آبادی کا 23%فیصد حصہ ڈینگو سے متاثر ہوتا ہے جسے اعداد و شمار کی روشنی میں 228,000افراد سے سمجھا جاسکتا ہے۔یہ تعداد معمولی نہیں ہے۔اس کے باوجود اگر متعلقہ حکومتیں ایسے ہی بے حس بنی رہیں تو پھر یہ وبائی امراض کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔اور آج کل دہلی اور کرناٹک میں ان بیماریوں نے حقیقتاً وبائی شکل ہی اختیار کی ہوئی ہے۔ڈینگو اور چکنگنیا دونوں ہی امراض میں ہر سال اضافہ سامنے آرہا ہے۔2010سے لے کر 2015تک چکنگنیا سے متاثرہ افراد کی تعداد الترتیب48,176،20,402،15,977،8,840،16,049،27,553تھی تو وہیں ڈینگو سے متاثرین کی تعدادبالترتیب 28,292،18,860،50,222،75,808،40,751اور99,913رہی ہے۔صرف ساﺅتھ دہلی کے جامعہ نگر علاقہ میں اب تک34اموات ہو چکی ہیں،دہلی اور ملک میں اموات و متاثرین کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ترین مرحلہ ہے ۔اس پس منظر میں محسوس ہوتا ہے کہ سال رواں2016یہ تعدادپچھلے تمام اعداد و شمار سے زیادہ ہوسکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان بچے ہوئے دنوں میں ہمارے لیڈران،برسراقتدار حکومتیں اور فلاح و بہبود کے ادارے ،گزشتہ اعداد و شمار کے ریکارڈ توڑنے کا کام کرتے ہیںذرا سی بھی انسانیت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے، عام شہریوں کی تکالیف اور دکھ درد میں شامل ہوتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کریں گے!<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-22254816091402827222016-09-08T10:51:00.002+05:302017-02-18T18:03:14.251+05:30ضرورت ہے کہ گمنام امن کے علمبرداروں کو متحد کیا جائے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہندوستانی سماج اور ہندوستانی معاشرہ آزادی سے قبل" لڑاﺅ اور راج کرو" کی پالیسی سے نبرد آزما رہا ہے۔اس کے باوجود ہند میں ہندﺅں اور مسلمانوں نے اتحاد و یگانگت کی زندہ مثالیں قائم کیں اور تخریب کاروں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا۔یہی وجہ تھی کہ انگریز اپنی تمام تر عیاریوں،مکاریوںاور دھوکہ دہی کے باوجود ذلیل و خوار ہوکر ملک سے دربدر کئے گئے۔اس کے باوجو د لڑاﺅ اور حکومت کرو کی پالیسی مستقل اور تسلسل کے ساتھ مختلف نعروں کی شکل میں آج بھی جاری ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ سلسلہ نہ کل بند ہوا تھا اور نہ ہی آج بند ہواہے۔اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ تخریب کارہمیشہ اور ہر دور میں یہی کوشش کرتے آئے ہیں کہ جذباتیت کو فروغ دے کر لوگوں کو اکسائیں،بھڑکائیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<a name='more'></a><br /><br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
فرقوںو طبقات میں تقسیم کریں،غلط فہمیاں پیدا کی جائیں،نفرتیں پروان چڑھائیں،سماج میںمختلف طبقات ،مذاہب اور عقیدہ کی بنیاد پرخلیج جو پہلے سے قائم ہے اس کو حد درجہ مزید گہرا کریں۔اوران نامناسب اور قابل مذمت طریقہ کار اوربنیادوں پر پوری انسانیت کو بری طرح تقسیم کر دیا جائے۔یہاں تک کہ انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے اس قدر کدورت پیدا کی ہوجائے،کہ پھر ،بنا لڑائے ہی وہ آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں ۔نتیجہ میں شعوری و غیر شعوری طور پر ایسے طبقات اپنے آپ کو حکومت کی باگ دوڑ سے الگ تھلگ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ یہ طبقات ،گروہ اور ملتیں،بری طرح مسائل میں گرفتار ہو جائیں ۔ ایسے موقع پرنہ انہیں ملک کے کسی مسئلہ پر غور و فکر اور لائحہ عمل تیار کرنے کی فرصت ملے گی اور نہ ہی وہ کسی طرح حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے پائیں گے۔نیز امن و امان کے قیام،ملک و ملت کی فلاح و بہبود اور عدل و انصاف کے پیمانے خود بہ خود کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جائیں گے۔ایسے موقع پر راست فائدہ کسے حاصل ہوگا؟یہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آپ یہ بات بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد خشکی کے راستہ سے سندھ تک او ر بعد میں کیرل او رکوکن کے ساحلی علاقوں سے پہنچا تھا۔وہیں یہ بات بھی کچھ چھپی ہوئی نہیں ہے کہ ہندوستان میں دیگر مذاہب کے اختیارکرنے والوں نے اسلام کو جس قدر مقبول عام بنایا یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔یہی وہ مذہب تھا جس کو ہندوستان کی ہر برادری نے کم و بیش قبول کیا۔نتیجہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی گوجر ، راجپوت ،جاٹ ،ٹھاکر ،برہمن،لالہ ، تیاگی اور بے شمار فرقوں و برادریوں میں ہندوستان کے ہر شہر، قصبہ اور گاﺅں میں مسلمان موجود ہیں۔اور یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مذہب کا یہ اختلاف رہن سہن میں تفریق کا باعث نہیں بنا بلکہ اختلافِ مذاہب کے باوجود ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہے ۔ٹھیک اُسی طرح جس طرح ایک گھر کے دو بھائی غمی و خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کی مزاج پرسی کرتے ہیں۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ یہ پیارومحبت کا رشتہ ہندوستانی قوم کے رگ وریشہ میں پیوست تھا او رہر سطح پر پایا جاتا تھا تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا ، کیونکہ ہمیں ہندومسلم راجا ﺅں اوربادشاہوں کی حکومتوں میں بھی انتہائی حساس عہدوں پر بلاتفریق مذہب ہندومسلم دونوں ملتے ہیں۔ہندوستان کبھی بھی سیاسی او رملکی معاملات میں ہندومسلم تفریق وامتیاز کا قائل نہیں ہوا۔اس کی حکومتیں خواہ مسلم حاکم کے زیر اثر رہی ہوں یا ہندوفرمانرواﺅ ں کے ،وہ کبھی افتراق وامتیاز سے آشنا نہیں ہوئیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ جیسے کٹر مذہبی راجہ کی وزارت میں ہندواور سکھوں کی طرح مسلمان شریک تھے۔پیر زادہ عزیز الدین وزیر تھے او رالہی بخش توپخانہ کے سردارتھے ،مرہٹوں کے توپخانہ کا اعلیٰ افسر ابراہیم کردی تھا۔اکبر بادشاہ کی قوم پرستی کسی تحریر اور تفصیل کی محتاج نہیں۔جہانگیر بادشاہ کا عدل ومساوات بھی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اس کے تو پخانہ کے افسراعلیٰ راجہ بکرماجیت تھے جن کے ماتحت پچاس ہزار توپچی او ر تین ہزار توپیں رہتی تھیں۔اور نگزیب عالمگیر کو کٹر مذہبی کہاجاتا ہے مگر جب اس سے کہا گیا کہ حکومت کا منصب کسی غیر مسلم کو سپردنہ کیا جائے تو اس نے نہایت تعجب اور حیرت سے اس اعتراض کو سنا او ربڑی بے نیازی سے جواب دیاکہ دنیا کے انتظامی امور میں منصب کا مدار قابلیت ہوتی ہے مذہب کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ اس کے بڑے بڑے منصب داروں میں ساہو پسر راجہ سبتا ،جے سنگھ ،جسونت سنگھ ،سیواجی کے دامادراجندرجی اور ان کے علاوہ بڑے بڑے راجپوت او رہندوتھے جن کی تعداد بقول منشی کیول رام بٹالوی سوسے زیادہ تھی۔اور حضرت سید احمد صاحب شہیدؒ نے اپنے توپخانہ کا افسر راجہ رام راجپوت کو بنایا۔لارڈ ولیم بیٹگ نے ۲۸۸۱ءکی تقریر میں، ڈبلیو ایم ٹارنس نے اپنی کتاب "ایشیاءمیں شہنشاہیت" سربی رام آف بنگال نے اپنی تصنیفات میں او ر پنڈت سندرلال آف الہ آباد نے اپنی کتاب"بھارت میں انگریزی راج" میں ایسی بہت سی مثالیں او رنظیر یں پیش کی ہیں جن سے ہندو مسلمانوں کے باہمی بہتر تعلقات او رآپس کے اعتماد پر روشنی پڑتی ہے واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے حکمراں ہمیشہ اس اصول کے حامی رہے کہ ملاﺅاو ر حکومت کرو۔حتی کہ سلطنت مغلیہ کے بانی بابر بادشاہ نے اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی،اے بیٹے ہندوستان مختلف مذاہب سے پرہے، الحمدللہ کہ امالک برحق نے اِس ملک کی بادشاہت تمہیں عطا فرمائی ،تمہیں چاہئے کہ تمام تعصبات مذہبی کو لوح دل سے دھوڈالو۔او رعدل وانصاف کرنے میں ہرمذہب وملت کے طریق کا لحاظ رکھو۔جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کرسکتے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے آنے والے انسان آدم ؑ تھے۔جن کی اولاد آج پوری دنیا میں رہتی بستی ہے۔آدم ؑ کی وہ اولاد جس نے ابتدا میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کی تھی وہی اولاد آج بھی زیادتیوں میں ملوث ہے۔اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان الفت و محبت قائم کی ہے۔ہماری ذمہ داری ہے کہ اُسی الفت و محبت اور ہمدردی و غمگساری کو ہم اختیار کریں۔نتیجہ میں دنیا میں امن کے قیام میں مصروف عمل رہنے والوں کو ،جبکہ وہ ایک خدائے واحد پر بھی یقین رکھتے ہوں،آخرت میں بھی امن نصیب ہوگا۔برخلاف اس کے نہ دنیا میں ہی سکون میسر آئے گا اور نہ ہی آخرت میں۔الفت و محبت اور ہمدردی و غمگساری کے تعلق سے اگر ہندوستانی سماج پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ فضا صدیوں سے برقرار ہی ہے ،جس کی چند مثالیں اوپر دی گئی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ یہی بات دنیا کو حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ ہندوستان میں حد درجہ تنوع کے باوجود لوگ صدیوں سے امن و امان کے ساتھ کیسے رہتے چلے آرہے ہیں؟ہندوستان میں آج بھی ایک ہی گاﺅں میں مختلف مذاہب اور نسلی گروہوں کے لوگ رہتے ہیں،اور وہ آج بھی ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک تو غموں میں سہارا بنتے ہیں۔مذہبی ونسلی اختلاف کے باوجود وہ اپنا رشتہ انسانی بنیادوں پر استوار کیے ہوئے ہیں۔دوسری جانب یہی وہ حالات بھی ہیں جو مٹھی بھر شرپسند وں کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ یہ حالات تبدیل ہوں،انسانیت کا خاتمہ ہو،امن برقرار نہ رہے،منافرت کا بازار گرم ہو،معاشرہ منتشر ہو اور وہ اپنا کاروبار چمکائیں۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم حالات کو سمجھیں۔اور حالات کو سمجھنے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جہاں اور جس مقام پر بھی ہوں،بلا لحاظ مذہب و ملت رابطوں کو استوار کریں اور دوریوں کا خاتمہ کریں۔کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوںہونے والے چند واقعات ایک مخصوص فکر و نظر سے تعلق رکھنے والوں کی شہ پر ہوئے ہیں،یہ وہی ہیںجو تخریبی پالیسی ہی کوکارگر سمجھتے ہیں۔اس کے باوجود اگر ہم چاہیں تو امن کے علمبرداروں کو متحد کرسکتے ہیں اور یہی آج سب سے بڑا کام ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہر زمانے میں ایسی رکھی ہے جو امن و امان کی خواہش لیے گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں۔اگر ان گمنام امن کے علمبرداروں کو یکجا اورمتحدکیا جائے، ایک پلیٹ فارم پر لے آیا جائے،اور اس سفر کا آغاز گفت و شنید سے شروع ہوکر پیغام حق تک جاری رکھا جائے ۔تو عین ممکن ہے کہکہ اس عمل سے نہ صرف ملک میں امن قائم ہوگا بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ خدا کے بندے خدا کے آگے سربجود ہوجائیں گے۔ضرورت ہے کہ اس کام کوسنجیدگی،دلچسپی ،مستعدی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دیا جائے!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
05.09.2016</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-32063462256219286472016-09-08T10:50:00.004+05:302017-02-18T18:05:27.702+05:30تکریم انسانیت اور ملک کی تشویشناک صورتحال<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔جس کا رقبہ بتیس لاکھ ستّاسی ہزاردوسوترسٹھ کلو میٹرہے۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق ملک میں 1.2ارب افراد رہتے ہیں۔ان میں 79.8%فیصد ہندو،14.2%فیصد مسلمان،2.3%فیصد عیسائی، 1.7%فیصد سکھ،0.7%فیصد بدھ ازم کو ماننے والے، 0.4%جین، اور 0.9%دیگر افرادہیں۔ملک میں تمام ہی مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ان میں عیسائیت کے ماننے والے بھی ہیں اور اسلام کے ماننے والے بھی، ہندو بھی ہیں توسکھ مت،بدھ مت،جین مت ،زرتشی اور بہائیت کے ماننے والے بھی ۔نیز ایسے افراد کی بھی کافی تعداد موجود ہے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے۔ملک کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ایک ساتھ سترہ سو زبانوں کے بولنے موجود ہیں ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<a name='more'></a>وہیں یہ بھی دلچسپ لیکن تلخ حقیقت ہے کہ انسانوں کو تقسیم کرنے میں بھی ہمارا ملک دنیا میں واحد ترین ملک ہے یعنی ملک میں تقریباًسترہ سو ذاتیں پائی جاتی ہیں۔ملک کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں انگریزوں کے آنے سے قبل اور جانے کے بعد تمام ہی افراد مل جل کر رہتے آئے ہیں۔انگریزوں کی آمد نے سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا،'پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو 'کی پالیسی اختیار کی اور اہل ملک اس کا شکار ہو گئے۔ نتیجہ میںملک تقسیم ہوگیا۔نہیں تو ہندوستان جو ہر اعتبار سے ایک عظیم ملک تھاہندوستان ،پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش میں تقسیم ہوکر ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوتا۔اس کے باوجودآج بھی ملک اپنے تنوع ، سماجی تانے بانے ،رشتہ ، تعلقات اور معاملات کے اعتبار سے دنیا کے لیے حیرت انگیز خصوصیات کا مالک ہے۔<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
وطن عزیز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں حد درجہ تنوع ہے اس کے باوجود ایک ہی گاﺅں میں مختلف مذاہب کے لوگ اور نسلی گروہ مل جل کر رہتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں،خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں، مل جل کر ہی ملک کی معیشیت اور سماجی تانے بانے کو تقویت پہنچاتے ہیں اورمشترکہ مسائل سامنا بھی ایک ساتھ کرتے ہیں۔تنازعات ہوتے رہے ہیں لیکن فرقہ وارانہ صورتحال اور تشدد وٹکراﺅ کم ہی ہوتا ہے۔یہاں تک کہ وقتاً فوقتاً فسادات بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان فسادات نے مستقل تصادم کی صورت کبھی اختیار نہیں کی۔دستور کی روشنی میں دیکھا جائے تو دستور بھی تمام فرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو پوری آزادی دیتا ہے۔نیز آپس میں بھائی چارہ اور امن وامان کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔دستور کا دیباچہ تمام شہریوں کے درمیان اخوت، بھائی چارہ، مساوات ،آزادی اظہار اور معاشی و سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ تکریم انسانیت ،جیسی اعلیٰ قدروں پر زور دیتا ہے۔ملک کا جو مختصر ترین اور خوبصورت نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے،اس کا انکار کئے بنا، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ جو کچھ کہا جاتا ہے اور جو اختیارات دستور کی شکل میں موجود ہیں،درحقیقت کیا ان پر عمل درآمدکیا اور کروایا جاتا ہے؟عمل کیے جانے سے مراد اہل ملک کا سماجی اور طبقاتی نظام ہے اور عمل کروایا جانے سے مراد ملک کا نظم و نسق اور عدل و انصاف کے پیمانہ ہیں۔جب ہم تصویر کے اس رخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ملک کی ایک بھیانک تصویر بھی ہماری نظروںسے گزرتی ہے۔جہاں انتہا پسندانہ رجحانات میں تیزی سے اضافہ ہے تو وہیں سماجی تانے بانے کو پارہ پارہ کرنے کی منظم و منصوبہ بند سعی و جہد۔نیز آزادی اظہار پر لگام کسنے کی تیاری ہے تووہیں معاشی و سماجی سطح پرعدل و انصاف کا ہوتا ہوا خون۔مزید دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ تکریم انسانیت کی بجائے ذلت و خواری انسان کا مقدر بن چکی ہے۔ملک کی یہ دو تصویریں ہیں جن میں سے ایک کو آنکھ بند کرکے دیکھا جا سکتا ہے تو دوسری جگ ظاہر ہے۔آپ کون سی تصویر دیکھتے ہیں؟اور کون سی دیکھنا پسند کرتے ہیں؟یہ مجھے نہیں بلکہ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے۔ہم نے تو اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور آنکھیں بند کیے رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ لیکن جسم پر اس وقت تیز جھرجھری طاری ہو جاتی ہے جبکہ آنکھ بند کیے رہنے میں بھی سکون نہیں ملتا۔کیونکہ خواب و خیال میں بھی انسان کو وہی کچھ دکھتا ہے جو اس کے شعور اور تحت الشعور میں موجود ہے۔اور یہ شعور و تحت الشعور اسی وقت ارتقاءپاتا ہے جبکہ آپ کچھ دیکھتے،سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آئیے تکریم انسانیت کے خوبصورت نعروں کے درمیان تذلیل انسانیت کے چند تازہ واقعات آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں۔پہلا واقعہ اڑیسہ کے کالا ہانڈی ضلع کا ہے جہاں ایک قبائلی آدمی اپنی بیوی کی مردہ لاش کندھے پر لاد کر چھوٹی بچی کے ساتھ پیدل چل نکلتا ہے۔وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ نعش کو کسی گاڑی سے اپنے گھر تک لے جاسکے۔اس دردناک واقعہ پر ریاست کے وزیر صحت سبّیہ ساچی نے کہتے ہیں کہ حکومت اس تکلیف دہ حادثہ کو لے کر فکر مند ہے،ہم حل تلاش کر رہے ہیںاور مستقبل میں ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے اس کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن غور فرمائیے تو یہ واقعہ ،صرف ایک واقعہ نہیں ہے۔یہ حقیقت ہے اس پورے نظام کی جہاں انسانیت مرچکی ہے ساتھ ہی یہ جنازہ صرف اس مردہ عورت کا نہیں بلکہ یہ اس نظام کی سڑی ہوئی لاش ہے جس کے درمیان ،پرسکون انداز میں ،ہم اور آپ شب و روز گزارتےہیں۔دوسرا واقعہ ،پنا گرتحصیل ،جبل پور ،مدھیہ پردیش کا ہے ۔یہاں معاشرہ کے ان غنڈہ عناصر نے ایک طبقہ کوادنیٰ قراردیتے ہوئے ،اسی طقبہ کی ایک نعش کو اُس راستے سے نہیں جانے دیا جو ان کے قبضہ میں تھی۔برسات کی وجہ سے چونکہ گاﺅں کی کچی سڑک ڈوب گئی تھی لہذا میت کے متعلقین میت کو تالاب کے راستے لے جانے پر مجبور ہوئے۔جبکہ جس راستے سے میت کو لے جانے سے روکا گیا تھا،بتایا گیا ہے کہ وہ زمین سرکاری ہے اور غنڈہ عناصر کے قبضہ میں ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ اعلیٰ طبقہ ہی کیا غنڈہ عناصر ہے؟اور اُس واقعہ کو بھی سنتے چلئے جس کے سنتے ہی آپ کے روگنٹے کھڑے ہوجائیں گے،اورآپ اپنے سرکر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔یہ واقعہ بھی اڑیسہ کے بالاسور ضلع کا ہے۔جہاںریلوے اسٹیشن سے قریب ایک 80سالہ بیوہ خاتون،مال گاڑی کے نیچے آگئی اور موت ہوگئی۔لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لے جانا تھا،لیکن ایمبولنس کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لاش کی ہڈیاں ٹوڑی گئیں،اس کو ایک بورے میں بھرا گیا،اور دولوگ ایک پوٹلی باندھ ،ڈنڈے پر لاد ،پیدل چل نکلے۔غور فرمائیے گا یہ تین واقعات ہمیں کس جانب سوچنے پر مجبور کرتے ہیں؟کیا یہ واقعات تکریم انسانیت ہیں یا تذلیل انسانیت کے؟واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کی تکریم ان ہی جیسے انسانوں کے درمیاں تذلیل میں تبدیل ہوچکی ہے۔اُسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں ایک جانب یہ رویّے ہمارے سامنے آتے ہیں وہیں وہ واقعات اور رویّے بھی موجود ہیں جن میں نہایت درجہ ظالمانہ اور دہشت ناک واقعات کی مثالیں سامنے موجود ہیں۔آپ کو خوب اچھی طرح یا د ہوگاجھارکھنڈ کے اس کم عمر نوجوان کی نعش جسے پیڑ پر لٹکایا گیا تھا، دادری میں محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل،دہلی ،ہریانہ ،گجرات،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ،آگرہ اور ممبئی میں چرچوں پر حملے،یونی ورسٹیوں میں دلتوں پر حملے،اور وہ واقعات بھی جو مقدس گائے اور نہ جانے کون کون سے افسانہ گڑھ کر ،پورے ملک میں جاری ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟ضرورت ہے کہ اُس فکر کو تبدیل کیا جائے جو فکر انسانوں کو کیڑے مکوڑوں سے بھی کمتر سمجھتی ہے،جو انسانوں کے درمیان نفرت کو فروغ دیتی ہے،جو عقیدت کے نام پر تشددکا ذریعہ بنتی ہے اور اس فکر کو بھی تبدیل کیا جائے جو خدائے واحد کو تسلیم نہیں کرتی۔آپ پوچھیں گے یہ کیسے ہوگا؟ہم بس یہیں کہیں گے کہ اپنے مخصوص دائروں سے نکلاجائے اور عوام الناس کے درمیان روابط بڑھائیں، ان کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوا جائے اور تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد سمجھتے ہوئے دوریاں ختم اور قربتیں قائم کی جائیں۔ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھی اور رکھوائی جائے کہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کسی بھی قسم کا پردہ حائل نہیں ہوتاہے!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
