بدھ، 6 مارچ، 2024

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟

مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے!!! 


محمد آصف اقبال، نئی دہلی

بھارت میں اس وقت چہار جانب لوک سبھا الیکشن 2024 کے چرچے ہیں۔ تمام ہی سیاسی پارٹیاں کوشاں ہیں کہ ان کی پارٹی کو لوک سبھا الیکشن میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہو تاکہ وہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں اور انہیں وہ سب کچھ حاصل ہو جو عموماً الیکشن کے بعد سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو حاصل ہوتا ہے۔ اپریل 2023 میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن کے تعلق سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے نوٹیفکیشن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں فی الوقت 8 نیشنل اور 55 اسٹیٹ سیاسی پارٹیاں ہیں جبکہ 2597 غیر تسلیم شدہ سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میں حصہ لینے اور انتخابی نشان کو حاصل کرنے کی درخواست دی ہوئی ہے۔ ان غیر تسلیم شدہ پارٹیوں میں ایک جانب 1915 میں قائم ہونے والی اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا ہے تو وہیں ریاست تمل ناڈو میں جوزف وجے چندر شیکھر کی 2024 میں قائم ہونے والی Tamilaga Vettri Kazhagam پارٹی بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی میدان سیاست میں قسمت آزمائے گی اور مقامی و ضلعی سطح پر کچھ نہ کچھ ووٹوں کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے گی جن کے نام الیکشن میں حصہ لینے اور پرچہ بھرنے سے چند دن پہلے سامنے آئیں گے۔