29.08.2016</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-85489256584198678472016-08-29T17:01:00.002+05:302017-02-18T18:06:03.153+05:30امن اور انسانیت کے قیام کا مشترکہ پلیٹ فارم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دنیا میں دو طبقات ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں ۔ایک وہ جو اقتدارپر قابض ہے تودوسرا وہ جو کسی اقتدار کے زیر سایہ ہے۔وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ برسراقتدار طبقہ عموماً اپنے اختیارات کا صحیح استعمال نہیں کرتا ہے۔نتیجہ میں ملک و سماج میں کمزور اور مظلومین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔مظلومین کی تعداد میں اضافے کے ایک معنی یہ ہیں کہ اُن کے ساتھ جاری ظلم و زیادتیوں کا فیصلہ عدل و انصاف کے پیمانہ سے گرا ہوا ہے تو وہیں یہ بھی ہیں کہ راست یا بلاواسطہ اُن انتہا پسند ،شرپسند اور گنڈہ عناصر کو برسراقتدار طبقہ کی خاموش حمایت حاصل ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جب سے ممالک کی حد بندیاں کی گئیں اور بین الاقوامی سطح پر ایک ملک کو دوسرے ملک کے اُن داخلی امور سے روکا گیا ،جہاں عوام ظلم و زیادتیوں کے شکار تھے،اسی وقت سے سرد جنگ اور پروکسی وارکے الفاظ بھی تخلیق پائے ہیں۔<br />
<br />
<a name='more'></a><br />
ویسے تواصطلاحی معنی میں 'سرد جنگ'ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے درمیان 1940ءسے 1990ءکی دہائی تک جاری رہنے والے تنازع، تناو اور مقابلے کے لیے استعمال ہواہے۔جس عرصہ میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، عسکری قوت، صنعت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثیر اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ یہ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہ تھی لیکن یہ عسکری تیاری اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کے لیے سیاسی جنگ کی نصف صدی تھی۔ اس کے باوجود کہ امریکہ اور سوویت یونین دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف متحد تھے لیکن بعد از جنگ تعمیر نو کے حوالے سے ان کے نظریات بالکل جدا تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بعد کی چند دہائیوں میں سرد جنگ یورپ اور دنیا کے ہر خطے میں پھیل گئی۔ امریکہ نے اشتراکی نظریات کی روک تھام کے لیے خصوصاً مغربی یورپ، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کئی ممالک سے اتحاد قائم کیے۔ اس دوران کئی مرتبہ ایسے تنازعات پیدا ہوئے جو دنیا کو عالمی جنگ کے دہانے پر لے آئے جن میں برلن ناکہ بندی (1948 -1949ء)، جنگ کوریا (1950 -1953ء)، جنگ ویتنام (1959 -1975ء)، کیوبا میزائل بحران (1962ء) اور سوویت افغان جنگ (1979 -1989ء) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے ادوار بھی آئے جس میں دونوں ممالک کے درمیان تناو میں کمی واقع ہوئی۔ 1980ءکی دہائی کے اواخر میں سرد جنگ اس وقت اختتام پذیر ہونے لگی جب سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے امریکی صدر رونالڈ ریگن سے متعدد ملاقاتیں کیں اور ساتھ ساتھ اپنے ملک میں اصلاحاتی منصوبہ جات کا اعلان کیا۔ اس دوران روس مشرقی یورپ میں اپنی قوت کھوتا رہا اور بالآخر 1991ءمیں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سرد جنگ کی اس مختصر تاریخ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہو جائے کہ دو ممالک یا ایک ہی ملک کے اندر دو مختلف نظریہ ہائے حیات کے درمیان جو دوریاں اورنفرتیں محسوس ہوتی ہیں، ان کے پس پشت برسراقتدار طبقہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔اس کی شہادت نہ صرف ان کی پالیسیاں دیتی ہیں بلکہ اقدامات شواہد بنتے ہیں۔چونکہ یہ نفرتیں اور دوریاں ہی سماج کو اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کرتی ہیںلہذا ملک میں ایک طبقہ ہمیشہ خوف کے ماحول میں رہتا ہے تو دوسرا پر اطمینان زندگی گزارتے ہوئے مادی ترقی اور وسائل پر قبضہ کرتاہے۔نتیجہ میں ایسے مواقع پر برسراقتدار طبقہ کے افکار و نظریات بھی تیزی سے فروغ پاتے ہیں ۔وطن عزیز ہند وستان میں بھی یہ کھیل آزادی سے قبل ہی جاری رہا ہے۔لیکن چونکہ ملک انگریزوں کا غلام تھااس لیے اس مدت میں ملک کے مختلف طبقات غلامی کا طوق اپنی گردن سے نکالنے کے لیے کسی حد تک متحد تھے۔اِس کے باوجود کہ اُس مدت میں بھی ایک قلیل تعداد انگریزوں کی غلامی کو اپنے لیے عافیت سمجھتی تھی۔اوریہ تلخ حقیقت ہے کہ اس قلیل تعداد میں ہندومسلمان،دونوں ہی شامل تھے۔لیکن جب سے ملک تقسیم کے نام پر ،آزاد ہوا،تب ہی سے ان دوممالک کے درمیان نہ صرف جنگیں ہوئیں بلکہ سرد جنگ اور پروکسی وار،حد درجہ بڑھی ہوئی ہر شخص محسوس کر سکتا ہے۔سرد جنگ کی مختصر تاریخ میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اس کی ابتدا ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہوئی تھی۔لیکن سوویت یونین کے شیرازہ بکھرتے ہی سرد جنگ نے اپنا دائرہ مزید وسیع کیا ۔اور اب یہ دائرہ دنیا کی دو طاقتوں کے درمیان نہیں بلکہ دنیا کی واحد ترین طاقت اور اس کے ہمنواﺅں نے ،اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دنیا وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔نتیجہ میں آج دنیا دوواضح حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔اسی تقسیم کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں امن و امان غارت ہو اہے،چہار جانب فساد برپا ہے ،اورانسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے۔ہر گروہ دوسرے کو زیر کرنے میں مصروف ہے۔اور پورے عمل میں سب سے زیادہ نقصان معصوم بچوں کی شکل میں آئندہ آنے والی نسلوں کا ہو رہا ہے۔جن کی زندگیاں آج خون و آگ کے شعلوں پر ،پروان چڑھ رہی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دنیا کی موجودہ صورتحال کا پس منظر جو یہاں بیان ہواہے ۔اس کے پس پشت ایک اور اصطلاح و عمل جاری ہے،جسے 'عظیم چالبازیاں' ( The Great Game) کہتے ہیں۔یہ اصطلاح 19 ویں اور 20 ویں صدی میں وسط ایشیا پر بالادستی کے حصول کے لیے سلطنت برطانیہ اور سلطنت روس کے درمیان ہونے والی مسابقت اور تنازع کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اولین 'عظیم کھیل 'کا دور عام طور پر 1813ءکے روس فارس معاہدے سے 1907ءکے انگریز روس معاہدے تک تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1917ءمیں بالشیوک انقلاب کے بعد ایک دوسرے ،لیکن کم شدت کے دور کا آغاز ہوا۔اس دور میں عظیم کھیل کی اصطلاح کو عموماً آرتھر کونولی (1807 – 1842ء) سے منسوب کیا جاتا ہے۔جو برطانوی شرق الہند کمپنی کے چھٹے بنگال گھڑ سوار دستے میں جاسوس افسر تھا۔ اس اصطلاح کو عوامی سطح تک برطانوی ناول نگار روڈیارڈ کپلنگ کے ناول ،کم (Kim) (1901ء) نے پہنچایا۔فی الوقت دنیا میں جاری عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیوں اور مفادات کے باعث اب بھی سمجھا جاتا ہے کہ عظیم کھیل جاری ہے جس کا مقصد اُن ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا ہے،جو وافر مقدار میں وہاں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس جدید 'عظیم کھیل 'میں امریکہ کی زیر قیادت نیٹو اور روس-چین اتحاد برسر پیکار ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
واقعہ یہ ہھی ہے کہ بین الاقوامی اصطلاحات اور اس کے اثرات سے اندرونی و بیرونی سطح پر آج دنیا کا ہر ملک نہ صرف متاثر ہے بلکہ نئے اصطلاحات کے ساتھ اس کو فروغ بھی دے رہاہے۔اُسی کا نتیجہ ہے کہ مختلف ممالک کے اندر ون خانہ موجود مختلف گروہوں کے درمیان نہ صرف سرد جنگ جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں بلکہ عظیم چالبازیاں نئے پیرایوں میں بڑے پیمانہ پرجاری ہیں۔کچھ ایسے ہی حالات آزادی کے بعد سے وطن عزیز ہندوستان میں بھی کبھی منظم تو کبھی غیر منظم انداز میں جاری ہیں۔لیکن اس پورے کھیل میں یہ واضح کرنا حددرجہ مشکل ہے کہ مختلف اوقات میں موجود برسراقتدار طبقہ نے کیا اور کیسے اپنا خاموش کردار ادا کیا ہے ۔تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ جس طرح آج واضح انداز میں ملک میں فرقہ پرست طاقتیں اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہی ہیں،تنازعات اور اختلافات نے تشددکی شکل اختیار کر لی ہے،کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹکراﺅ آج سے پہلے اس قدر بڑھا ہوا نہیں تھا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے پر امن افرادو گروہ بھر پور اندا زمیں ان حالات کا مقابلہ کریں۔مقابلہ اُنہیں کے طرز عمل کو اختیار کرکے نہیں بلکہ مقابلہ اس صورت میں کہ زبان و علاقہ اور مذہب و نسل سے اوپر اٹھ کر ملک میں امن اور انسانیت کے قیام اور ظلم و زیادتیوں کے خاتمہ کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے ساتھ ہی اسے استحکام بھی حاصل ہو۔کیونکہ ظلم و زیادتیوں پر خاموشی اختیار کیے رہنا،خود ظلم و زیادتیوںکے فروغ میں شامل ہونے جیسا ہی ہے۔اور یہ طرز عمل ،ہمیں ، ہمارے خاندان،بستی و قریہ،علاقہ اور شہر اورپورے ملک کو ،کب اپنی چپیٹ میں لے لے؟کچھ کہا نہیں جا سکتا۔لہذا ضرورت ہے کہ قبل از وقت ہم ہوش میں آئیں، کیونکہ جس وقت آگ اور خون کی ہولی سے ہم خود متاثر ہوں گے،اور دنیا خاموش تماشائی بنے افسوس بھرے کلمات دہرائے گی،اس وقت جس قدر درجہ کرب و اذیت میں ہم مبتلا ہوں گے،اسے بروقت سمجھنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود ہوش مند وہی کہلائے گا جو قبل از وقت امن اور انسانیت کے قیام میں مصروف عمل ہو جائے!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
v v v v v v v</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
22.08.2016</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-28660588681058604352016-08-29T16:58:00.001+05:302017-02-18T18:06:42.837+05:30ڈاکٹر ذاکر حسین و علامہ اقبال کے تعلیمی نظریات<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
گزشتہ ہفتہ ہم نے اپنے کالم میں ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعلیمی نظریہ پیش کیا تھا۔جس میں بتایا گیا تھا کہ ذاکر حسین کے تعلیمی فلسفے کا ایک اہم جزیہ ہے کہ وہ فرد کی تعلیم کو تعلیم نہیں سمجھتے ان کے نزدیک اصلی اور ابتدائی چیزمعاشرہ ہے۔ انسان کے افکار و نظریا ت کا ارتقاءجو تعلیم کا اصل مقصد ہے، سماج کے بنا ممکن نہیںہے۔آج کے کالم میں ذاکر صاحب کے تعلیمی نظریہ کے کچھ حصہ کو مزید پیش کرنے کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبالؒ کے تعلیمی نظریات کو پیش کریں گے۔جیسا کہ ذکرکیا گیاکہ ذاکر صاحب یورپ کے اکابر تعلیم سے بہت متاثرتھے خاص طور پرجرمنی کے کرشرٹیز سے ۔حالانکہ وہ وہاں معاشیات کے شعبہ سے منسلک رہے تاہم تعلیمی تجربات بھی کرتے رہے اور انہیں تجربات وخیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف رخ کیا ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<a name='more'></a><br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ذاکرحسین کے تعلیمی نظریات کے اولین نقوش ہمیں ان کے تعلیمی خطبات میں ملتے ہیں جو مکتبہ جامعہ نے 1943ءمیں شائع کئے تھے۔ ان خطبات کو کاشی ودیا پیٹھ کے جلسہ تقسیم اسناد میں پڑھا گیا یہ خطبہ ایک اہم اور یادگار خطبہ ہے ۔ اس خطبہ میں ذاکر صاحب نے تعلیم کے مفہوم اور قومی تعلیم کے مقصد کی وضاحت اس طرح کی ہے :تعلیم دراصل کسی سماج کی اس جانی بوجھی ، سوچی سمجھی کوشش کا نام ہے جو وہ اس لئے کرتی ہے کہ اس کا وجود باقی رہے اور اس کے افراد میں یہ قابلیت پیدا ہوجائے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے ساتھ زندگی میں بھی مناسب اور ضروری تبدیلی لاسکیں،نیز جو سماج اپنی تعلیم کا نظام درست نہیں رکھتا وہ اپنے وجود کو خطرے میں ڈالتاہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ذاکر حسین کے وہ خطبات جو تعلیم اور نظریہ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں،انہیں "تعلیمی خطبات"کے عنوان سے مکتبہ جامعہ،نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔اس میں وہ رقم طراز ہیں:"ہمارے تعلیم یافتہ لوگ جو جمہوریت کے لبرل فلسفے کو پڑھ پڑھ کر اور ہَر کلیس،پرامیٹھیسس اور رابنسن کے ناموں اور کاموں اور افسانوں سے متاثر ہوکر اکیلے آدمی کو سماجی زندگی کی اصلی حقیقت اور سماج کو ان اکیلوں کے بس ایک ڈھیر یا انبوہ ماننے لگے ہیں"وہ مناسب نہیںہے۔سماج کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح کچھ عرصے میں جسم کا ایک ایک ذرہ بدل جاتا ہے مگر جسم کی زندگی برابر جاری رہتی ہے،جس طرح درختوں کی پتّیاں بدل جاتی ہیں مگر درخت وہی رہتا ہے،اسی طرح سماج کے افراد بھی برابر ختم ہوتے رہتے ہیں مگر سماجی زندگی باقی رہتی ہے۔ہر زندہ چیز کی طرح سماج میں بھی دو کام برابر ہوتے رہتے ہیں،ایک تو بدلتے رہنے کا اور دو اپنے حال پر قائم رہنے کا۔ان میں سے کوئی ایک کام بھی رک جائے تو موت کا سامنا ہوتا ہے۔۔۔تعلیم دراصل کسی سماج کی اس جانی بوجھی ،سوچی سمجھی کوشش کا نام ہے جو وہ اس لیے کرتی ہے کہ اس کا وجود باقی رہ سکے اور اس کے افراد میں یہ قابلیت پیدا ہو کہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ سماجی زندگی میں بھی مناسب اور ضروری تبدیلی کر سکیں۔تعلیم انسانی ذہن کی مکمل پرورش کا نام ہے۔نیز نصب العین کے متعین ہونے کے بعد ہی نصاب اور طریقہ تعلیم یعنی ان وسائل و ذرائع کا تعین ممکن ہوتا ہے جن سے وہ نصب العین حاصل کیا جا سکے۔قوم کی خراب صورتحال پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنی قومی زندگی کی موجودہ پستی پر مطمئن ہیں تو میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ آپ کے ثانوی مدرسے ہی کیا آپ کا ساراتعلیمی نظام بالکل ٹھیک ہے۔اس میں ذرا برابر تبدیلی نہ کیجئے، وہ معاشرت میں اُتھلی تقلید،مذہب میںکھوکھلی رسمیت،سیاست میں محکومیت پسندی کے پیدا کرنے، علم میں ذوقِ تحقیق سے اور فنون میں ذوق تخلیق سے نوجوانوں کے بے بہرہ رکھنے اور کم زور جسم، بے نور دماغ اور بے سوز دل پیدا کرنے کے نہایت کامیاب کارخانے ہیں۔برخلاف اس کے نصب العین کے حصول کے لیے منجملہ اور چیزوں کے اپنا ایک خاص نظام تعلیم بھی مرتب کرنا ہوگا جو کسی دوسرے ناقص نظام کی نقل نہ ہوگا بلکہ ہماری مخصوص تخلیق ہوگا۔ہمیں ثانوی تعلیم کے نظام سے پہلے عام ابتدائی تعلیم کا نظام بنانا اور جاری کرنا ہوگا، ایک خاص عمر پر بچوں کے رجحانات کی پڑتال کاانتظام کرنا ہوگا ۔کتابی تدریس کی جگہ عملی اکتشافات کو جگہ دینی ہوگی اور خالی واقفیت کی جگہ صحیح ذہنی تربیت اور خالی علم کی جگہ اچھی سیرت کو مرکز توجہ بنانا ہوگا۔آئیے ذاکر صاحب کے بعد علامہ اقبال کے تعلیمی نظریات کو بھی دیکھتے چلیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
علامہ اقبال ؒکے تعلیمی نظریات:</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
حقیقت یہ ہے کہ افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ جس کی بنا پر افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین ، مقصد حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے قومی زندگی کے اِسی اہم پہلو پر گہرا غور و خوص کیا اور اپنے افکار کے ذریعہ ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث بن سکے۔اقبال نے اپنے زمانے کی تصویر کشی کرتے ہوئے اُن عالم دین حضرات پربحث کی اور توجہ دلائی ہے جو درحقیقت اپنی حیثیت سے ناواقفیت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ایسے بے عمل اور بے حیثیت و لاشعوری کی زندگی گزارنے والے عالم دین حضرات کو 'مُلّا'سے تعبیرکیا۔مُلّا سے اقبال بیزار تھے ۔وہ اس لیے کہ اس کے پاس دین ہے نہ دین کی حرارت ،وہ درحقیقت دین کی روح سے بےگانہ ہوگیا ہے۔ اس کی نماز ، روزہ ، سب رسمی بن گئے ہیں اور حیات کے اُن اعلیٰ مقاصد تک اس کی پہنچ نہیں رہی جو دین کا نصب العین ہیں ۔"بال جبریل"وہ فرماتے ہیں:اُٹھا میں مدرسہ و خانقا ہ سے غمناک -- نہ زندگی ، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ ، تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال -- تیری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام ، قوم کیا چیز ہے ، قوموں کی امامت کیاہے -- اس کو کیا سمجھیں یہ بےچار ے دو رکعت کے امام۔ اقبال کو دینی عالموں سے جو توقع ہے اور ان کے علم کا جو تقاضا ہے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کی اصلاح اور صحیح تعلیم و تربیت ہے اسی لئے وہ تما م تر مایوسی کے باوجود دعوت دیتے ہیں۔قدیم دینی مدارس کی جامد ، بے روح اور زمانہ کے تقاضوں سے نا آشنا تعلیم کے ساتھ اقبال جدید انگریز ی تعلیم سے بھی نالاں تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلیم سراسر مادیت پر مبنی تھی اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم دین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی جو،جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر رہی تھی۔ یہ تعلیم ضرورت سے زیادہ تعقل زدہ تھی اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جسے اقبال نفر ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔"بانگ درا"میں وہ فرماتے ہیں:خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر -- لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ، ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم -- کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ، اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم -- ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف۔ (جاری)۔ ۔ ۔ ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
v v v v v v v</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
15.08.2016</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-44972605921189973412016-08-29T16:50:00.005+05:302017-02-18T18:07:19.125+05:30ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعلیمی نظریہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تعلیم کا مقصد لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرانا ہے۔لیکن یہ سوال بھی لازماً اٹھنا چاہیے کہ "حقیقت "کیا ہے؟حقیقت وہ ہے جس کی بنیادیں حددرجہ پختہ ہیں۔جس کی اساس کار میں تبدیلی نہیں لائی جاتی البتہ زماں و مکاں کے قیود سے بالاتراضافہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔برخلاف اس کے ناقص تعلیم وہ ہے جس کی بنیادیں حد درجہ کمزور ہوں اور عموماً مفروضوں پر منحصر ہو۔پھر یہ ایسے مفروضے ہوں جن کی نہ کوئی سند ہو اور نہ ہی کوئی بنیادہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<a name='more'></a>اردو میں تعلیم کا لفظ دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی ، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے ، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی میں۔ جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یا تعلیمات ، حضرت عیسی ؑکی تعلیم یا تعلیمات وغیرہ۔ لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما، تخیلّی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب ، سماجی عوامل و محرکات ، نظم و نسق ،مدرسہ و اساتذہ ، طریقہ تدریس و نصاب ، معیار تعلیم ، تاریخ تعلیم ،تعلیمی نفسیات، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔تعلیمی افکار و نظریات پر روشنی ڈالی جائے تو دنیا اور خود ہمارے ملک میں بے شمار مفکرین،مدبرین اور درس و تدریس سے وابستہ افراد کے تعلیمی افکار موجود ہیں۔فی الوقت اس مضمون میں ہم ڈاکٹر ذاکر حسین ؒکے تعلیمی افکار و نظریات کا تذکرہ کرتے ہوئے تعلیم کے ان اعلیٰ مقاصد سے روشنا ہونے کی کوشش کریں گے ،جو درحقیقت انسان کو نہ صرف خودشناس بناتے ہیں بلکہ خدا شناسی اور نصب العین کا شعور بھی فراہم کرتے ہیں۔<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
ڈاکٹر ذاکر حسین ؒ کے تعلیمی افکار:</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ڈاکٹر ذاکرحسینؒ کی شخصیت کے کئی پہلو نمایا ں ہیں مثلاً ماہر معاشیات ،ماہر سیاست اور ماہر تعلیم ۔ڈاکٹر صاحب نے تعلیم کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا معلومات اکٹھا کرنا دوسرا تجزیہ اور تحقیق کے ذریعے ان معلومات کا جوہر اخذ کرنا اور تیسرا اس جوہر سے ایک اخلاقی شخصیت کی تعمیر کرنا۔ اگر یہ تینوں عملی طور پر کسی انسان میں ظاہر ہوں تو وہ انسان تعلیم یافتہ کہاجاسکتاہے۔ تحصیل علم کا مقصد تلاش حق ہے اور تلاش حق کا مدعا خدمت خلق ہے۔تلاش حق میں بھی تین منزلیں ہیں۔ خودبینی ،جہاں بینی اور خدا بینی۔ ذاکر صاحب کے نزدیک یہ سب خوبیاں جس انسان میں یکجا ہوں اس میں حق وانصاف ، رحم و کرم ، حمیت وہمدردی ، صدق و صفا او رمحبت ومروت کی صفات خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں اگر ایک تعلیم یافتہ انسان میں یہ قدریں نہ ہوں تو اس کی ڈگریاں بے کارہیں۔ذاکر حسین کے تعلیمی فلسفے کا ایک اہم جزیہ ہے کہ وہ فرد کی تعلیم کو تعلیم نہیں سمجھتے ان کے نزدیک اصلی اور ابتدائی چیزمعاشرہ ہے۔ انسان کے افکار و نظریاتک کا ارتقاءجو تعلیم کا اصل مقصد ہے سماج کے بنا ممکن ہی نہیں ہے۔ایک فرد واحد جاندار تو ہوسکتا ہے لیکن اگر وہ ایک بامہذب سماج کا حصہ نہ ہو تو وہ مکمل انسان نہیں کہلائے گا۔کیونکہ انسان کی امتیازی خصوصیت اس کا پختہ ذہن ہے لہذا یہ ارتقائی مراحل سماج کے تصّور کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان کے افکار،نظریات،تصورات اور عقائد معاشرہ کے کسی نہ کسی دوسرے انسان کے ذہن کی پیداوار ہے ۔ ذہنی زندگی میں"تو"نہ ہو"میں" کا وجود بھی نہ ہو۔ اس لئے ذہن کی بالیدگی کے لیے سماج کا وجود لازم ہے ۔لہذا ایک بہتر سماج کے قیام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیم کا نظام درست کرے۔ سماج جس طرح کا بیج بچوں کے ذہن میں بوئے گا اس قسم کا پھل پائے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ببول بوئے اور گلاب کے پھول اگنے لگیں۔ذاکر صاحب کے نزدیک استاد کا بہت بڑا مقام ہے جو سماج کا ایک لازمی حصہ ہے۔ استاد کا کام صرف یہ ہے کہ شاگردوں کو کسی طرح انسان کی ذہنی زندگی سے روشناس کرادے۔ افلاطون نے اس ضمن میں ایک بڑے کام کی بات بتائی ہے :تعلیم وتربیت کے کاموں کو یوں سمجھنا چاہئے کہ معلم و طلبہ سب کے سب ایک گہرے اندھیرے غار میں پڑے ہوئے ہیں کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں استاد کا کام صرف یہ ہے کہ شاگردوں کا رخ اس طرف کردے جہاں غار میں روشنی کی ایک جھلک نظر آرہی ہے ، استاد اپنے شاگردوں کو بصیرت نہیں بخش رہاہے شاگردخود آنکھ رکھتے ہیں ، استاد کا کا م صرف یہ ہدایت ہے کہ صرف اس طرف دیکھو جس طرف سے روشنی آرہی ہے ۔استاد کا کام صرف ایک receiver کا ہوتاہے ۔غرض ذاکر صاحب ذہن کی بیداری کو تعلیم سے تعبیر کرتے ہیں("تعلیمی خطبات "،از ڈاکٹر ذاکرحسین،مکتبہ جامعہ، نئی دہلی)۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ڈاکٹر ذاکر حسین نے افلاطون سے لے کر انگلستان کے فرانسس بیکن ، امریکہ کے ڈیوی ، جرمنی کے کرنزیٹز شیلر مار شر اور دیگر اکابرین تعلیم سے بہت کچھ سیکھا اور گاندھی جی کے تجربات وخیالات کو لے کر اسلامی فلسفے کی کسوٹی پر پرکھا اور اپنے فکر و تحقیق کے سانچے میں ڈھالا ، پھر اس سانچے کو ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کی مختلف ضروریات، احساسات ، تہذیبی رجحانات اور ذہنی امتیازات کے مدنظر ان میں ضروری ترمیمات کرکے خود اپنا فلسفہ تعلیم تیار کیا۔ اسی لگن اور محنت کودیکھتے ہوئے گاندھی جی نے اپنے بنیادی تعلیم کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 1937ءمیں جو کمیٹی بنائی اس کا سربراہ ذاکر صاحب کو مقرر کیا۔ ذاکر صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ ان کا بنایا ہوا تعلیمی دستور العمل یعنی بنیادی تعلیم کا نظریہ ملک میں رائج کردیا جائے۔ اس اسکیم کے پیچھے مسلسل دس سال(1937-47)تک جان توڑ کوشش کی گئی کمیٹیاں بنیں ،کئی قراردادیں اور اور تجویزیں منظور ہوئیں لیکن ملک نے اس کو قبولیت کا شرف نہیں بخشا ‘ کبھی سیاست رکاوٹ بنی ، کبھی حکومت سے نااتفاقی رہی ، کبھی عہدیداروں کی ہٹ دھرمی اور کبھی ماہرین تعلیم کی آپسی کشمکش کی وجہ سے یہ اسکیم شرمندہ تعبیر نہ ہوسکی! (جاری)۔ ۔ ۔ ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
v v v v v v v</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
08.08.2016</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-29535388944835828892016-08-29T16:48:00.003+05:302017-02-18T18:07:46.444+05:30مذاہب کی آڑ میں سیاسی داﺅ پیچ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ عجب مذاق ہے کہ سیاسی لیڈران نہ صرف مختلف مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی راہنمابنے ہوئے ہیں بلکہ عرف عام میں سماج بھی انہیں اسی حیثیت سے دیکھتا ہے۔اس کے باوجود کہ ان کی عملی زندگیاں مذہب بیزار ی کے شواہد فراہم کرتی ہیں۔کچھ یہی معاملہ ملک کی اکثرتی طبقہ ہندو ﺅں کے تعلق سے ہے۔ تووہیں اقلیتوں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔موجودہ برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوﺅں کے ایک بڑے طبقہ کی ہر سطح پر رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔اور ہندوبھی انہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔ </div>
<a name='more'></a>ہندو مذہب و ثقافت کا تحفظ وبقا اور اس کا قیام اِس مخصوص پارٹی سے وابستہ ہوکر رہ گیا ہے۔دوسری جانب سماج کا کمزور طبقہ جسے عرف عام میں دلت کہا جاتا ہے ،وہ بھی اپنے افکار ونظریات کی ترویج ،بقا و تحفظ کے لیے بہوجن سماج پارٹی کی جانب نظریں اٹھاتاہے۔تیسری جانب مسلمان ہیں جو گرچہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے کسی مخصوص پارٹی کی جانب متوجہ نہیں ہیں ،اس کے باوجود مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مسلمان سیاست داں یہی ثابت کرنے میں کوشاںرہتے ہیں کہ ہم نے جو اس سیاسی پارٹی سے اپنا تعلق استوار کیاہے ، اس کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل حل ہوں، ان کو تحفظ ملے۔ اوریہاں بھی عموماً اسی پس منظر میں ان مسلمان لیڈران کو دیکھنے کا رواج ہوگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان انہیں کامیاب کرتے ہیں اور اپنا سیاسی و مذہبی مسیحا سمجھتے ہیں۔مذہبی و سیاسی راہنما اس لحاظ سے کہ مذہب پر عمل پیرا وہ رہنے میںاسٹیٹ اور قانون جو مواقع فراہم کرتا ہے ، اس میں وہ مدد گار ہوں گے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو تاثر ان سیاسی لیڈران اور ان کی سیاسی پارٹیوں کے تعلق سے قائم کیا گیا ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ شواہد یہی ثابت کرتے ہیں کہ ان کے قول و عمل میں تضاد ہے اور مذہب اور مذہبی عقائد و نظریات سے وہ حد درجہ دورہیں۔<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
فی الوقت چونکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں آئندہ سال انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے اترپردیش کی سماجی و مذہبی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں وقوع پذیر مختلف حادثات اور واقعات پر سیاسی لیڈران اپنا ردعمل سامنے لا رہے ہیں۔آپ کہ سکتے ہیں چونکہ وہ مختلف طبقات ومذاہب کے نمائندے ہیں،اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا رد عمل سامنے لائیں۔لیکن ہمارے خیال میں یہ بات اس لیے درست نہیں ہے کہ جس منصوبہ بندی کے ساتھ آج کل سیاسی محاذ پر سرگرمیاں جاری ہیں،وہ اس سے قبل گزشتہ سال ہونے والے واقعات کے بعد ،اپنا رد عمل ظاہر نہیں کر رہے تھے۔آج دلت سماج نے منظم طور پر گجرات واقعہ کے بعد اپنے جذبات کا جس طرح اظہار کیا ہے ،وہ گزشتہ سال رونما ہونے والے واقعات کے بعد نہیں تھا۔لیکن چونکہ ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ کون کس وقت کس مسئلہ پر اپنا رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔سروکار ہے اس بات سے ہے کہ اس طبقہ کے بیشتر رہنما جو زندگی کے بہترین دور ،دور جوانی میں ،طبقہ کے مسائل کے لیے سعی و جہد کرتے نظر آتے ہیں،اپنے نظریہ اور فکر اور سماجی تانے بانے کے خلاف موجود طاقتوں کو زبانی اور کہیں کہیں عملی بھی زیر کرتے نظر آتے ہیں،وہ آخر کار کیوں زندگی کے آخری دور میں داخل ہوتے وقت، اپنی فکر ونظریہ اور سماجی تانے بانے کے خلاف منظم و منصوبہ بند سعی و جہد کرنے والوں کاآلہ کار بن جاتے ہیں؟جس طرح ضعیفی کی حالت میں انسان کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح سیاسی و سماجی سطح پر وہ اپنے موقف میں اس وقت کیوں کمزور نظر آتے ہیںجبکہ وہ ساسی و سماجی سطح پر ایک مقام حاصل کر لیتے ہیں؟واقعہ یہ ہے کہ سیاسی وسماجی ہر دو سطحوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔اس کے باوجود بہوجن سماج پارٹی سے وابستہ یا اس طبقہ کے لیڈران زندگی کے آخری دور میں اُسی حریف کے ساتھ کیوں کھڑے نظرآتے ہیں جس کے خلاف وہ زندگی بھر آواز اٹھاتے آتے ہیں؟کیا وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہے؟یا ان کا ماننا ہے کہ سماج میں ذلت کی زندگی سے نکل کر عزت کی زندگی صرف سیاسی سطح پر بظاہر کامیابی ہی کی شکل میں حاصل کیا جا سکتا ؟کیا عزت کی زندگی سیاسی بساط پر کچھ عروج پالینا ہے ؟یا عزت یہ ہے کہ انسان جس عقیدہ اور نظریہ سے وابستہ ہے اس پر کاربند رہتے ہوئے مسائل کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اس دارفانی سے رخصت ہو جائے؟ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ اردو میں لکھی تحریر کا اس طبقہ سے کیا تعلق جس کا تذکرہ اور مسائل یہاںچھیڑے جا رہے ہیں؟کیونکہ بات کو کہنے کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے مخاطب ہوں،ان سے ،ان ہی کی زبان میں ان کے سامنے بات کی جائے۔پھر یہاں اس تحریر کو پڑھنے والے عموماً مسلمان ہیں تو مسلمانوں کے سامنے یہ سوالات کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میری کوشش کارآمد ثابت ہو رہی ہے اور رائیگاں نہیں جائے گی۔کیونکہ مخاطب آپ اور ہم ہی ہیں،یعنی وہ عام مسلمان،جو سیاسی محاذ پر اپنے مسائل کے حل،مختلف سیاسی پارٹیوں کے ان لیڈران سے وابستہ کرتے ہیں،جن کی سیاسی پارٹی نے ،کبھی بھی آپ کے مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ نہیں دی۔اب آپ سوچئے اور غور کیجیے کہ ہم بحیثیت مسلمان اُن سیاسی پارٹیوں سے اپنے مسائل کے حل کے لیے کیوں توقعات وابستہ کیے رہتے ہیں؟کیا ان سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اور منصوبہ ساز،آپ اور آپ کے مسائل کی جانب کبھی متوجہ ہوئے ہیں؟کیا انہوں نے آپ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا ہے؟کیا ان مسلم لیڈران کی جو مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں،اپنی ہی پارٹی میں مسلمانوں کے تعلق سے آواز اٹھانے پر ،متعلقہ لیڈران اور منصوبہ ساز،حوصلہ افزائی کرتے ہیں؟عمل درآمد،رد عمل ،اور مسئلہ کے حل کی جانب پیش قدمی کی جاتی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مسلمان ہندوستان کی آزادی کے بعد سے اب تک ،اس ستر سالہ دور اور اس میں درپیش مسائل کے مشاہدے کے بعد ،کوئی اور لائحہ عمل تیار کیوں نہیں کرتے؟اور کیا یہ لائحہ عمل صرف سیاسی لیڈران ہی تیار کرسکتے ہیں؟یا اس لائحہ عمل میں علاقائی سطح پر موجودسیاسی شعور رکھنے والے افراد بھی کوئی موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہیں؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بات کا اختتام اس بیان پر کرتے ہیں جس میں بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے کہا گیا ہے کہ معاشرہ بیدار ہوجائے تو پھر وہ کروڑوں لوگوں کے ساتھ بدھ مت اپنائیں گی۔مایاوتی نے کہا کہ باباصاحب امبیدکر نے بھی بدھ مت اپنانے میں جلد بازی نہیں کی تھی اور زندگی کے آخری وقت میں بدھ مت مذہب اپنایا تھا۔مایاوتی کا یہ بیان مہاراشٹر کے دلت لیڈر اٹھاولے کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے۔جس میں اتھاولے نے امبیڈکر کے نام پر مایاوتی پر سیاست کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ امبیڈکر کے نام پر سیاست تو کرتی ہیں لیکن ان کے نظریات کو نہیں مانتیں۔جواب میں مایاوتی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ رام داس اٹھاولے بی جے پی کی غلامی میں باباصاحب امبیڈکر کی تحریک کو صدمہ پہنچا رہے ہیں۔نیز یہ بھی کہ اٹھاولے دلتوں کو غلام بنانے کی ذہنیت رکھنے والے بی جے پی کے ایجنڈے پر کام کرنا بند کریں اور دلت اتحاد کو نہ توڑیں۔وہ یہ بھی کہتی سنی گئیں کہ وہ سچی امبیڈکروادی ہیں اوراترپردیش اسمبلی انتخابات میں اپنی شکست کے خوف سے بی جے پی مذہب کی آڑ میں سیاست کر رہی ہے ۔اسی مقصد سے اس نے حال میں'بدھ دھرم یاترا'شروع کی ہے۔ساتھ ہی الزام لگایا کہ آرایس ایس اور نریندر مودی نے اپنے سیاسی مفاد کے پیش نظر ہی بدھ مذہب کی تعریف شروع کی ہے،برخلاف اس کے وہ بدھ مذہب کی تعلیمات کو نہیں مانتے اور ان کے ماننے والوں پر ظلم کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔مایاوتی اور اٹھاولے کے بیان دربیان کے بعد اب آپ بتائیے کہ آپ اپنے مسائل کے حل کے لیے کون سا مذہب اختیار کرنے والےہیں!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
v v v v v v v</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
01.08.2016</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-52707372785720137462016-07-27T13:48:00.000+05:302017-02-18T18:08:47.612+05:30"مقدس گائے" کے بہانے مظالم میں اضافہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<h3 style="text-align: right;">
</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://1.bp.blogspot.com/-wmby15D7JPM/V5huFi0OXOI/AAAAAAAABoA/bOQIjA28Z98tHhIMclwLYlRSdezVk6yngCLcB/s1600/thumb.jpg" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em; text-align: left;"><br /></a> ہم سب جانتے ہیں کہ بی جے پی یا سنگھ کے تین اہم ایشوز ہیں، رام مندر، آئین کی دفعہ 370 اور ملک میںکامن سول کوڈ کا نفاذ۔ لیکن چونکہ ان تینوں ہی ایشوز سے عوام کو آج کل دلچسپی نہیں ہے اس لئے ان کو چھوڑ کر کچھ دوسرے سماجی وسیاسی مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔ جیسے "مقدس گائے" کا مسئلہ آج کل اہم ترین ایشو بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں آئے دن گائے کے تحفظ کے بہانے ظلم و زیادتیوں میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس ایشو نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے۔گائے جو کسی کے لیے مقدس ہے تو اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہوسکتے کہ جن کے پاس وہ صرف ایک جانور ہے، ان کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کی جائیں۔باالفاظ دیگر قانون کو ہاتھ میں لینا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ وہیں واقعہ یہ بھی ہے کہ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے تب سے ان تمام مجرموں پر قانونی گرفت کمزور ہوئی ہے ، جو گائے کی آڑ میں اپنے خطرناک عزائم غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر جس طرح ابھی حال میںگجرات میں مری ہوئی گائے کی کھال اتارنے والے چار دلت نوجوانوں کے پیٹنے کے ویڈیو سوشل میڈیا میں سامنے آئی ہے ، وہ نہ صرف لاءاینڈ آڈر کی خراب صورت حال کو بیان کرتی ہے بلکہ یہ واقعہ اپنے آپ میں بہت سے سوالات بھی کھڑے کرتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پولیس کے مطابق وےراول میں متشدد لوگوں نے گزشتہ ہفتے کچھ دلتوں کو اس وقت پیٹا جبکہ وہ جانور کی کھال اتار رہے تھے۔ تاہم بعد میں گجرات میں مخصوص تنظیم نے اپنے کارکنوں کے اس معاملے سے جڑے ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ جن چار دلتوں کو بدمعاشوں نے پورے شہر میں گھومایا اور پیٹا تھا،اس کے بعد چھ بدمعاشوں کو گرفتار کیا گیا، تو وہیں تین افسران بھی معطل کئے گئے ہیں۔ اس المناک واقعہ کے بعد سات مشتعل دلتوں نے پولیس کے مطابق خود کشی کی کوشش کی ۔ وہیں حالات کے پیش نظر ریاست میں وزیر اعلیٰ آنندی بین نے جانچ کا حکم دیا ہے اور چار پولیس ملازمین کو معطل بھی کیا ہے۔<br />
<a name='more'></a><a href="https://1.bp.blogspot.com/-wmby15D7JPM/V5huFi0OXOI/AAAAAAAABoA/bOQIjA28Z98tHhIMclwLYlRSdezVk6yngCLcB/s1600/thumb.jpg" style="clear: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em; text-align: left;"><img border="0" src="https://1.bp.blogspot.com/-wmby15D7JPM/V5huFi0OXOI/AAAAAAAABoA/bOQIjA28Z98tHhIMclwLYlRSdezVk6yngCLcB/s640/thumb.jpg" /></a><br />