ووٹر آئی ڈی ڈاٹا بیس کی روشنی میں یکم جنوری 2024 تک بھارت میں 94,50,25,694 ووٹرس نے ووٹ دینے کا حق حاصل کرلیا ہے۔ یہ اطلاع راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون کرن رجیجو نے تحریری شکل میں دیا ہے۔ لیکن اگر آزاد بھارت میں 1951 میں رائے دہندگان کی تعداد دیکھی جائے تو یہ تعداد 17.32 کروڑ تھی جو 1957 میں بڑھ کر 19.37 کروڑ ہوئی۔ پھر 2019 کے انتخابات کے وقت یہ تعداد 91.20 کروڑ ہوئی جو کہ 2024 میں 94.50 کروڑ ہوگئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور ووٹرس کی تعداد دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دنیا میں ایک اہم ترین ملک ہے جہاں سیاسی پارٹیوں اور ووٹرس کی تعداد کے لحاظ سے اس کے مد مقابل کم ہی ممالک ہیں۔ اعداد و شمار کا یہ کھیل اس بات کا بھی احساس دلانے میں کامیاب رہتا ہے کہ بھارت وہ واحد ملک ہے جس میں ہر کسی کو اپنی سیاسی پارٹی بنانے اور رائے دہی کا آزادانہ حق حاصل ہے۔ یعنی یہاں سیاسی پارٹی بنانا بھی آسان ہے اور دوسری جانب ووٹ بھی خاصی تعداد میں کاسٹ ہوتے ہیں۔ غالباً اسی لیے بھارت خصوصاً آج کل اور عموماً پہلے ہی ’مدر آف ڈیموکریسی‘ کہا جانے لگا ہے۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ ‘مدر آف ڈیموکریسی’ کیا ہے؟ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی چند ماہ پہلے بھارت میں G20 سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس موقع پر حکومت ہند کی وزارت ثقافت نے10-8 ستمبر 2023 کے دوران ’بھارت: دی مدر آف ڈیموکریسی‘ سے متعلق ایک نمائش تیار کی تھی۔ اس نمائش میں ہمارے ملک کی جمہوری روایات کے تیار کردہ تجربے کو ظاہر کیا گیا۔جس ہال میں نمائش لگائی تھی اس کے سنٹر میں سندھو :سروسوتی تہذیب کی ایک لڑکی کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ یہ وہ لڑکی ہے جو پراعتماد ہے اور دنیا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ رہی ہے اور آزادی کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ وہ اپنے جسم پر سجاوٹ کی طرح زیورات پہنتی ہے جیسا کہ مغربی بھارت میں خواتین ہر روز پہنتی ہیں۔ اس مجسمہ کی اونچائی 10.5 سینٹی میٹر اور 120 کلو وزن کے ساتھ کانسے میں بنائی گئی تھی۔ ساتھ ہی بھارت میں جمہوریت کی تاریخ کو 26 انٹرایکٹو پینلز کے ذریعے ظاہر کیا گیا تھا جہاں دیکھنے والے 16 مختلف زبانوں میں متن کو پڑھ سکتے تھے اور آڈیو سن سکتے تھے۔ پینل میں لوکل سیلف گورننس، جدید بھارت میں انتخابات، کرشنا دیوارایا، جین دھرم اور دیگر شامل تھے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ بھارت میں جمہوریت کا ایک قدیم تصور ہے۔ بھارتی اخلاقیات کے مطابق جمہوریت معاشرے میں آزادی، قبولیت، مساوات اور شمولیت کی اقدار پر مشتمل ہے اور اس کے عام شہریوں کو معیاری اور باوقار زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے۔ رگ وید اور اتھرو وید، قدیم ترین دستیاب بھارت کے مذہبی متن میں سبھا، سمیتی اور سنسد جیسے شراکتی اداروں کا حوالہ دیتے ہیں۔ رامائن اور مہا بھارت، اس سر زمین کے عظیم شاہکار ہیں اور یہ بھی فیصلہ سازی میں لوگوں کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ نیز حکومت کرنے کا اختیار میرٹ یا مشترکہ اتفاق رائے سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ موروثی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پریشد اور سمیتی جیسے مختلف جمہوری اداروں میں ووٹر کی قانونی حیثیت پر مسلسل بحث ہوتی رہی ہے۔ بھارتی جمہوریت واقعی سچائی، تعاون، اشتراک، امن، ہمدردی اور عوام کی اجتماعی طاقت کا ایک پرمسرت اور شاندار اعلانیہ ہے۔ اس موقع پر تعلیم اور ہنرمندی کی ترقی کے مرکزی وزیر جناب دھرمیندر پردھان نے تاریخی تحقیق سے متعلق بھارتی کونسل (آئی سی ایچ آر) کے ذریعہ تیار اور شائع کی گئی کتاب ‘انڈیا: دی مدر آف ڈیموکریسی’ کا اجرا کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کتاب بھارتی جمہوری میراث پر ایک صحت مند مباحثے کی حوصلہ افزائی کرے گی اور یہ آئندہ آنے والی نسلوں کو ہماری لازوال روایات کو یاد رکھنے کی ترغیب فراہم کرے گی۔

تو یہ ہے وہ خوبصورت تصویر جو بھارت، بھارتی سیاست، بھارتی ثقافت اور بھارتی جمہوریت کی دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہے اور جسے مزید سنوارنے اور نکھارنے کی منظم و منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ 6 سالوں میں بھارت کی گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس میں 26 درجے تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس میں بھارت 27ویں سے 53ویں درجے پر پہنچ گیا، فریڈم ہاس کی مارچ میں جاری کردہ رپورٹ میں بھارت جمہوری آزاد ملک کے اسٹیٹس سے جزوی آزاد اسٹیٹس پر ایکواڈور، موزمبیق اور سربیا کے ساتھ آ کھڑا ہوا ہے۔ وہیں ہیومن فریڈم اینڈیکس کے اعداد و شمار کی روشنی میں بھارت 118ویں درجہ پر پہنچ گیا ہے۔ یہ انسانی آزادی کا اشاریہ (ہیومن فریڈم اینڈیکس) ایک ایسا پیمانہ ہے جو کسی ملک میں شخصی، شہری اور اقتصادی آزادیوں کی سطح کا تعین کرتا ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی، جائیداد کے حقوق، تقریر اور مذہب کی آزادی، اور اقتصادی مواقع تک رسائی جیسے مختلف عوامل کو مد نظر رکھتا ہے۔دوسری جانب بھارت میں ہر سیاسی پارٹی عوام کے ووٹ حاصل کرنے اور کامیابی ملنے کے بعد بھی یا تو پوری پارٹی ہی خرید لی جاتی ہے یا اس کے کامیاب عوامی نمائندے عوام کو منہ چڑاتے ہوئے اقتدار میں موجود سیاسی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی نفرت کا بازار بھی خوب ترقی کرتا نظر آرہا ہے۔عوام اور ان کے مختلف گروہ اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ مدر آف ڈیموکریسی والا ملک جمہوری اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے انہیں حقوق دلائے گا۔ لیکن انہیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ جمہوریت خود اپنے فریبی جال میں آج کل بری طرح پھنسی ہوئی ہے اور جمہوریت کے علم بردار اقتدار کے حصول کے لیے گروہ بندیوں میں کہیں ناکام تو کہیں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ماہ میں مدر آف ڈیموکریسی اور جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