وہیں دلتوں کی پٹائی کے بعد احتجاج ایک نئے انداز میں سریندر نگر میں دیکھنے کو ملا ہے۔ جہاں دلت سماج کے لوگ مری ہوئی گائے ٹرکوں میں بھر کرکلکٹردفاتر پہنچ گئے، اور وہاں پھینککر یہ کہتے نظر آئے کہ سنبھالو اپنی ماﺅں کو۔دلت نوجوانوں کے پیٹنے کی مخالفت کو لے کر احتجاج کا یہ طریقہ پورے گجرات میں شروع ہو چکا ہے۔ لوگ مری ہوئی گائے کو سرکاری حکام کے دفاترپہنچا رہے ہیں۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر یہ طریقہ مزید وائرل ہو رہا ہے۔ لوگ اسے دلت سماج کے احتجاج کا گجرات ماڈل کا نام دے رہے ہیں۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دوسری جانب حقیقت یہ بھی ہے کہ گورکشا کے نام پر ہر طرف گلی محلوں میں مظالم کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن مار پیٹ کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن یہ واقعات قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب دادری، بساہڑا میں 28 ستمبر 2015 کو ایک 50 سالہ شخص اخلاق کی گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ایک گروپ نے پیٹ پیٹ کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ فرقہ وارانہ نفرت کا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل اور بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ چند واقعات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔سال 2014 میں 2 اگست کو دہلی کے نجف گڑھ علاقے کے چھاﺅلا گاوں میں پولیس چیک پوسٹ پر ایک منی ٹرک کو روکا گیا۔ ایک طرف جب ٹرک کا ڈرائیور پولیس کو جانے دینے کے لئے منا رہا تھا، تبھی کچھ دیہاتی ٹرک کے ارد گرد جمع ہو گئے اور بے رحمی سے ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔وہیں ہماچل پردیش میں 16 اکتوبر 2015 کو ایک 28 سالہ ٹرک ڈرائیور نومن کو بھیڑ نے گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں پولیس کی موجودگی میں قتل کر دیا ۔ 9 اکتوبر کو کشمیر کے اودھم پور ضلع میں ہجوم نے 18 سالہ زاہد رسول کو زندہ جلا دیا ،جس کی بعد میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔ 11 دسمبر 2015 کو گائے کی حفاظت کے لیے تشکیل شدہ ٹیم نے ہریانہ کے کرنال میں 25 سالہ مزدور کا قتل کر دیا۔ اسی طرح 29 نومبر 2015 گائے اسمگلنگ کے ملزم عابد کوپولیس نے ہریانہ کے تھانیسر قصبے میں مار ڈالا۔ یہاں تک کہ کشمیر کے آزاد ممبر اسمبلی عبد الراشد کو اسمبلی میں بیف پارٹی کے الزام میں پیٹا گیا۔ 2 نومبر کو بی جے پی لیڈروں نے کرناٹک کے وزیر اعلی سددھارامیّا کو گائے کے گوشت کھانے پر سر قلم کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ 18 مارچ 2016 کو جھارکھنڈ میں لاتیہرکے بالومتھ جنگلوں میں دو لوگوں کی لاش درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔ ایک 35 سالہ تو دوسرا 12 سالہ بالوگون اور نوادہ دیہات کا رہائشی تھا۔ یہ اپنی 8 بھینسوں کے ساتھ پڑوس کے جانور میلے میں جا رہے تھے جنہیں راستے میں بھیڑ کی طرف سے روکا گیا اور پیٹنے کے بعد درخت پر پھانسی دے کر لٹکا دیا ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ وہ تمام غنڈہ گردی کے واقعات ہیں جو عام لوگوں کے لاءاینڈ آڈر ہاتھ میں لینے سے پیداہوئے ہیں۔ اس کے برعکس ہریانہ میں گائے کی حفاظت کے لیے 24 گھنٹے کی ہیلپ لائن شروع کی گئی ہے۔ اس ہیلپ لائن سے جہاں ایک جانب گائے کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے، وہیں اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ غنڈہ گردی کے مقابل ،قانونی طریقے سے فیصلہ ممکن ہے ، نیز غیر قانی تشدد کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔دوسری طرف مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے مسئلہ کا حل ،قانونی دائرہ میں ہر جگہ موجود ہے۔ اس کے باوجود گائے کے تحفظ کے نام پر نہ صرف قانون سے کھلواڑ جاری ہے بلکہ قانون کو لاگو کرنے والوں کی پکڑ بھی کمزور ہوتی محسوس ہو رہی ہے ۔سوشل میڈیا پر گجرات کے واقعہ کو لے کر لوگ اپنے خیالات درج کر رہے ہیں جو کسی کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں تو کسی کے لئے حقیقت سے واقفیت کاذریعہ۔ وہیں اس موقع پر یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ سنگھ کا ہندوتو، عام ہندووں یا ہندوستانیوں کو قبول نہیں ہے۔ اس کے باوجود میڈیا مارکیٹنگ کی ذریعہ جس طرح وہ آگے بڑھتے دکھائے جا رہے ہیں، سماجی سطح پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی ہر محاذ پر کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن وعدوں اور دعووں کے ساتھ وہ حکومت میں آئے تھے وہ سب کے سب جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مشہور دعویٰ، "سب کا ساتھ سب کا وکاس" تھا۔ ملک کی موجودہ صورتحال بیان کر رہی ہے کہ نہ کسی کا ساتھ ہے اور نہ ہی کسی کا وکاس۔ امیر ، امیر سے امیر تر ہوتاجا رہا ہے تو وہیں غریب اپنی غربت اور مہنگائی کی وجہ سے حد درجہ پریشان ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس پورے پس منظر میں اور مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے،لازم ہے کہ نہ صرف حکومتوں کو بلکہ عوام کو بھی حل کے لیے موثر کردار اداکرنا چاہیے۔تاکہ دلتوں، پسماندہ طبقات اور معاشرے کے کمزور طبقوں کے مسائل کم ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسانوں کوانسان سمجھا جائے ۔ان کو برابری کا درجہ دیا جائے۔ اور کیوں کے خدا واحد نے دنیا میں انسان کو سب مخلوقات میں افضل حیثیت دی ہے، لہذا اسے کسی سے کمتر یا حقیر نہ جانا جائے۔ اسے عزت و وقار بخشا جائے اور انہیں رنگ ونسل، ذات پات اور مختلف معاشی کاموں کی بنا پر تقسیم کرکے اعلی و ادنیٰ کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر مسائل میں اضافہ ہو گا۔ جو ملک اور اہل ملک، دونوں کے لئے نقصان کا باعث ہے ۔ ضروری ہے کہ ان حالات سے نجات پائی جائے۔ خصوصا اُن مسائل سے جن کی بنا پر انسانوں کو انسانوں کے درمیاں ہی تقسیم کیا جاتا ہے، انسانوں کے بالمقابل دیگر مخلوقات کو فوقیت دی جاتی ہے۔نتیجہ میں نفرت کی فضاپروان چڑھتی ہے اور انسان بلاجوازاپنی ہی طرح کے دوسرے محترم انسان کی جان کا پیاسا بن جاتا ہے۔یہ حد درجہ تشویشناک صورتحال ہے،جس کا تدارک لازماً ہوناچاہیے ۔مسئلہ کے حل کے لیے دیگر بہت سے عملی اقدامات میں ایک مثبت قدم مقامی سطح پر بلا تفریق مذہب و ملت معزز و معروف حضرات کی امن کمیٹیوں کا تشکیل دیا جانا ہے۔قبل اس سے کہ ہم ،بذات خود ،مسئلہ کا شکار ہوںاس سلسلے میں پیش رفت کی جانی چاہیے!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-77336555384611869822016-07-19T11:45:00.001+05:302016-07-19T11:45:10.574+05:30اترپردیش - بساط تو بچھ چکی ہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #c00000; font-family: 'Alvi Nastaleeq v1.0.0'; line-height: 115%;"><span style="font-size: x-small;"><br /></span></span></div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 35.0pt; line-height: 115%;">اترپردیش - بساط تو بچھ
چکی ہے!</span><span dir="LTR" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 35.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; text-indent: .5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://4.bp.blogspot.com/-0IFMtFWtX7g/V43EugBt8ZI/AAAAAAAABnE/r_KSvXyl6REVqzMxUnGJnEjGgyOX4QMogCLcB/s1600/up3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="240" src="https://4.bp.blogspot.com/-0IFMtFWtX7g/V43EugBt8ZI/AAAAAAAABnE/r_KSvXyl6REVqzMxUnGJnEjGgyOX4QMogCLcB/s320/up3.jpg" width="320" /></a> <a href="https://1.bp.blogspot.com/-QTFL67wMJGo/V43EvnlvWZI/AAAAAAAABnI/wYlFGomt4hkb6qKJTr23_O57eYTvtNv3QCLcB/s1600/Uttar-Pradesh.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="162" src="https://1.bp.blogspot.com/-QTFL67wMJGo/V43EvnlvWZI/AAAAAAAABnI/wYlFGomt4hkb6qKJTr23_O57eYTvtNv3QCLcB/s200/Uttar-Pradesh.jpg" width="200" /></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">یہ درست ہے کہ اترپردیش ملک
کی سب سے بڑی ریاست ہے اور بڑا ہونے کے ناطے سیاسی میدان میں اہم کردار ادا کرتا آیا
ہے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست میں ایسے بے شمار مسائل ہیں جن کا حل فوری طور پر
ہونا چاہیے اس کے باوجود ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ اور چونکہ آج کل ریاست میں آئندہ
سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سب سے اہم مسئلہ بنے ہوئے ہیں لہذا، اسی کو پیش نظر
رکھتے ہوئے چھوٹی و بڑی تمام سیاسی پارٹیاں فعال نظر آرہی ہیں۔ سال2017 میں اتر پردیش
میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے بساط بچھائی جا چکی ہے۔ اس بڑی جنگ کو جیتنے
کے لئے تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے ذات پات کی بنیاد پر تقسیم سماج کے پیش نظر اپنی اپنی
گوٹیاں بھی بٹھانا شروع کردی ہیں۔ ترقی کی بات کرنے والی بی جے پی بھی آگے نکلنے کے
لئے پوری طاقت کے ساتھ دوڑ میں شامل ہے۔دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ بہار کی شکست کے
بعد بی جے پی اترپردیش کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ اس پس منظر میں اِن کے رہنما
اسٹیج پر تو ترقی کی بات کرتے نظر آتے ہیں اس کے باوجودلائحہ عمل معاشرتی بنیادوں پر
تقسیم شدہ سماج کو مزید تقسیم کرکے الو سیدھا کرنا ہے۔ اترپردیش میں پسماندہ اور انتہائی
پسماندہ دلتوں کی تعداد تقریبا ً50% فیصد ہے۔ ان میں سے % 19فیصد یادواگر نکال دیئے
جائیں تب بھی یہ فیصد کافی ہے ،جسے بی جے پی اپنی طرف متوجہ کرنے میں مصروف ہے۔ اس
سب کے باوجود بڑا سوال یہ ہے کہ بہار انتخابات میں یہی بی جے پی ذات پات کی کشتی میں
سوار ہو کر ڈوب چکی ہے،تو کیا ایک بار پھر اتر پردیش کے انتخابات میں اِس کشتی میں
سوار ہونے کے لیے وہ اپنے آپ کو تیار پاتی ہے؟ ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ
اتر پردیش کی سیاسی منجھدار میں یہ کشتی کس کو کنارے تک پہنچاتی ہے۔</span><span style="text-align: left; text-indent: 0.5in;"> </span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://2.bp.blogspot.com/-hokiAZCmDa4/V43FBBAplXI/AAAAAAAABnU/Vr6RG2ZYzjclGlXapEcGOsZU-WhLPNlqwCLcB/s1600/up2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="210" src="https://2.bp.blogspot.com/-hokiAZCmDa4/V43FBBAplXI/AAAAAAAABnU/Vr6RG2ZYzjclGlXapEcGOsZU-WhLPNlqwCLcB/s400/up2.jpg" width="400" /></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اگر ہم بات
کریں نریندر مودی کے مرکزی وزراءمیں ہوئی حالیہ ردّوبدل کی تو وہاں بھی اتر پردیش پر
خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ریاست کے جن تین ممبران پارلیمنٹ کو وزیر بنایا
گیا ہے ان دو مشرقی اور ایک وسط، یا علاقہ اودھد سے آتے ہیں۔ یہ تینوں ہی پہلی مرتبہ
لوک سبھا کے لئے 2014 میں منتخب ہوئے ہیں۔ وہیں انتظامی صلاحیت اور پارٹی میں سرگرمی
کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تینوں ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں مقامی ومحدود اثرات کے رہنما
ہیں۔ لیکن اپنے علاقے میں اپنی ذات کے لوگوں پر اثر ڈالنے کے قابل مانے جاتے ہیں۔ مرزاپور
کی ممبر پارلیمنٹ انوپریا پٹیل ،پارٹی اپنا دل میں شروع سے تنازعات میں رہی ہیں تو
وہیں انوپریا،کرمی برادری کی اہم لیڈر ہیں۔دوسری جانب گزشتہ چند دنوں سے بہار کے وزیر
اعلی نتیش کمار جو خود ایک کرمی لیڈر ہیں اترپردیش میں وارانسی اور آس پاس کے علاقوں
میں شراب بندی مہم کو ایشو بناتے ہوئے اپنا اثر بڑھانے کے فراق میںہیں۔ اسی طرح شاہجہاں
پور سے ممبر پارلیمنٹ کرشنا راج بھی اپنے علاقے میں دو بار رکن اسمبلی رہ چکی ہیں اور
دلت طبقہ میں اپنی ذات کی بنار پر معروف رہنما مانی جاتی ہیں۔ دلت برادری کو اپنی جانب
متوجہ کرنے میں مصروف بی جے پی کا یہ فیصلہ بھی ذات پات کے نظام کو مزید مضبوط کرنے
کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔ تقریبا یہی جوڑ توڑ چندولی کے ایم پی مہندر پانڈے پر
بھی لاگو ہوتا ہے جو اپنے علاقے میں برہمن کمیونٹی کے بااثر لیڈرہیں۔ دوسری جانب اس
تبدیلی کے پس پشت ایک اور تشویش جو بی جے پی کی سامنے آ رہی ہے وہ یہ بھی ہے کہ ان
تین وزراءسے کم از کم اپنے علاقے میں کچھ کام کرائے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایسا
اس لئے ہے کہ ریاست میں بی جے پی کے 73 لوک سبھا رکن ہونے کے باوجوداکثریت پر یہ الزام
لگتا آیا ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں غیر فعال ہیں۔ حال ہی میں ایسی رپورٹیں بھی سامنے
آئی ہیں کہ بہت سے ممبران پارلیمنٹ نے گود لئے دیہات میں ابھی تک کوئی خاص کام نہیں
کیا اروبعض نے تو اپنے فنڈ کا بھی مناسب استعمال نہیں کیا ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://3.bp.blogspot.com/-20h4SpRHTJ0/V43FAf4047I/AAAAAAAABnQ/TobMy1U2NKUGXtVGzuzFZf2Z84q7D86bQCEw/s1600/up1.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" height="240" src="https://3.bp.blogspot.com/-20h4SpRHTJ0/V43FAf4047I/AAAAAAAABnQ/TobMy1U2NKUGXtVGzuzFZf2Z84q7D86bQCEw/s320/up1.jpg" width="320" /></a></div>
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> بی جے پی
کے بعد اگر بی ایس پی کی بات کی جائے جس کی سربراہ مایاوتی یہ امید لگائے بیٹھی ہیں
کہ ِاس بار ریاست میں اُن کی حکومت بننے کی زیادہ امید ہے، توحقیقت جو سامنے آرہی ہے
وہی یہی ہے کہ بی ایس پی خود اندر ون خانہ کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پارٹی کے لیڈر
ایک ، ایک کرکے الگ ہورہے ہیں اور مایاوتی پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ پیسے کی
دلدادہ ہیں۔ ساتھ مقامی سے لے کر ریاست تک کے زیادہ تر لیڈر پارٹی میں پیسے کا کھیل
کھل کر کھیلتے آئے ہیں اور یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جس کا ذکر نہ صرف بی جے پی صدر
امت شاہ نے یہ کہتے ہوئے کیا کی بی ایس پی سربراہ مایاوتی نوٹ چھاپنے کی مشین ہیں بلکہ
یہ بھی کہا کہ ایس پی اور بی ایس پی راہو ،کیتو کی طرح ہیں، ان کے رہتے اترپردیش کی
ترقی نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف بی ایس پی کو نوٹ چھاپنے والی مشین بنا دیئے جانے کے
بی جے پی کے الزام کی مخالفت کرتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی، کی سربراہ مایاوتی نے امت
شاہ کے الزام کو مکمل طور پر نسل پرستی کو فروغ دینے والی ذہنیت کے مترادف بتایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی ایس پی نے بہوجن سماج کو لینے والے سے نکال کر دینے والا بنایا
ہے۔ پارٹی انہی کے تھوڑے بہت مالی تعاون سے اپنی انسانیت پر مبنی مہم کو مسلسل آگے
بڑھا رہی ہے۔ جبکہ بی جے پی اور کانگریس اور ان کی حکومتیں بڑے بڑے سرمایہ داروں سے
رقم لینے کی وجہ سے ہمیشہ ان کی غلامی کرتی آئی ہیں۔بی ایس پی صدر مایاوتی نے یہ بھی
دعوی کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت غریبوں،مزدوروں،دلتوں ،کسانوں،پسماندہ
طبقات اور مذہبی اقلیتوں میں سے خاص طور پرمسلمان اور عیسائی معاشرے کے مفادات کے خلاف
ہے اور سرمایہ داروں کے لئے کام کرنے کی وجہ ہر طبقہ میں اپنا اعتماد کھوتی جا رہی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ان کی مسلسل ہار ہو رہی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ دو سالوں میں بیرون ملک گھوم کر اس نے اپنی امیج میک اورکرنے کے لیے
جتنی اہمیت دی ہے، اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ انہیں ملک کے اہم مسائل جیسے بڑھتی ہوئی
مہنگائی،غریبی،بیروزگاری،سڑک، بجلی،پانی،خشک سالی اور سیلاب وغیرہ کو ترجیحی بنیادوں
پر دور کرنے کی کتنی فکر ہے! ان حالات میں اگر مایاوتی کی بات مان بھی لی جائے جو انہوں
نے امت شاہ ،مودی اور ان کی حکومت کے بارے میں کہی اور جو کافی حد تک صحیح بھی ہے،
اس کے باوجود بی ایس پی سے باغی ہوئے سوامی پرساد موریہ اور پرم دیو یادو کی باتوں
کو کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ؟جس میں ان پر پیسہ لے کر عہدہ دینے کی بات سامنے آئی
ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> اتر پردیش
میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بہتر کارکردگی اور کامیابی کی خواہش لیے کانگریس
پارٹی بھی گزشتہ کئی سالوں کے بعد اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی فکر مند نظر آ رہی ہے۔ اس
کی ایک وجہ تو پارٹی کی لوک سبھا میں کمزور ترین صورتحال ہے وہیں راجیہ سبھا میں اِس
کی موجودہ صورتحال برقرار رہے، یہ خواہش بھی نظر آتیہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار خاص فیصلے
لئے جارہے ہیں۔ سیاسی </span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">strategist</span><span dir="RTL"></span><span style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span> <span lang="AR-SA">اور صلاح کار پرشانت کمار کی مدد لی جا رہی ہے، پرینکا
گاندھی کو میدان میں اتارنے اور بڑے پیمانے پر ریلیوں سے خطاب کرنے کی باتیں سامنے
آ ئیہیں، نیز ذات پات پر مبنی سیاست میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی۔یہی وجہ
ہے کہ جہاں ایک جانب کانگریس نے حالیہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر راج ببر کو ریاست
کا صدر بنایا ،جن کی شناخت کسی خاص گروہ سے گرچہ منسلک نہیں ،اس کے باوجود راجا رام
پال، بھگوتی پرساد، راجیش مشرا اور عمران مسعود کو نائب صدر بنا کر کانگریس نے ذات
اور مذہب ہردو پہلو سے کامیاب ہونے کی کوشش کی ہے۔اور بڑی خبر یہ بھی ہے کہ تین مرتبہ
دہلی کی وزیر اعلیٰ رہیں شیلادکشت کو اترپردیش میں بطور وزیر اعلی نام زد کیا گیا ہے۔
شیلا دکشت ذات کے لحاظ سے برہمن ہیں اور یوپی کے علاقہ قنوج کی بہو ہیں باالفاظ دیگر
اترپردیش کی بہو اترپردیش میں بطور وزیر اعلیٰ داخل ہوا چاہتی ہے۔</span></span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://3.bp.blogspot.com/-3Rujn5uGORE/V43E-ttiLJI/AAAAAAAABnM/t72wE2tElscfrP_EPoFqQpt-Ajju33x8ACEw/s1600/up.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" height="223" src="https://3.bp.blogspot.com/-3Rujn5uGORE/V43E-ttiLJI/AAAAAAAABnM/t72wE2tElscfrP_EPoFqQpt-Ajju33x8ACEw/s320/up.jpg" width="320" /></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> گفتگو کے
پس منظر میں قبل از وقت اترپردیش اسمبلی انتخابات کے بارے میں بہت کچھ تو نہیں کہا
جا سکتا لیکن اتنی بات طے ہے کہ بی جے پی کے علاوہ جن پارٹیوں کو بھی کامیاب ہونا ہے
ان کے لئے مسلمانوں اور دلتوں کا ووٹ شیئر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس پس منظر میں مسلمان
ہوں یا دلت،دونوں ہی کو ووٹ دینے سے قبل ریاست میں اپنی حیثیت اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے۔
ساتھ ہی جو وعدے پچھلی حکومتوں نے ان سے کیے تھے لیکن پورے نہیںکیے ،انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے۔ ساتھ ہی گزشتہ پانچ
سالوں میں جو نقصانات ہوئے ہیں اس کی تلافی کی بھی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ کیونکہ
سننے میں یہی آ رہا ہے کہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی نے پردے کے پیچھے ہاتھ ملانے
کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب اگر آپ ان دو سیاسی جماعتوں کے اِس فیصلے سے اتفاق رکھتے ہیں
تو آنکھ بند کر کے کسی ایک کے حق میں بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔برخلاف اس کے یہ بات ہمیشہ
یاد رکھنی چاہیے کہ ووٹ دینے کا حق انفرادی ہے نہ کہ اجتماعی، اور اس لئے بھی کہ ہم
ایک "جمہوری ملک" میں رہتے ہیں جہاں حکومتیں "عوام کی پسند "سے
بنائی جاتی ہیں۔لہذا آپ کی پسند صرف آپ کی ہونی چاہیے یا ان لوگوں کی جن پر آپ کو اعتماد
ہے!</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: ZDingbats; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0";">v v v v v
v v<o:p></o:p></span></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-33811212040603810122016-07-19T11:35:00.000+05:302016-07-19T11:35:05.940+05:30کیا جمہوریت اپنی حیثیت کھو چکی ہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Alvi Nastaleeq v1.0.0'; line-height: 115%;"><span style="font-size: x-small;"><br /></span></span></div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 30.0pt; line-height: 115%;">کیا جمہوریت اپنی حیثیت کھو چکی ہے!</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 30.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> آج دنیا
تشدد سے پریشان ہے۔تشدد کے علمبردار ہر زمانے میں تشدد کا فروغ امن و امان کے قیام
کے نام کر تے آئے ہیں اور یہی کچھ آج بھی جاری ہے۔فی الوقت "امن و امان
"کے نام پر تشدد کے فروغ کی مثال امریکہ سے ہے۔ وہی امریکہ جو چاہتا ہے کہ دنیا
میں جس کو وہ امن کہے اسے سب امن کہیں اور جس کو وہ تشدد کہے اسے سب تشدد کہیں۔اس سے
قطع نظر کہ دنیا امریکہ اور اس کی کاروائیوں سے کس قدر پریشان ہے۔سوال یہ ہے کہ جو
ملک عرصہ دراز تک انسانوں کو رنگ و نسل کی بنیادوں پر تقسیم کرتا رہا اور انہیں بنیادوں
پر ظلم و زیادتیاں اور استحصال میں اضافہ کرتا آیا ہے،وہ خود اپنے گریبان میں جھانکنے
اور اس میں بہتری لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتا ہے؟افسوس در افسود ایسے شطرمرغ اور اس
کے ہمنوا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Times New Roman","serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ں
پر جو خود کو چھوڑ کر دوسروں کے مسائل اپنے ہاتھ میں لینے ، ان کو حل کرنے اور ان میں
کمیاں نکالنے کے درپے ہیں۔برخلاف اس کے واقعہ یہ ہے کہ آج کے "مہذب ترین
"دور میں ،جبکہ حقوق انسانی کی باتیں ہر فرد و گروہ بڑے زور و شور سے اٹھاتا ہے،اپنے
ہی ملک میں ہو رہی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔کچھ اسی طرح
کا معاملہ ایک با ر پھر نسلی تعصب کے نتیجہ میں امریکہ میںسامنے آیاہے۔جس کے نتیجہ
میں ایک طرف مہذب افراد اور ان کا ملک سیاہ فاموں کا قتل کررہا ہے تووہیں تشدد کا جواب
تشدد سے دیا جا رہا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ حقوق انسانی کا علمبردار اور امن و امان کے قیام
کے خواہش مند امریکہ کی ریاست ڈیلاس میں صرف 32گھنٹوں کی بد امنی میں 7افراد لقمہ اجل
بن گئے ۔فی الوقت ان حملوں سے امریکی غمزدہ ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں وہ کہتے ہیں
کہ ہمیں امریکی عوام کی حمایت درکار ہے۔یہ پورا واقعہ اس وقت پیش آیا جبکہ دو سیاہ
فام افراد کو پولیس کے ہاتھوں قتل کیا گیا ،بعد میں امریکی ریاست مینسوٹا میں سیاہ
فام شخص فیلینڈوکاسٹل کوگاڑی سے ڈرائیونگ لائسنس نکالتے وقت پولیس نے گولی ماردی نیز
اگلے ہی دن ایلٹن اسٹرلنگ نامی ایک اور سیاہ فام شخص کو ریاست لوسیانا میں ہلاک کر
دیا گیا۔وہیں سیاہ فام امریکی صدر بارک اوبا ما نے سیاہ فام امریکی شہریوں کیخلاف پولیس
کے تشدد کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پولیس کے ہاتھوں تشدد ایک 'سنگین مسئلہ'ہے۔سیاہ
فام اوباما کے مطابق اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد کی کمی ہے ۔جس کے نتیجہ میں
اس طرح کے سانحات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے
ادارے اپنے متعصب افراد کو برطرف کردیں۔متذکرہ واقعہ تکلیف دہ اور افسوسناک ہے اور
ہمیں بھی انسانوں کے درمیان رنگ و نسل کی بنا پر برتری اور حقیر جاننے پر افسوس ہے۔ساتھ
ہی ہلاک شدگان اور زخمیوں سے ہمدردی بھی ہے۔اس سب کے باوجود یہ ایک واقعہ ان تمام افراد
و گروہ کوغور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے، جو امریکہ اور وہاں موجود آزادی اظہار وحقوق
انسانی کے گن گاتے نہیں تھکتے ۔یہ ٹھیک ہے کہ جس طرح ہمارے وطن میں تشدد پایا جاتاہے
اور جس طرح یہاں بدکلامی جاری ہے،لوگوں کی عزت نفس کے کھلواڑ کی جارہی ہے،اور جس طرح
حقوق انسانی کا گھلاگھوٹا جا رہا ہے،بالمقابل اس کے وہاں ظاہراً وہ کچھ نہیں ہوتا ،اس
کے باوجود نہ وہاں کے حالات بہتر ہیں اور نہ یہاں کے۔کیونکہ ایک فکر و نظریہ ،انسانوں
کا انسانوں ہی کے خلاف ظلم و زیادتیوں کا یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔یہاں اس کا واستہ
منووادی فکر ہے ،جس میں ایک برہمن ہے تو دوسرا شودر تو وہاں رنگ و نسل کی برتری کی
بنا پر عزت و ذلت کے پیمانہ قائم کیے گئے ہیں۔یہ الگ با ت ہے کہ دونوں ہی مقامات پر
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کچھ انسانی حقوق کے پیمانہ بھی قائم کیے گئے ہیں۔اس سب
کے باوجود عملی مظاہر یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی فطر ت میں ظلم و زیادتیاں رچی بسی
ہیں،نتیجہ میں ہر دو مقام پر انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم و زیادتیوں میں
مصروف ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> واقعہ یہ
ہے کہ وطن عزیز میں اسلام کے سورج طلوع ہونے سے قبل ہر قسم کی زیادتیاں جاری تھیں۔فرعون
وقت اپنی رعیت پرہر قسم کی زیادتیوں میں مصروف تھے۔مشہور یہی تھا کہ ملک کا بادشاہ
،خدا کا پرتو ہے،لہذا حکم خدا وندی یا حکم اقتدار ہم معنی سمجھا جاتا تھا۔ہندوستان
کی تاریخ میں سب سے بڑی اور سب سے پہلی ،سلطنت موریہ تھی۔جس کا بانی چندر گپت موریہ
تھا۔موریہ برہمنوں کی بالا دستی کو نہیں مانتے تھے۔ وہ ہندو مذہب کے روایتی، سماجی
مذہبی اور سیاسی نظریات کی مخالفت کرتے تھے اور ذات پات کے مخالف تھے۔اس کے باوجود
موریا حکومت اس دور کی دوسری ہندو حکومتوں کی طرح شخصی، مورثی اور مطلق العنان تھی۔
راجہ دیوتا کا نائب اور اس کی طاقتوں کا مظہر تھا۔ تمام عدالتی، انتظامی اور فوجہ اختیارات
صرف اسے حاصل تھے۔وہیںہندوستان میں اسلام سے قبل بدھ مذہب کے پیروکار تھے، نیز اس دور
میں بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا یہاں پتہ چلتا ہے، لیکن اتنی بات پایہ ثبوت
کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی، بلکہ بدھسٹ اپنی خیرات
تقسیم کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین کو لائن میں لگاتے تھے وہیں برہمنوں کی قطار بھی
ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند </span><span lang="FA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: FA;">۷۱۱۱-۸۱۱</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">،
از مسٹر ہنٹر) اس کے باوجود برہمن "بدھ"مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم
کرنا چاہتے تھے۔ مورخ اسلام اکبرشاہ خاں کے حوالے سے چین کے مشہور عالم "ہیونگ
شیانگ" نے ہندوستان کی سیاحت میں پندرہ سال (</span><span lang="FA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: FA;">۰۳۶-۵۴۶</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ئ) گزارے اوراس مدت میں ہندوستان
کی سیر کی، وہ ہرمقام پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی
جگہ ڈاکووں کے پنجے میں گرفتاری کا ذکر بھی کرتا ہے، اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر
اور بے دین بتاتا ہے حالانکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور بدھ کے مخالف تھے (آئینہ
حقیقت نما،ص:</span><span lang="FA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: FA;">۴۸)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">۔گوتم
بدھ اور اشوک کے بعد کے زمانے میں معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی دلدل
میں پھنسا ہوا تھا۔جادو کا عام طور پر رواج تھا، غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات
بتانے والوں کی بڑی گرم بازاری تھی، محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ
تھا، چناں چہ راجا داہر نے اپنی حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایما ءسے شادی کی تھی،
راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا، ذات باری تعالیٰ کا تصور معدوم ہوکر اعلیٰ و ادنیٰ
پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے (آئینہ حقیقت نما،ص:</span><span lang="FA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: FA;">۴۷۱-۵۷۱)</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">۔اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے
علی میاں ندویؒ "منو شاستر"کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس وقت عام طورپر ہندو
مذہب نت نئے دیوتاوں یہاں تک کہ آلہ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا
(اورآج بھی یہ طریقہ ہندووں میں رائج ہے)۔ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک
قوم"شودر"نامی ، جس کے متعلق منوشاستر،ص:</span><span lang="FA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: FA;">۶</span><span lang="FA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">پر
ہے: "اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے
کھینچ لی جائے، اگر اس کا دعویٰ کرے کہ اس کو (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو
کھولتا ہوا تیل اس کو پلایا جائے، کتے، بلی، مینڈک، چھپکلی، کوے، الو اور"شودر"کے
مارنے کا کفارہ برابر ہے۔ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو
فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن
کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان کے لالے پڑجائیں۔یہ اس وقت کے حالات تھے جو
شاید وطن عزیز کا ماضی تھا لیکن دور جدید میں کمزور طبقات اور دلتوں کے ساتھ نیز ملک
کی اقلیتوں کے تعلق سے جو خیالات پائے جاتے ہیں، وہ بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ساتھ ہی
جو معاملات سامنے آتے رہے ہیں وہ مزید تشویشناک ہیں۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> دوسری جانب
واقعہ یہ ہے کہ جدید امریکہ ہویا جدید ہندوستان،دونوں ہی ممالک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت
کہلاتی ہیں۔اس پس منظر میںان ممالک میں جو واقعات رونما رو رہے ہیں اور جن سے یہاں
کے لوگ نبر دآزما ہیں،وہ کیسے اس بات کو ثابت کریں گے کہ جمہوریت واقعتا مخصوص فکر
و گرہوں کے گھر کی لونڈی نہیں بن چکی ہے؟واقعات کی روشنی میں کیا یہ بات کہی جا سکتی
ہے کہ جمہوریت اپنی اصل کے ساتھ ، عدل و انصاف کے پیمانہ برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کے
لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے؟اور اگر یہ مانا جائے کہ آج جمہوریت جس کا ڈھنڈورا پیٹا
جارہا ہے وہ استعماریت اور آمریت میں تبدیل ہوچکی ہے تو پھر عوام کے پاس متبادل کیا
ہے؟خصوصا ً ان حالات میں جبکہ اسلام،اسلامی تعلیمات اور داعیان اسلام پر پابندی کی
بات کی جا رہی ہو!</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: ZDingbats; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0";">v v v v v
v v<o:p></o:p></span></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-80232247613364337882016-06-28T15:02:00.002+05:302016-06-28T15:02:22.562+05:30این ایس جی معاملہ:چینی چٹائی بھی کام نہ آئی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 35.0pt; line-height: 115%;">این ایس جی معاملہ:چینی
چٹائی بھی کام نہ آئی !</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 35.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> گزشتہ ایک
ہفتہ پہلے کی بڑی خبر کیرانہ کی نقل مکانی تھی ۔جس کا آغاز و اختتام اُسی ہفتہ ہوگیا
تھا۔اس کے باوجود اترپردیش حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ سنتوں کی پانچ رکنی ٹیم نے اپنی
رپورٹ جب بائیس جون کو سونپی تو ایک بار پھر وقتی طور پرمسئلہ کو منفی رخ دینے کی کوشش
کی گئی لیکن ،کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔سنتوں کی ٹیم نے رپورٹ میں کہا ہے کہ کچھ لوگ
وہاں کی فضا خراب کرنا چاہتے تھے۔ کیرانہ جانے والے سنتوںکے وفد میں بھارتی سنت کمیٹی
کے قومی صدر پرمود کرشنن سمیت ہندو مہاسبھا کے صدر چکرپانی مہاراج،دیو آنند گری شامل
تھے۔پرمود کرشنن نے وزیر اعلیٰ کو رپورٹ سونپتے ہوئے بتایا کہ کیرانہ تحقیقات کے دوران
انہوں نے وہاں پر تمام طبقے کے لوگو ں سے بات چیت کی اور پتہ چلا کہ اتر پردیش کی فضا
خراب کرنے کی خطرناک سازش رچی گئی تھی۔ اس پر وزیر اعلی اکھلیش یادو نے سنجیدگی سے
غور کرتے ہوئے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔اسسے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ،کہ
کوشش جو کی گئی تھی وہ جھوٹ پر مبنی تھی،اور واقعہ جو بیان کیاگیا تھا وہ حقیقت سے
بہت دور تھا،برخلاف اس کے حالات یکسر مختلف تھے،لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ تھا،جسے حل کرنا
مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، اور جس طرح انہیں اپنی ذمہ داری ادا کرنی
تھی وہ ابھی تک ادا نہیں کر رہے ہیں۔ساتھ ہی غربت و افلاس اور معاشی بدحالی کا معاملہ
ہے،اس تعلق سے بھی کو ئی واضح منصوبہ ،رپورٹ اور واقعات سامنے آنے کے باوجود ،عمل درآمد
کے مرحلے میں سامنے نظر نہیں آتا۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> ہفتہ کی
دوسری اہم اور بڑی خبر عالمی یوگا دن کا منایا جاناہے۔اس دن کو منانے کے لیے جہاں حکومت
نے اپنی تمام تر طاقت کا راست اور بلاواسطہ استعمال کیا۔وہیں عالمی یوگا دن کے موقع
پرتاریخ رقم کرنے کی خواہش لئے ہندوستانی حکومت نے سوا سو کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم
صرف اشتہار بازی پر خرچ کی ہے۔ حکومت کی مختلف وزارتوں نے اس دن کو کامیاب بنانے کا
جو بجٹ تیار کیا ہے وہ تشہیر کے لیے دیگر منصوبوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔سرکاری ذرائع
کے مطابق اکیلے آیوش محکمہ نے 30کروڑ روپے خرچ کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے۔ جبکہ وزارت خارجہ
نے ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں واقع ہندوستانی سفارت خانوں کے ذریعہ یوگا دن کو
کامیاب بنانے کے لئے تشہیر کی ہے۔ جس کا بجٹ تقریباً سو کروڑ روپے کے آس پاس بتایا
جا رہا ہے۔دولت،وسائل، ذرائع،صلاحیتں،وقت کا بھر پور استعمال ہوا تو وہیں سرکاری وزراتیں،دفاتر،اثر
و رسوخ کا استعمال بھی سامنے آیا ۔ساتھ ہی میڈیا جو کسی بھی چیز کو اہم اور غیر اہم
بناتی ہے،اس موقع پر اس کا مکمل اور بھر پور استعمال کیا گیا۔اور اس سب کی وجہ جو ملک
کے وزیر اعظم نے جو بتائی وہ یہ تھی کہ یوگا کوئی مذہبی سرگرمی نہیں ہے،لہذا اس کو
گلالگایا جائے یعنی اس کو زندگی میں اختیار کیا جائے۔اس موقع پر ایک لمحہ کے لیے اُن
لوگوں کے بیانات بھی یاد کرلینے چاہیے جنہوں نے موجودہ حکومت کی تشکیل کے وقت ،اور
موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حلف برداری کے وقت کہا تھا کہ ہندوستان کو ایک طویل
عرصہ کے بعد ایک ہندو حکمراں حاصل ہوا ہے۔اس پس منظر میں جب ہم نریندر مودی کی سرگرمیوں
اور ان کی جانب سے کی جانے والی سعی و جہد کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سرگرمیوں
کارشتہ کہیں نہ کہیں اس پس منظر سے بھی وابستہ ہے،جس کاتذکرہ کبھی کھل کر تو کبھی ڈھکے
چھپے کیا جاتا ہے۔ساتھ ہی ملک کے ہر باشعور شہری کو اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے
کہ جیسا کے کہنے والوں نے ملک کے وزیر اعظم کو "ایک ہندو حکمراں "کہا،اور
اپنی امیدیں وابستہ کیں، اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے کہ ملک کو درحقیقت ہندو راشٹر
بنانے میں مصروف عمل اورپابند عہد "ہندو حکمراں"کس سرگرمی کو کن مقاصد کے
لیے انجام دے رہا ہے؟ممکن ہے کہنے والے کہیں کہ ملک کے وزیر اعظم کے لیے جو کسی بھی
مذہب ، تہذیب اور ثقافت کو فروغ دینے کا ذمہ دار یا پابند عہد نہیں ہوتا ، کے لیے اس
طرز پر سوچنا اور اس کی سرگرمیوں کا اس طرح جائزہ لینا مناسب نہیں ہے۔لیکن یہ جائزہ
لینے کا عمل ہمارا خود کا نہیں بلکہ یہ جائزہ لینے کا عمل تو اُن لوگوں کا ہونا چاہیے
،جنہوں نے بڑی مشقتیں اٹھانے کے بعد اور اندرونی کشمکش سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ،نریندر
مودی کو پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم نام زد کیا تھا۔بہرحال ،واقعہ تو یہی ہے کہ یوگا
ایک مذہبی عمل ہے، اور جو یوگی ،تپسیا اور سادھنا کرتے ہیں یا جن مذہبی پیشوا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Tahoma","sans-serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ں
کا ہندو مذہب میں تذکرہ اور عبادت کی جاتی ہے،وہ سب یوگا کے کسی نہ کسی عمل کو جاری
رکھتے ہوئے اپنی عبادت انجام دیتے رہے ہیں،اور وہی طریقہ آج بھی جاری ہے یہی وجہ ہے
کہ یوگا کرتے وقت نہ صرف شلوک (مذہبی آیات)پڑھے جاتے ہیں بلکہ سوریہ نمسکار جیسی سرگرمی
بھی انجام دی جاتی ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہندومذہب نے جس طرح دیگر نظریات و خیالات
کو خودمیں ضم کرلینے کا ہنر سیکھا ہے،اسی طرح یوگا میں بھی دیگر صحت عامہ سے متعلق
چیزوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔یا یہ کہیے کہ اسے جدید تر بناتے وقت دیگر ورزشوں کو بھی
شامل کر لیا ہے۔جس کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ یوگا کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> تیسری خبر
گرچہ زیادہ مشتہر نہیں ہوئی لیکن یہ خبر اس لیے اہم ہے کہ ملک میں برسر اقتدار سیاسی
جماعت اور اس کے لیڈران اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار
کیے ہوئے ہیں ؟اس کا اندازہ اُن کے بیانات،احساسات ،نظریہ،طرز عمل اور پایسی و پروگرام
سے وقتاً فوقتاً خوب اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔خصوصاً دلت طبقہ جو صدیوں سے خود کو
ہندوستانی تہذیب اور اس کی مضبوط جڑوں سے متاثرکن محسوس کرتا رہا ہے۔اور جس کے نتیجہ
میں ڈاکٹر بھیم را</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Tahoma","sans-serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">
امبیدکر سے لیے کر آج تک سیاسی و معاشرتی محاذ وں پر حصول وقار ،حصول عزت، حصول ذات
،کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں ۔اس سب کے باوجود نظریہ ظلم و زیادتی پر
مبنی سماج ، اس کی فکر نے اُنہیں اپنے مقام سے اوپر نہیں اٹھنے دیا۔یہی وجہ ہے کہ آج
کے "جدید ہندوستان "میں بھی دلتوں کو وقتاً فوقتاً ذلت آمیزی سے دوچار ہونا
پڑتا ہے۔فی الوقت جس بیان یا صحیح معنی میں فکر کا ہم تذکرہ کررہے ہیں وہ ریاست مہاراشٹر
کے بی جے پی ممبر اسمبلی روندر چوہان کی جانب سے سامنے آیا ہے،جو بیان انہوں نے ایک
تقریب کے دوران دیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ابراہم لنکن نے ایک سور کو نالے سے نکال
کر اسے صاف کیا تھا،اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور ریاست کے وزیر اعلیٰ دینور فڈنویس
دلتوں کی ترقی کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب حزب اختلاف نے اس بیان کی بھر
پور تنقید کی، دلت تنظیموں نے بیان کو واپس لینے اور معافی مانگنے کی بات کہی، این
سی پی پارٹی نے مخالفت کرتے ہوئے ایک سورہی کا نام رویندر چوہان رکھ دیا،اس سب کے باوجود
نظریہ اور فکر میں تبدیلی کی نہ کوئی کوشش ہوئی اور نہ ہی اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔گرچہ
حقیقت حال کا تذکرہ ایک مختصر واقعہ سے کیا گیا لیکن درحقیقت یہی وہ بدترین صورتحال
ہے جو ملک کو اندون خانہ کمزور کیے ہوئے ہے۔اور اسی ایک معمولی واقعہ کے پس منظر میں
ملک کے برسر اقتدار طبقےاوران مذہبی و معاشرتی راہنما</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Tahoma","sans-serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ں
کے ذہنوں کو خوب اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ایک جانب یہ سیاسی و غیر سیاسی لیڈران اکیسویں
صدی میں ہندوستان کو دنیا کی ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر ترقی یافتہ فہرست
میں شامل کرنے کی خواہاں ہیں تو وہیں اُن کی فکر اور طرز عمل منووادی دور میں آج بھی
محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایک ایسا دور جو صدیوں پرانا اوردقیانوسی دور ہے۔ان حالات میں
برسراقتدار طبقہ اور اس کے مذہبی و معاشرتی نظریہ پر دنیا کا کون شخص تعریف کر سکتا
ہے؟</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> آخری خبر
2002میں ریاست گجرات میں ہوئے مسلمانوں کا قتل عام اورگلبرگ سوسائٹی پر آنے والا فیصلے
کی ہے۔جس کا فیصلہ سناتے ہوئے جج صاحب کہہ رہے تھے کہ ہلاک شدہ کانگریس کے سیاسی لیڈر
،احسان جعفری نے اپنی لائسنس والی بندوق سے گولی چلا کر بھیڑ کو بھڑکا دیا تھا جس کے
نتیجہ میں 69 افراد ہلاک ہوگئے،یہ افراد قبل از وقت مجرم نہیں تھے،لہذا شواہد و ثبوتوں
کی روشنی میں بڑی تعداد میں لوگوں کو بری کر دیا گیا۔ہستکشیپ ڈاٹ کام کی خبر کی روشنی
میںگودھرا میں بی جے پی نے ٹرین میں آگ لگائی،اس کے بعد ٹرین میں مارے گئے لوگوں کی
لاشوں کے ساتھ پوری ریاست میں جلوس نکالے گئے،بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے
رہنماوں کی نگرانی میں بھیڑ اکٹھی ہوئی اور مسلم بستیوں اور دکانوں پر حملے کئے گئے،اور
ان فسادات میں(جبکہ لفظ فساد خود اس واقعہ کے لیے مناسب نہیں)تقریباً دو ہزار لوگوں
کا قتل ہوا، اس سب کے باوجود قاتل اس بات پر فخر کرتے نظر آئے کہ وہ ریاست گجرات کی
ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔وہیں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ بھلے ہی چین نے ہندوستان
کو این ایس جی کی رکنیت نہیں ملنے دی اور اس کی مخالفت کی اس کے باوجود ہندو چینی بھائی
بھائی کا نعرہ دیتے ہوئے یہ منظر کیا کافی نہیں ہے کہ عالمی یوگا دن پر جو یوگ کیا
گیا وہ چین کی بنی چٹائیوں پر ہی تھا!</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: ZDingbats; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0";">v v v v v
v v<o:p></o:p></span></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-87310892333703321132016-06-20T14:59:00.004+05:302016-06-20T15:27:00.307+05:30کیرانہ کا سفید جھوٹ اور بی جے پی کا مشن اترپردیش<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; line-height: 115%;"><span style="font-size: xx-small;"><br /></span></span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 30.0pt; line-height: 115%;">کیرانہ کا سفید جھوٹ اور بی جے پی کا مشن اترپردیش!</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 30.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://3.bp.blogspot.com/-1e2kwFGa_po/V2e9k1iWv6I/AAAAAAAABlc/-lL1COC01CgxwweOvz3sMecwvqC2ulnhACKgB/s1600/kairana.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="360" src="https://3.bp.blogspot.com/-1e2kwFGa_po/V2e9k1iWv6I/AAAAAAAABlc/-lL1COC01CgxwweOvz3sMecwvqC2ulnhACKgB/s640/kairana.png" width="640" /></a></div>
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span>
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> ایک جانب
کانگریس نے اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی باگ دوڑ کی ذمہ داری غلام نبی
آزاد کو سونپی تو اُدھر بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ الہ آباد میں مکمل ہوئی۔دونوں
ہی کا نشانہ آئندہ 2017میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔لیکن اس سے پہلے کہ کانگریس
کسی ایشو کو اٹھاتی اور اسے انتخابی رخ دیتی، بی جے پی نے پہل کرتے ہوئے کیرانہ کا
مسئلہ زور و شور سے اٹھا دیا ہے۔اس کے باوجود افسوس کی بات یہ ہے کہ جس حکم سنگھ نے
اس مسئلہ کو بڑی تیاری کے ساتھ اٹھایا تھا وہ خود اپنے موقف سے پلٹ گئے ہیں۔یہ بات
بھی آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک میں ہوئے 2014کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے اتر
پردیش میں بی جے پی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کے لیڈران کی زبانی جنگ تیز سے تیر تر
ہو چکی ہے۔اس بدزبانی اور نفرت آمیزگی کا ہی نتیجہ تھا کہ چند ماہ پہلے نریندر مودی
نے آر ایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کی اور اس پر لگام لگانے کی بات کہی تھی یہاں تک
کہ اپنے عہدے سے سبکدوشی کی بات بھی کہی تھی۔اس کے باوجود اترپردیش کے چند سادھونما
سیاست داں نفرت کا ماحول پروان چڑھانے میں مستقل مصروف عمل رہے ہیں۔ممکن ہے اسی پس
منظر میں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کو لکھنو میں کہنا پڑا کہ سادھوی پراچی کا بی
جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ بی جے پی کی رکن بھی نہیں ہیں۔لیکن امت شاہ کا یہ بیان
سادھوی پراچی کو بڑا شاق گزرا ۔اور انہوں نے بھی اس بیان کے بعد یہ بیان دے ڈالا کہ
کام میں کرتی ہوں اور فائدہ بی جے پی اٹھاتی ہے،پھرجس طرح سے مظفر نگر سانحہ میں ،میں
نے اپنا کردار ادا کیا اور مجھ پر قومی سلامتی ایکٹ لگا،اس کا فائدہ بھی تو بی جے پی
ہی کو ملا۔میں نے قومی سلامتی ایکٹ برداشت کیا،کورٹ کچہری کے چکر لگائے اور اب کا فائدہ
امت شاہ اٹھا رہے ہیں۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> وہیں کیرانہ
کے مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی نے کہا کہ معاملہ یہ
ہے کہ بی جے پی نے ریاست میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے
کیرانہ کا مسئلہ اٹھایا ہے۔جس کا بنیادی مقصد انتخابات سے قبل کشیدگی پھیلانے اور فرقہ
وارانہ فساد کروانے کی سازش ہے۔انہوں نے ریاست کی برسراقتدار سماج وادی پارٹی،بی جے
پی کے الزامات کا جواب دینے میں ناکام رہی ہے لیکن ان کے فرضی الزامات کی اصلیت بتا
کر میڈیا نے اس سازش کو بے نقاب کیا ہے۔ریاست میں امن و قانون کی صورتحال بدتر ہے جس
سے لوگ پریشان ہیں۔اس بدحالی کے لیے تنہا سماج وادی حکومت ہی نہیں بلکہ بی جے پی اور
کانگریس بھی ذمہ دار ہیں۔انہوں نے کہا راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل کے الیکشن میں
اپنے دو امیدواروں کی شکست کے بعد بی جے پی بری طرح سے زمین پر آگئی ہے، اس سے توجہ
ہٹانے کے لیے کیرانہ کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔لیکن یہ اچھی بات ہے کہ میڈیا ہی نے اس
سازش کو ناکام بنا دیا۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> کیرانہ شاملی
ڈسٹرکٹ کا ایک چھوٹا شہر ہے ۔یہ علاقہ مظفر نگر فسادات کے دوران بھی متاثر ہوا تھا۔شہر
میں 80فیصد مسلمان ہیں تو وہیں18فیصد ہندو۔ واقعہ یہ بھی کہ جس طرح حکم سنگھ کی لسٹ
میں ہندو</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "times new roman" , "serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ں
کی نقل مکانی کی بات اٹھائی گئی ہے وہیں دوسری جانب 'دا وائر'کی رپورٹ کی روشنی میں
150مسلم خاندان بھی اِس علاقہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔وجہ؟خوف کی سیاست ،کرائم کا
اضافہ ،معاشی تنگی اور امن و امان کی تلاش۔رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ غنڈہ گردی میں
ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔علاقہ کے دو مشہور سرگرم گینگ سربرہ کے ناموں میں سے
ایک کانام مکم کالا ہے تو دوسرے کا نام فرقان ہے، اور فی الوقت دونوں ہی جیل کی ہوا
کھا رہے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کی روشنی میں جو لسٹ حکم سنگھ نے فراہم کی اس
میں سے 5افراد مرچکے ہیں،4افراد بہتر معاش کی تلاش میں علاقہ چھوڑ کر گئے ہیں، 10افراد
ایسے ہیں جو تقریباً10سال پہلے یہاں سے جا چکے ہیں۔وہیں 118نام جو شا ملی ڈسٹرکٹ پولیس
کو فراہم ہوئے ہیں ان میں سے 5لوگ مرچکے ہیں،12ابھی بھی وہیں مقیم ہیں،46افراد ایسے
ہیں جو 2011میں ہی یہاں سے جاچکے ہیں،اور55افراد ایسے ہیں جو 11سال پہلے یہاں سے نقل
مکانی کر چکے ہیں۔ان تمام اعداد و شمار کے ساتھ ہی سینئر جرنلسٹ پنکج چتر ویدی کہتے
ہیں کہ لسٹ میں 10لوگ مرے پائے گئے ہیں، کئی سرکاری نوکرہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد علاقہ
سے جا چکے ہیں،کئی خاندان وہیں موجود ہیں،اور اگر اس لسٹ کو تسلی کے ساتھ دیکھا جائے
تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر افراد مزدور ہیں جو روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر
مجبور ہیں،پھر اگر وہ ایسا نہ کریں تو کیا کریں؟ان حالات میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں
سے سوال تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ علاقہ میں کرائم کا خاتمہ اور امن و امان بحال کرنے
کی کس کی ذمہ داری ہے اور وہ کب ادا کی جائے گی؟وہیں شہر یوں کی معاشی تنگ دستی کے
لیے کیا پالیسی اور پروگرام مرتب کیا گیا ہے؟لیکن فی الوقت یہ سوالات پوچھنے والا کوئی
نہیں ہے۔برخلاف اس کے لگتا ایسا ہے کہ کیرانہ کا مسئلہ بی جے پی ختم کرنے والی نہیں
ہے۔وہ چاہتی ہے کہ جس ایشو کی باقاعدہ زمین ہموار کی گئی،جس کے لیے میڈیا میں اس کی
تشہیر ہوئی،اور علاقہ سے وابستہ لیڈر حکم سنگھ کی ساکھ دا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "times new roman" , "serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">
پر لگی،اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔اس لیے جہاں اُس نے پہلے مقیم مسلمانوں کی
دبندگی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا وہیں اب کیرانہ سے ہندو خاندانوں کی مبینہ نقل مکانی
کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اپنی 9رکنی ٹیم کو مقامی شہریوں کی سخت مخالفت کے باوجود
بھیجا ،اور کہا کہ جس طرح ہم یہاں تحقیقات کرنے آئے ہیں اسی طرح ریاستی حکومت کو بھی
یہاں آکر زمینی حقائق کی تلاش کرنی چاہیے۔دوسری جانب ایک مقامی شہری نے بتایاکہ یہاں
ہم ہندو مسلمان ایک طویل عرصہ سے امن و امان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔مسئلہ صرف سیاسی وجوہات
کی بنا پر اٹھایا جا رہا ہے۔پوری ریاست میں قانون و انتظامیہ کا مسئلہ ہے اور اسے روکنے
کے لیے کارروائی ہونی چاہیے،اور جو نقل مکانی کی وجہ بتائی جا رہی ہے ،وہ نہیں ہے
۔جن ستّا اخبار کی روشنی میں خبر کا ایک تیسرا رخ یہ ہے کہ سہارنپور ربینچ کے ڈی آئی
جی ،اے کے راگھو نے ڈی جی پی ہیڈکوارٹر کو رپورٹ بھیجی ،جس میں کئی خلاصے سامنے آئے
ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے ہند</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "times new roman" , "serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ں
کی لسٹ بنانے والے بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ حکم سنگھ اپنی بیٹی کو چنا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "times new roman" , "serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">
لڑوانا چاہتے ہیں۔سنگھ اپنی بیٹی کو کامیابی دلانے کے لیے فرقہ ورانہ صف بندی (</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">Communal
polarization</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)کرانا
چاہتے ہیں۔غور طلب ہے کہ سنگھ نے ہندو خاندانوں کی ایک لسٹ جاری کی تھی اور کہا تھا
کہ بڑی تعداد میں کیرانہ کے مخصوص مذہب کے افراد کی دہشت سے ہندو خاندان نقل مکانی
کرنے پر مجبور ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ فساد کی شکل اختیار کر سکتا ہے
لہذا یہاں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک خاتون کے
اغوا اور قتل کےمعاملہ میں ہندو سماج کے دو لوگوں کا نام آرہا تھا لیکن سنگھ نے ان
دونوں لوگوں کا نام رپورٹ سے ہٹانے کا دبا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "times new roman" , "serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">
بنایا ۔اوراس معاملہ میں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> کیرانہ کا
معاملہ لگتا ایسا ہے کہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔شاید اسی وجہ سے بی جے پی کے ممبر
اسمبلی سنگیت سوم نے تقریباً دوہزار حامیوں کے ساتھ اپنی 'نربھیہ یاترا'شروع کی۔سوم
نے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے لیے پندرہ دن کا الٹی میٹم دیا ہے ورنہ سڑکوں
پر اترنے کی بات کہی ہے۔گرچہ پولیس نے سوم ان کے حامیوں کی یاترا کو روک دیا ہے،اس
کے باوجودہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس یاترا میں کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش کی گئیاوراشتعال
انگیز نعرے لگائے گئے۔کیرانہ کا معاملہ پوری طرح صاف ہے کہ عمل کے پس پشت مقاصد کیا
ہیں۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آغاز ہے 2017میں ہونے والے اترپردیش اسمبلی الیکشن کا۔غوروفکر
اور لائحہ عمل ان تمام لوگوں کو طے کرنا چاہیے جو اس لیکشن میں راست حصہ داری نبھائیں
گے۔کہا جا سکتا ہے کہ ابھی کافی وقت موجود ہے۔اس کے باوجود بہتر یہی ہوگا کہ وقت کا
زیاں کیے بناکسی بہتر اور ٹھوس لائحہ عمل کی جانب پیش قدمی کی جائے!</span><span dir="LTR" style="font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: "zdingbats"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">v v v v v
v v<o:p></o:p></span></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-10720561874041715652016-06-20T14:56:00.004+05:302016-06-20T14:56:44.213+05:30بی جے پی کی ناکامی کیا آر ایس ایس کی ناکامی ہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;">بی جے پی کی ناکامی کیا
آر ایس ایس کی ناکامی</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہے</span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="AR-SA" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>!</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> ہندوستان نہ صرف جغرافیائی حیثیت سے ایک بڑا ملک
ہے بلکہ مسائل اور ایشوز کے اعتبار سے بھی دنیا کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔س
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں بے شمار مذاہب اور کلچرپائے جاتے ہیں۔وہیں واقعہ
یہ بھی ہے کہ ملک کی اکثریت جس مذہب کو مانتی ہے اور جس حیثیت سے اپنا تعارف پیش کرتی
ہے یعنی بحیثیت"ہندو"یہ خود مختلف افکار کا منبع ہے۔اور چونکہ ہندومذہب کوئی
واضح شکل نہیں رکھتا،سوائے اس کے کہ وہ مورتی پوجا کے علمبردار ہیں،لہذا ملک کے بے
شمار قبائل،جنہیں کہیںذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو کہیں مذہبی پیشوا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Times New Roman","serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ں
اور معبودوں کے اعتبار سے،ایک حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔یعنی وہ لوگ جو مورتی پوجا میں
عقیدت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اندرونی طور پر تقسیم ہیں،بٹے ہوئے ہیں،منتشر ہیں
اورایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔پھر یہی انتشار ان کے معاشرتی وسیاسی مسائل میں جھلکتا
ہے۔جس کے نتیجہ میں ملک میں بے شمار سیاسی پارٹیاں وجود میں آئی ہیں۔لیکن ایک سیاسی
و معاشرتی اور کسی حد تک مذہبی گروہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جوتمام ہندو</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Times New Roman","serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ں
کے متحد ہونے کا خواہش مند ہے ۔اس کا نام راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس۔5افراد
پر مشتمل ،آرایس ایس کا قیام 1925میں ہواتھا ۔لیکن آج یہ گروہ ملک کا کیڈر بیس سب سے
بڑامنظم ترین گروہ ہے،جس کے بانی کیشو بلی رام ہیگواڑ ہیں۔آرایس ایس ایک فکری و نظریاتی
گروہ ہے۔جس کے قیام کا مقصد ہی ہندوستان کو ایک بار پھر"ہندوراشٹر"میں تبدیل
کرنے کا خواب ہے۔فی الوقت جوسیاسی پارٹی ہندوستان میں برسراقتدار ہے یعنی بی جے پی،وہ
آرایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔وزیر اعظم سے لے کر مرکزی وزراءکی ایک بڑی تعداد آرایس ایس
کا کیڈر ہے،جس نے مقاصد کے حصول کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیںاور عزائم سے محسوس
ہوتا ہے کہ آئندہ بھی دیں گے۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> جیسا کے
پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ آر ایس ایس ایک منظم ترین گروہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے معاشرہ
کے مختلف طبقات کے لیے ،ضرورت کے اعتبار سے الگ الگ جماعتیں،پارٹیاں،تنظیمیں،سوسائٹیاںاور
انجمنیں تشکیل دی ہیں۔چند نام یہاں پیش کیے جا رہے ہیں جس سے واضح ہوگا کہ مقاصد کے
حصول کے لیے کس قدر یکسوئی اور آرگنائز طریقہ سے 1925سے لے کر آج تک یہ گروہ سرگرم
عمل ہے۔اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ABPS</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،اکھل بھارتیہ ون واسی
کلیان آشرم(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ABVKA</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ABVP</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،بجرنگ دل(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">BD</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،بھارتیہ جنتا پارٹی(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">BJP</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،بھارتیہ جنا سنگھ(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">BJS</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،بھارتیہ کسان سنگھ(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">BKS</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،بھارتیہ مزدور سنگھ(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">BMS</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،چھاتر سنگھرش سمیتی(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">CSS</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،کیندریہ کاریکاری منڈل(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">KKM</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،سیودیش جاگرن منچ(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">SJM</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،ویشو ہندو پریشد(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">VHP</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،اکھاڑہ بھگاباتا ٹونگی(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ABT</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،چھاترا دلت(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">CD</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،درشن دھنگدا دھنگدی(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">DDD</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)اور اس کے علاوہ دیگر
وہ بے شمار تنظیمیں اور انجمنیں جوتعلیم اور صحت عامہ کے میدان میں مختلف ناموں سے
مصروف عمل ہیں تو وہیں بے شمار این جی اوز ایسی بھی ہیں جو اِن تنظیموں اور انجمنوں
سے ملحق یا وابستہ ہیں۔اور موجودہ ٹرینڈ یہ بھی ہے کہ ان لاکھوں یا کروڑوں افراد پر
مشتمل سرگرمیوں کا فروغ دینے والوں نے وقت کے اہم ترین اور طاقت ورآلہ کار"میڈیا"کا
مختلف محاذ پر استعمال کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے اور اس میں کامیاب ہیں۔وہیں آر ایس
ایس کے نتظیمی اسٹرکچر کی بات کی جائے تو سب سے اوپر طاقت و قوت اور فیصلہ سازی کے
اعتبار سے سروسنگھ چالک(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">supreme director</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)آتا ہے جو اکھل بھارتیہ
پرتی ندھی سبھا(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">an all-india assembly</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>) کوچلاتا ہے۔اس کے بعد
ملک کو جغرافیائی حیثیت سے تقسیم کیاگیاہے۔جس میں:شیتراز(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">zones</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،پرانتاز(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">states</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،وبھاگاز(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">divisions</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،ضلع آز(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">districts</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)،نگرآز(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">cities</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)اورمنڈلس(</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">blocks</span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>)آتے ہیں۔اسی طرح تربیتی
نظام کے لیے:سب سے اوپرسنگھ شاکھا،کاریہہ واہا،مکھیہ سکھشاز آتے ہیں،جس میں :سیواپرمکھ،شریرک
پرمکھ،بدھک پرمکھ،سمپرک پرمکھ اور ندھی پرمکھ ہیں۔نیز فکری اور عملی تربیت کے میدان
میں افراد کو عمر کے لحاظ سے6حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔جسے گنہ شکھشک کہتے ہیں،یہ
اس طرح ہیں:ششو پرمکھ(7سال سے کم عمر کے بچے)،با ل پرمکھ(7-11سال)، کشور پرمکھ(12-16سال)،ترن
پرمکھ(17-25سال)،یوواارون پرمکھ(26-39سال) اورپرودھاپرمکھ(40سال سے زائدعمر کے افراد)۔آر
ایس ایس کے جس تنظیمی اسٹرکچر کو یہاں پیش کیا گیا ہے وہ </span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">RSS's
Tryst with Politics, from Hedgewar to Sudarshan</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">نامی
کتاب میں صفحہ نمبر 68-69پر دج ہے ،جسے </span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">Pralay Kaunungo</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">نے
قلم بند کیا ہے۔ہندوستان کی برسراقتدار حکومت اور اس کا منظم ترین کیڈر ،جسے درج بالا
سطور میں مختصر طور پربیان کیا ہے،کی روشنی میں باخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ موجودہ برسراقتدار
گروہ کی حصول یابیاں صرف سرکاری عہدے داران ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ تمام غیر
سرکاری انجمیں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہیں ،جن کا تذکرہ اوپر آیاہے۔لیکن چونکہ
کسی کے کام کو ضرورت سے زیادہ پیش کرنا یہاں مقصد نہیں اور نہ ہی گروہ کے مخالفین کو
کسی قسم کی احساس کمتری میں مبتلا کرنا ہے۔لہذا تعارف کا کل ایک مقصد ہے اور وہ یہ
کہ مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح اور کن کن ذرائع و سائل سے لیس ،منظم و منصوبہ بند
طریقہ سے ،یکسوئی اور اخلاص نیت کے ساتھ،یہ گروہ مصروف ِعمل ہے۔برخلاف اس کے ملک کے
دیگر افکار و نظریات کے علمبردارگروہ یا وہ سیاسی پارٹیاں جو اپنے وجود کو برقرار رکھنے
کی سعی و جہد میں مصروف ہیں،اندرونی طور پر حد درجہ کمزور ہیں۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> گفتگو کے
پس منظر میں لازماً یہ سوال بھی اٹھنا چاہیے کہ ایک جانب منظم ترین گروہ ہے،جس کا کیڈر
یکسوئی اور اخلاص نیت کے ساتھ نصب العین کے حصول میں سرگرم عمل ہے تو دوسری جانب اس
کے مقابل کوئی دوسرا گروہ اس قدر منظم نظر نہیں آتا ،اس کے باوجود کیا بات ہے کہ وہ
،سیاسی میدان میں ایک طویل عرصہ سے ناکام ہوتے رہے ہیں؟ اور آج جبکہ وہ ملک کے پارلیمنٹری
نظام کے ایک ہا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Times New Roman","serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">س
لوک سبھا میں اکثریت میں ہیں تو دوسرے ہا</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Times New Roman","serif"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ﺅ</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">س
راجیہ سبھا میں اقلیت میں کیوں ہیں؟مزید یہ کہ گرچہ وہ حالیہ دنوں ایک کے بعد ایک ناکامیوں
کے بعد آسام میں کامیاب ہوئے اس کے باوجود دوسالہ دواقتدار میں کسی بھی فرنٹ پر وہ
کامیاب ہوتے نظر کیوں نہیں آرہے ہیں؟وہیں ریاستی سیاسی پارٹیاں ہوں یا ملکی سطح پر
کانگریس پارٹی ،دونوں ہی اقلیت میں ہونے کے باوجود ، 2014کے بعد سے اب تک ہوئے ریاستی
اسمبلی انتخابات میں ،آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی کے مقابلہ ،کلی اعداد و شمار
کی روشنی میں ،سبقت میں ہیں ۔وہیں ایک بڑے اسٹرکچرکے ساتھ،منظم ،منصوبہ بنداور</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">human
resource</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کی فراوانی کے باوجود ،وہ ہر مرتبہ پیچھے کیوں
رہ جاتے ہیں؟اور آخری بات یہ کہ دوسالہ بی جے پی کی دوراقتدار کی ناکامیاں کیا آرایس
ایس کی ناکامیوں میں شمار ہوں گی؟جواب کی شکل میں دو باتیں عقل میں آتی ہیں۔ایک :یہ
اللہ تعالیٰ کا واضح قانون ہے کہ دنیا میں عدل و انصا ف کا خون کرنے والے کسی بھی طرح
کامیاب نہیں ہوں گے،گرچہ وقتی طور پر لوگ خوف و ہراس کے ماحول میں مبتلا ہو جائیں۔دو:
ہندومعاشرے کے خمیر میں انتشار موجود ہے،لہذا وہ انتشار کا خمیر اور مسلمانوں کی قوت
کہیں نہ کہیں یکجا ہوتی رہتی ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی حالات محسوس ہوتے ہیں۔اس کے
باوجود اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مخصوص گروہ سے وابستہ افرادہر سطح پر آگے بڑھتے جا
رہے ہیں۔برخلاف اس کے واقعہ یہ ہے کہ دیگر افکار و نظریات کے حاملین اپنی ذمہ داریاں
ادا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ان حالات میں اندیشہ یہ بھی ہے کہ ملک کے مسائل مزید
تشویشناک صورت اختیار کرلیں۔لہذا ضروری ہے کہ انسانیت سے ہمدردی و غمگساری کے جذبہ
کے ساتھ ،عدل انصاف کے علمبردار بن کرمیدان عمل میں یکسوئی اور اخلاص نیت کے ساتھ انسانوں
کی فلاح و بہبود کے کاموں میں شامل ہوا جائے اور جو لوگ متذکرہ سرگرمیوں میں پہلے سے
مصرف ہیں وہ مزید قوت و صلاحیت کے ساتھ اپنے اوقات کا استعمال کریں!</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: ZDingbats; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0";">v v v v v
v v<o:p></o:p></span></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-36681325672153948572016-06-07T11:51:00.002+05:302016-06-07T11:51:21.745+05:30رمضان المبارک کا پیغام:داعی حق بن جائیے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #4f6228; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;">رمضان المبارک کا پیغام:داعی
حق بن جائیے!</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #4f6228; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span style="font-size: 18.6667px; line-height: 21.4667px;"> </span><span style="font-size: 18.6667px; line-height: 21.4667px;"> </span>کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور
اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے زور و شور کی جاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے
والا کون ہے اور اس کااستقبال کیسے کی جائے۔فی الوقت ہمارے پیش نظر رمضان المبارک ہے
،جس کی رحمتیں وبرکتیںامت مسلمہ نیز ان تمام لوگوں پر سایہ فگن ہونے والی ہیںخیر و
اصلاح کا مہینہ سمجھتے ہیں۔رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہے،تقویٰ، پرہیزگاری،
ہمدردی، غمگساری، محبت وخیر خواہی، جذبہ خدمت ِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبہ حمیت
اور جذبہ اتحاد،اللہ اور رسول سے بے انتہا لو‘ لگانے کا مہینہ ہے۔ لہذا اس کے شایان
شان اس کا استقبال بھی ہونا چاہیے ۔ساتھ ہی ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ تمام صفات
سے ہم مزین ہو جائیں جو اس مہینہ کی پہچان ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن
نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش
آیا، اس کے عشروں کومخصوص اہمیت دی گئی۔ساتھ ہی اس ماہ میں زکوٰة،انفاق اور فطرے کا
اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان کی عبادات کو خصوصی درجہ حاصل ہوا۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> رمضان المبارک
کے یہ تین واقعات:رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یکسر
تبدیل کر دی ہے۔اس کے باوجود یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے
والے واقعات کے پس منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر
وضع کرنے کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارہ نور ہیں
جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت امت ِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت
فرد واحدکامیابی سے ہمکنار ہوں۔وقتی و ابدی کامیابی کے حصول کے لیے یہ واقعات ہماری
بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیات ِ انسانی
کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوںسے نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ
داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے
شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں
کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی
و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جس کے نتیجہ میں اس کا حق ادا کیا جا سکے۔دوسرا
واقعہ جنگ بدر ہے:یہ واقعہ اس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق
کے علمبرداراِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں ،جو اس
نے عطا کی ہیں۔اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔جس کے ذریعہ انسان اور حیوان
میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام
دیے جانے چاہیں۔اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت،گمراہی اور باطل نظریہ ہائے
افکار سے چھٹکارا پانااور دلایا جانا چاہیے۔اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق
فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ
نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل
لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیئے جائیں جن کا آغاز ہرشخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔تیسرا
واقعہ فتح ِ مبین ہے : یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا
میں بھی سرخ رو ہوں گے اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی انہیں حاصل ہوگی۔یہ واقعہ اس بات
کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر
لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص
ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ وہ زمین ہے جہاں اللہ کے نام
لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس
سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیںاور اجتماعی شکل
میں اسلامی فکرپروان چڑھاتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان
اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی کبرائی بیان
کرنے والے بن جائیں، ان کی کمر غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑے نہیںبلکہ مزیدوہ اللہ
کے آگے جھک جانے والے بن جائیں۔فائدہ یہ ہوگا کہ ان میں انسانوں سے مزید خیر خواہی
کے جذبات ابھریں گے جس کی شدت آج چہار جانب محسوس کی جا رہی ہے۔یہ تین واقعات اس جانب
بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال ،اس سے استفادہ اور اس کے بعد کے ایام میں
،ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینے چاہیںجن کے اختیار کے نتیجہ میںاللہ
اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span style="font-size: 18.6667px; line-height: 21.4667px;"> </span><span style="font-size: 18.6667px; line-height: 21.4667px;"> </span>ماہ رمضان البارک یہ پیغام و شعور بھی ہمیں بخشتا
ہے کہ امت کی بقا و تحفظ ان غیر اسلامی و غیر اخلاقی اقدامات سے ممکن نہیں ہے جو آج
رواج پاچکے ہیں۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی بے جا آزادی
و بالا دستی،صنعت و حرفت میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالاجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ
پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی طاقت نہیں محسوس کی جا سکتی
جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔دوسری جانب مسالک کی بنیاد پر ہم دینی
مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین
کرتے ہیںاور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے
دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا
سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے کچھ دن اورمیسر آجائیں۔لیکن اس لائحہ عمل
کے ساتھ یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آئے گا یا اللہ کا کلمہ
عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے گا۔تیسری جانب یہ خیال کہ موجودہ نظام توان ہی
غیر اسلامی بنیادوںپر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشیت،نظم و نسق یا سیاست کی خرابیاں
خود بہ خود ٹھیک ہو جائیں گی یا ان کی اصلاح ہو جائے گی! تو یہ خیال بھی غیر عملی کہلائے
گا۔واقعہ یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہے اور
ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ان حالات میں جامع فساد کو رفع
کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ
اصلاح کا عمل جاری رکھے۔وہ کامل پروگرام کیا ہے؟اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ
آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بتا تے چلیںکہ اسلام اور جاہلیت کا ملا
جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا
رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی ہمارا شمار نامراد
وناکام لوگوں میں ہوگا!</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span style="font-size: 18.6667px; line-height: 21.4667px;"> </span><span style="font-size: 18.6667px; line-height: 21.4667px;"> </span>انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس
کو غلامی سے نکالا جائے۔ کیونکہ انسان جسمانی و عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا
ہے ۔ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہرسطح پر غلامی
سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے
ہیں،یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔لیکن یہ عمل انہی
افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔جس شخص میں یہ
جذبہ ہی نہ ہو وہ آزادی کیسے اور کیونکر حاصل کر سکتا ہے؟ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی
آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الالخیرکی
ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے کہ ہم داعی حق بن جائیں۔لیکن
داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے،نہیں یہ عمل اسلام اور
مسلمانوں دونوں کی شبیہ خراب کرتا ہے۔داعی حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں
دوسری یہ کہ کار ِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطہ نظر پر قائل یا
لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا
ہے ،اسے احسن طریقہ سے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں
کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی اپنے مخاطب کوراست یا بلاواسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے
جس کے نتیجہ میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے
راستے کی راہنمائی نہیں کر تے۔لہذارمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے
کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد کیا تھا۔آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی آمد کا اصل اور بنیادی مقصد یہی تھا کہ دین پر نہ صرف مکمل عمل کرکے
لوگوں کو بتا دیا جائے بلکہ یہ بھی کہ دین کو بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا جائے۔ہمیں
بھی اس رمضاالمبارک سے یہی پیغام لینا چاہیے۔اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="LTR"></span> </span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>!</span><span dir="LTR" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR" style="font-family: ZDingbats; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0";">v v v v v
v v<o:p></o:p></span></div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-46088820892272691372016-06-07T11:49:00.002+05:302016-06-07T11:49:26.324+05:30بی جے پی کی ناکامی کیا آر ایس ایس کی ناکامیہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;">بی جے پی کی ناکامی کیا آر ایس ایس کی ناکامی</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہے</span></b><span dir="RTL"></span><b><span lang="AR-SA" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>!</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #c00000; font-family: "Alvi Nastaleeq v1\.0\.0"; font-size: 32.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<span lang="AR-SA"><div style="text-align: justify;">
<span style="text-align: right;">ہندوستان نہ صرف جغرافیائی حیثیت سے ایک بڑا ملک ہے بلکہ مسائل اور ایشوز کے اعتبار سے بھی دنیا کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں بے شمار مذاہب اور کلچرپائے جاتے ہیں۔وہیں واقعہ یہ بھی ہے کہ ملک کی اکثریت جس مذہب کو مانتی ہے اور جس حیثیت سے اپنا تعارف پیش کرتی ہے یعنی بحیثیت"ہندو"یہ خود مختلف افکار کا منبع ہے۔اور چونکہ ہندومذہب کوئی واضح شکل نہیں رکھتا،سوائے اس کے کہ وہ مورتی پوجا کے علمبردار ہیں،لہذا ملک کے بے شمار قبائل،جنہیں کہیںذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو کہیں مذہبی پیشواﺅں اور معبودوں کے اعتبار سے،ایک حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔یعنی وہ لوگ جو مورتی پوجا میں عقیدت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اندرونی طور پر تقسیم ہیں،بٹے ہوئے ہیں،منتشر ہیں اورایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔پھر یہی انتشار ان کے معاشرتی وسیاسی مسائل میں جھلکتا ہے۔جس کے نتیجہ میں ملک میں بے شمار سیاسی پارٹیاں وجود میں آئی ہیں۔لیکن ایک سیاسی و معاشرتی اور کسی حد تک مذہبی گروہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جوتمام ہندوﺅں کے متحد ہونے کا خواہش مند ہے ۔اس کا نام راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس۔5افراد پر مشتمل ،آرایس ایس کا قیام 1925میں ہواتھا ۔لیکن آج یہ گروہ ملک کا کیڈر بیس سب سے بڑامنظم ترین گروہ ہے،جس کے بانی کیشو بلی رام ہیگواڑ ہیں۔آرایس ایس ایک فکری و نظریاتی گروہ ہے۔جس کے قیام کا مقصد ہی ہندوستان کو ایک بار پھر"ہندوراشٹر"میں تبدیل کرنے کا خواب ہے۔فی الوقت جوسیاسی پارٹی ہندوستان میں برسراقتدار ہے یعنی بی جے پی،وہ آرایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔وزیر اعظم سے لے کر مرکزی وزراءکی ایک بڑی تعداد آرایس ایس کا کیڈر ہے،جس نے مقاصد کے حصول کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیںاور عزائم سے محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ بھی دیں گے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div>
<span lang="AR-SA"><br /><div style="text-align: right;">
جیسا کے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ آر ایس ایس ایک منظم ترین گروہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے معاشرہ کے مختلف طبقات کے لیے ،ضرورت کے اعتبار سے الگ الگ جماعتیں،پارٹیاں،تنظیمیں،سوسائٹیاںاور انجمنیں تشکیل دی ہیں۔چند نام یہاں پیش کیے جا رہے ہیں جس سے واضح ہوگا کہ مقاصد کے حصول کے لیے کس قدر یکسوئی اور آرگنائز طریقہ سے 1925سے لے کر آج تک یہ گروہ سرگرم عمل ہے۔اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا(ABPS)،اکھل بھارتیہ ون واسی کلیان آشرم(ABVKA)،اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد(ABVP)،بجرنگ دل(BD)،بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP)،بھارتیہ جنا سنگھ(BJS)،بھارتیہ کسان سنگھ(BKS)،بھارتیہ مزدور سنگھ(BMS)،چھاتر سنگھرش سمیتی(CSS)،کیندریہ کاریکاری منڈل(KKM)،سیودیش جاگرن منچ(SJM)،ویشو ہندو پریشد(VHP)،اکھاڑہ بھگاباتا ٹونگی(ABT)،چھاترا دلت(CD)،درشن دھنگدا دھنگدی(DDD)اور اس کے علاوہ دیگر وہ بے شمار تنظیمیں اور انجمنیں جوتعلیم اور صحت عامہ کے میدان میں مختلف ناموں سے مصروف عمل ہیں تو وہیں بے شمار این جی اوز ایسی بھی ہیں جو اِن تنظیموں اور انجمنوں سے ملحق یا وابستہ ہیں۔اور موجودہ ٹرینڈ یہ بھی ہے کہ ان لاکھوں یا کروڑوں افراد پر مشتمل سرگرمیوں کا فروغ دینے والوں نے وقت کے اہم ترین اور طاقت ورآلہ کار"میڈیا"کا مختلف محاذ پر استعمال کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے اور اس میں کامیاب ہیں۔وہیں آر ایس ایس کے نتظیمی اسٹرکچر کی بات کی جائے تو سب سے اوپر طاقت و قوت اور فیصلہ سازی کے اعتبار سے سروسنگھ چالک(supreme director)آتا ہے جو اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا(an all-india assembly) کوچلاتا ہے۔اس کے بعد ملک کو جغرافیائی حیثیت سے تقسیم کیاگیاہے۔جس میں:شیتراز(zones)،پرانتاز(states)،وبھاگاز(divisions)،ضلع آز(districts)،نگرآز(cities)اورمنڈلس(blocks)آتے ہیں۔اسی طرح تربیتی نظام کے لیے:سب سے اوپرسنگھ شاکھا،کاریہہ واہا،مکھیہ سکھشاز آتے ہیں،جس میں :سیواپرمکھ،شریرک پرمکھ،بدھک پرمکھ،سمپرک پرمکھ اور ندھی پرمکھ ہیں۔نیز فکری اور عملی تربیت کے میدان میں افراد کو عمر کے لحاظ سے6حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔جسے گنہ شکھشک کہتے ہیں،یہ اس طرح ہیں:ششو پرمکھ(7سال سے کم عمر کے بچے)،با ل پرمکھ(7-11سال)، کشور پرمکھ(12-16سال)،ترن پرمکھ(17-25سال)،یوواارون پرمکھ(26-39سال) اورپرودھاپرمکھ(40سال سے زائدعمر کے افراد)۔آر ایس ایس کے جس تنظیمی اسٹرکچر کو یہاں پیش کیا گیا ہے وہ RSS's Tryst with Politics, from Hedgewar to Sudarshanنامی کتاب میں صفحہ نمبر 68-69پر دج ہے ،جسے Pralay Kaunungoنے قلم بند کیا ہے۔ہندوستان کی برسراقتدار حکومت اور اس کا منظم ترین کیڈر ،جسے درج بالا سطور میں مختصر طور پربیان کیا ہے،کی روشنی میں باخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ موجودہ برسراقتدار گروہ کی حصول یابیاں صرف سرکاری عہدے داران ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ تمام غیر سرکاری انجمیں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہیں ،جن کا تذکرہ اوپر آیاہے۔لیکن چونکہ کسی کے کام کو ضرورت سے زیادہ پیش کرنا یہاں مقصد نہیں اور نہ ہی گروہ کے مخالفین کو کسی قسم کی احساس کمتری میں مبتلا کرنا ہے۔لہذا تعارف کا کل ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح اور کن کن ذرائع و سائل سے لیس ،منظم و منصوبہ بند طریقہ سے ،یکسوئی اور اخلاص نیت کے ساتھ،یہ گروہ مصروف ِعمل ہے۔برخلاف اس کے ملک کے دیگر افکار و نظریات کے علمبردارگروہ یا وہ سیاسی پارٹیاں جو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی و جہد میں مصروف ہیں،اندرونی طور پر حد درجہ کمزور ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</span></div>
</span><br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;">
<span dir="LTR"></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="text-align: left;">گفتگو کے پس منظر میں لازماً یہ سوال بھی اٹھنا چاہیے کہ ایک جانب منظم ترین گروہ ہے،جس کا کیڈر یکسوئی اور اخلاص نیت کے ساتھ نصب العین کے حصول میں سرگرم عمل ہے تو دوسری جانب اس کے مقابل کوئی دوسرا گروہ اس قدر منظم نظر نہیں آتا ،اس کے باوجود کیا بات ہے کہ وہ ،سیاسی میدان میں ایک طویل عرصہ سے ناکام ہوتے رہے ہیں؟ اور آج جبکہ وہ ملک کے پارلیمنٹری نظام کے ایک ہاﺅس لوک سبھا میں اکثریت میں ہیں تو دوسرے ہاﺅس راجیہ سبھا میں اقلیت میں کیوں ہیں؟مزید یہ کہ گرچہ وہ حالیہ دنوں ایک کے بعد ایک ناکامیوں کے بعد آسام میں کامیاب ہوئے اس کے باوجود دوسالہ دواقتدار میں کسی بھی فرنٹ پر وہ کامیاب ہوتے نظر کیوں نہیں آرہے ہیں؟وہیں ریاستی سیاسی پارٹیاں ہوں یا ملکی سطح پر کانگریس پارٹی ،دونوں ہی اقلیت میں ہونے کے باوجود ، 2014کے بعد سے اب تک ہوئے ریاستی اسمبلی انتخابات میں ،آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی کے مقابلہ ،کلی اعداد و شمار کی روشنی میں ،سبقت میں ہیں ۔وہیں ایک بڑے اسٹرکچرکے ساتھ،منظم ،منصوبہ بنداورhuman resourceکی فراوانی کے باوجود ،وہ ہر مرتبہ پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں؟اور آخری بات یہ کہ دوسالہ بی جے پی کی دوراقتدار کی ناکامیاں کیا آرایس ایس کی ناکامیوں میں شمار ہوں گی؟جواب کی شکل میں دو باتیں عقل میں آتی ہیں۔ایک :یہ اللہ تعالیٰ کا واضح قانون ہے کہ دنیا میں عدل و انصا ف کا خون کرنے والے کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہوں گے،گرچہ وقتی طور پر لوگ خوف و ہراس کے ماحول میں مبتلا ہو جائیں۔دو: ہندومعاشرے کے خمیر میں انتشار موجود ہے،لہذا وہ انتشار کا خمیر اور مسلمانوں کی قوت کہیں نہ کہیں یکجا ہوتی رہتی ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی حالات محسوس ہوتے ہیں۔اس کے باوجود اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مخصوص گروہ سے وابستہ افرادہر سطح پر آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔برخلاف اس کے واقعہ یہ ہے کہ دیگر افکار و نظریات کے حاملین اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ان حالات میں اندیشہ یہ بھی ہے کہ ملک کے مسائل مزید تشویشناک صورت اختیار کرلیں۔لہذا ضروری ہے کہ انسانیت سے ہمدردی و غمگساری کے جذبہ کے ساتھ ،عدل انصاف کے علمبردار بن کرمیدان عمل میں یکسوئی اور اخلاص نیت کے ساتھ انسانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں شامل ہوا جائے اور جو لوگ متذکرہ سرگرمیوں میں پہلے سے مصرف ہیں وہ مزید قوت و صلاحیت کے ساتھ اپنے اوقات کا استعمال کریں!</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: ZDingbats;"><span style="font-size: 14pt; line-height: 115%;">v v v v v v v<o:p></o:p></span></span></div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6520067323188947687.post-74384669063901173472016-05-25T16:28:00.000+05:302016-05-25T17:16:29.630+05:30ریاست آسام ،مسلمان اور بی جے پی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 35.0pt; line-height: 115%;">ریاست آسام ،مسلمان اور
بی جے پی ؟</span></b><b><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; font-size: 35.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></b></div>
<div align="center" class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "alvi nastaleeq v1.0.0"; line-height: 115%;"><span style="font-size: xx-small;"><br /></span></span></b></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://3.bp.blogspot.com/-JAIxqkmdexY/V0WEcWSzgUI/AAAAAAAABhk/GcKckBptKiQLOHSn-ufJR11wLTBRZs3DwCLcB/s1600/page05b%2B-%2BCopy.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="162" src="https://3.bp.blogspot.com/-JAIxqkmdexY/V0WEcWSzgUI/AAAAAAAABhk/GcKckBptKiQLOHSn-ufJR11wLTBRZs3DwCLcB/s640/page05b%2B-%2BCopy.jpg" width="640" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl">
<div style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">19 مئی 2016کے دن ان تمام پانچ ریاستوں کے الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوا جس کا اعلان الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 18مارچ2016کو کیا تھا۔الیکشن کے نتائج کیسے رہے اور کون کامیاب ہوا تو کون ناکام ،اس کا فیصلہ ہر شخص وگروہ اپنی وابستگی کے حساب سے کرے گا۔جو لوگ سیاسی پارٹیوں سے راست وابستہ تھے وہ الیکشن کے نتائج کو اپنی پارٹی کی ہار یا جیت کے اعتبار سے دیکھیں گے تو وہیں وہ لوگ سیاست دانوں سے وابستہ تھے ان کے جائزہ کا معیار الگ ہوگا۔اس کے برخلاف چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کی کوششیں اور ان کے ساتھ مصروف عملہ کے جائزہ کا معیار مختلف ہوگا۔لیکن ان تمام پارٹیوں اور اداروں سے وابستہ افراد کے علاوہ الیکشن کے نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ متعلقہ شہری ہیں،جنہوں نے اس پورے عمل میں شامل ہوکر"اپنی پسند"کی حکومت تشکیل دی ہے۔یعنی اس اہم ترین موقع پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے خلاف یا ان کے حق میں اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کیا ہے۔فی الوقت جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہوئے ان تمام کا جائزہ لینے کی بجائے ہم نے کوشش کی ہے کہ ریاست آسام کا تجزیہ پیش کریں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ آسام کی معاشی ،معاشرتی اور تمدنی صورتحال پر نظر ڈالی جائے ۔</span></div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">32ڈسٹرکٹس پر مشتمل ریاست آسام ایک پہاری سلسلہ ہے،جہاں ندیاں نالے جھرنے اور پہاڑ چہار جانب پھیلے ہیں۔31,205,576آبادی ہے ،جس میں 73.18%فیصد خواندہ لوگ رہتے ہیں۔آسامی،بنگالی،بوڈو اور انگلش زبانیں وہاں عام طور پر بولی جاتی ہیں۔تقریباً ہر سال برہم پترا ندی اور دیگر ندیوں کے ذریعہ سیلاب آتا ہے،جس سے وہاں کے لوگ معاشی اعتبار سے عموماً پریشان رہتے ہیں ۔ریاست میں2011کے اعداد و شمار کی روشنی میں 61.46%ہندو ،34.22%مسلمان،3.73%عیسائی،0.17%بدھ ، 0.08%جین،0.06%سکھ اور 0.03ایسے لوگ ہیں جن کے مذہب کی کوئی شناخت نہیں یا ملحد ہیں۔وہیں ریاست آسام کی یہ بھی خوبی ہے کہ یہاں 115نسلی گروہ پائے جاتے ہیں۔دوسری جانب ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں مسلمان تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ موجود ہیں۔</span></div>
</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">آسام میں مسلمانوں کے مسائل کی بات کی جائے تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں کے مسلمان مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔سب سے پہلا اور اہم ترین مسئلہ جو مسلسل اٹھتا رہا ہے وہ بنگالی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ مسلمان عموماً مغربی بنگال سے تعلق رکھتے ہیں تو وہیں ریاست آسام سے بھی ۔لیکن چونکہ آسام کی سرحد بنگلہ دیش سے بھی لگتی ہے لہذا یہ بات بھی عام ہے کہ بنگلہ دیش کے مسلمان یہاں غیر قانونی طریقہ سے رہتے بستے ہیں،جن کی تعداد کافی ہے۔یہ بات کس قدر صحیح ہے اور کتنی غلط اس کا انداز ہ تو ووٹر لسٹ سے لگایا جاسکتا ہے،لیکن عام طور پر ووٹر لسٹیں خود ہی غلط ہوتی ہیں،بہت سارے شہریوں کے نام ووٹر لسٹ میں آنے سے رہ جاتے ہیں تو بہت سے وہ نام داخل ہو جاتے ہیں جو درحقیقت اُس ریاست سے تعلق ہی نہیں رکھتے۔اس لیے عموماً مسلمانوں کا یہی ماننا رہا ہے کہ جس طرح مسئلہ کو بیان کیا جاتا رہا ہے، حقیقت اس کے برخلاف ہے اور چونکہ سیاست میں مسئلے ہی انتخابی ایشو بنتے ہیں ،جن کی بنیادی پر کامیابی یا ناکامی ہاتھ آتی ہے، لہذا ہندﺅں،مسلمانوں اور بڑی تعداد میں پائے جانے والے نسلی گروہ کے درمیان دوریاں پیدا کرنے،ڈرار ڈالنے اور نفرتوں کے فروغ میں یہ ایشو کافی کارگراورمعاون ہے،اسی لیے اس ایشو پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال 2012میں کوکراجھار ڈسٹرکٹس میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا تھا،اس کی بڑی وجہ بھی یہی بتائی گئی تھی ۔جس کے نتیجہ میں آدی واسیوں یا نسلی گرہوں نے مسلمانوں پر حملے بولے اور کافی نقصان پہنچایا تھا۔80بنگالی مسلمانوں نے جان سے ہاتھ دھویا تو وہیں کچھ بوڈو بھی ہلاک ہوئے تھے۔اور یہ وہی موقع تھا جبکہ ریاست کے 4لاکھ مسلمانوں نے فسادات اور قتل عام سے جان بچانے کے لیے حکومت کی جانب سے قائم کردہ کیمپوں میں پناہ لی تھی نیز500مسلم گاﺅں ان حملوں سے متاثر ہوئے تھے۔وہیں دوسری جانب آغاز ہی سے ریاست میں ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود مسلمان کی معاشی صورتحال اچھی نہیں ہے۔مسلمانوں کی اکثرتی کھیتوں میں بحیثیت مزدور کام کرتی ہے۔ایک تیسرا رخ یہ ہے کہ طویل عرصہ سے ریاست میں بوڈولینڈ کے نام سے ایک الگ بوڈوریاست قائم کرنے کی مانگ کرنے والے بوڈولینڈپیوپلس فرٹ(BPF)سرگرم عمل ہے،جو سابقہ کانگریس حکومت کے ساتھ تھے،لیکن اس مرتبہ 2016میں انہوں نے بی جے پی کا ساتھ دیا ہے۔بوڈولینڈ کی یہ مانگ ریاست آسام کے 4ڈسٹرکٹس پر منحصر ہے،جس میں کوکراجھار،چرانگ،بکسا،اور اُدل گری آتے ہیں۔2011کے اعداد و شمار کی روشنی میں ان 4ڈسٹرکٹس کی کل آبادی 3,51,047ہے۔جس میں71.24%ہندو، 19.12%مسلمان اور 9.14% عیسائی ہیں۔لیکن چونکہ بوڈولینڈ کی مانگ کرنے والے نوجوانوں میں یہ فضا عام ہو گئی ہے کہ ہمیں صرف اپنے مسئلہ کے حل کے لیے جدوجہد کرنی ہے،چاہے اس کے لیے دوسروں کے ساتھ کچھ بھی سلوک کیوں نہ کرنا پڑے،لہذا قانونی و غیر قانونی جدوجہد میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی سامنے آئی ہے جو غیر قانونی طریقہ سے ہتھیاربند ہے ۔نتیجہ میں جہاں دیگر مسائل سے ریاست نبرد آزماہے وہیں یہ ہتھیار بند افراد وقتاً فوقتاً مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ اس کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ بوڈولینڈ کی مانگ کرنے والے افراد کا نشانہ عموماً ریاست کے مسلمان ہی ہوا کرتے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">آزادی سے لے کر آج تک ریاستی حکومت پر اگر نظر ڈالی جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ1947سے 2011تک ریاست میں کل 16مرتبہ حکومت تشکیل پائی ہے،جس میں 13مرتبہ کانگریس برسراقتدار رہی ہے۔یہ وہی کانگریس ہے جس کے تعلق سے ایک زمانے تک مسلمان فخر سے کہتے رہے کہ ہم "کانگریسی مسلمان "ہیں۔جہاں اس کا خمیازہ انہوں نے بے شمار مقامات پر اٹھایا ہے وہیں اس کی زندہ مثال آسام بھی ہے۔شروع ہی سے ریاست میں مسلمانوں کے تعاون سے حکومتیں بنتی اور گرتی رہیں،اس کے باوجود مسلمانوں کو نہ معاشی میدان میں،نہ تعلیمی میدان میں اور نہ ہی سیاسی محاذ پر کسی قسم کا فائدہ حاصل ہواہے۔ غالباً صورتحال ہی کے پیش نظر گزشتہ 2011میں ایک مسلم سیکولر سیاسی پارٹی AIUDFنے پہلی مرتبہ قسمت آزمائی کی اور 12.6%ووٹ شیئر کے ساتھ 18اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔اور اس مرتبہ بھی 2016میں توقع کی جارہی تھی کہ AIUDFکے ووٹ شیئر اور سیٹوں دونوں میں اضافہ ہوگا،اورممکن ہے یہی پارٹی کنگ میکر کا کردار ادا کرے گی۔لیکن نتائج نے ثابت کردیا کہ AIUDFاور کانگریس نے جو حکمت عملی اختیار کی، وہ مناسب نہیں تھی،اس کے باوجود AIUDFکا ووٹ شیئر میں اضافہ ہواہے۔گزشتہ2011میں AIUDFکاووٹ شیئر12.6%تھالیکن 2016میں بڑھ کر 18%فیصد ضرور ہوالیکن سیٹوں کے اعتبار سے 18سے کم ہو کر 13پر پہنچ گئی۔</span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br />
<br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="font-size: large;">آسام کے الیکشن نے کم از کم کانگریس کو یہ بات بھی واضح کردی ہوگی کہ اگر مسلمانوں اور دلتوں کے مسائل کو وہ اسی طرح نظر انداز کرتی ،اور علاقائی مسلم سیکولر یادلت سیکولر پارٹیوں سے اتحاد نہیں کیا،توبہت جلد آرایس ایس یا بی جے پی کے "کانگریس مکت بھارت"کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔کیونکہ آسام کے حالیہ الیکشن میں کانگریس اور AIUDFکا ووٹ شیئر31+18رہا ہے جو کل 49%فیصد بنتا ہے برخلاف اس کے بی جے پی کا کل29.5%ووٹ شیئر رہا ہے ۔لیکن اگر کانگریس اور AIUDFکے ووٹ شیئر کو ملایا جائے تو یہ بی جے پی سے 19.5%زیادہ ہے،اس کے باوجود کانگریس نے بہت بڑی ہار کا سامنا کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی آج تک مسلمانوں کے تعلق سے بہتر سیاسی پارٹیاں ثابت نہیں ہوسکی ہیں اورنہ ہی آئندہ ہونے کی کوئی توقع ہے،کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے مسائل کا کوئی سنجیدہ حل نہ پیش کیا ہے اور نہ پیش کریں گے۔اس کے باوجود کانگریس مکت بھارت کے نتیجہ میں جہاں راست فائدہ آرایس ایس کو وہنے والا ہے وہیں راست نقصان بھی کانگریس ہی کوہوگا!</span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="font-family: "zdingbats"; font-size: 14pt; line-height: 115%; text-align: center;"><br /></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: x-large;">*******</span></div>
</div>
</div>
<div class="blogger-post-footer">آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔</div>https://maiqbaldelhi.blogspot.com/http://www.blogger.com/profile/02673021950959834187noreply@blogger.com0