نوٹ: بلاگر کی جانب سے اس مضمون کو اخبارات و میگزین نیز ڈیجٹل میڈیا میں شائع کرنے کی اجازت ہے البتہ شائع کرتے وقت مصنف کا نام (محمد آصف اقبال، نئی دہلی) مع بلاگ کا ایڈیس (maiqbaldelhi.blogspot.com) شائع کرنا ضروری ہے۔

منگل، 27 فروری، 2024

Hate Speech Events in India - Report 2023


Executive Summary

  • In 2023, India Hate Lab (IHL) documented 668 hate speech events targeting Muslims. Similarly, IHL recorded 255 of the events in the first half of 2023, while the number rose to 413 events in the second half of the year, a 62% increase.

  • 498 (75%) of the events took place in Bharatiya Janata Party (BJP)-ruled states, union territories (administered by the BJP-led central government), and the National Capital Territory (NCT) of Delhi (police and public order comes under purview of the BJP-led central government).

  • Among the top eight states with the most hate speech events, six were ruled by the BJP throughout the year. The other two states held legislative elections in 2023 and were ruled by the BJP for part of the year.

  • 239 (36%) of the events included a direct call of violence against Muslims. 77% of these dangerous speeches were delivered in states and territories ruled/governed by the BJP.

  • The Vishwa Hindu Parishad-Bajrang Dal, affiliated with the Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS), was responsible for 216 (32%) events, making it the top organizer of hate speech events. Overall, 307 (46%) of hate speech events were organized by entities that are part of the broader Sangh Parivar (RSS family).

  • Our report has found rapid growth of new Hindu nationalist groups and actors engaging in hate speech.

  • BJP leaders were involved in delivering hate speeches at 100 (15%) of the events. BJP legislator T Raja Singh spoke at 23 events, including 14 dangerous speeches with calls to violence against Muslims.

  • In BJP-ruled states, around 11% of events featured BJP leaders, whereas in non-BJP-ruled states, this figure rose to 28%.

  • Maharashtra (118), Uttar Pradesh (104), and Madhya Pradesh (65) ranked top among states for hate speech events. These three BJP-ruled states collectively accounted for 43% of the total hate speech events recorded.

  • Hate speech events peaked between August and November, coinciding with the Vishwa Hindu Parishad-Bajrang Dal Shaurya Jagran rallies and state legislative elections in Rajasthan, Madhya Pradesh, Telangana and Chhattisgarh. Approximately 318 hate speech events, or 48% of the total, took place during this period.

  • 420 (63%) of the events included references to conspiracy theories, primarily involving love jihad, land jihad, halal jihad, and population jihad.

  • 169 (25%) events featured speeches calling for targeting Muslim places of worship. Out of 193 events that took place between October 7 (the day Hamas attacked Israel and the beginning of Israel’s war on Gaza) and December 31, 2023, 41 (21%) mentioned the Israel-Gaza war to stoke hatred towards Indian Muslims.

  • Hindu religious leaders delivered hate speeches at 93 (14%) of the events.

  • Rohingya refugees were targeted in speeches at 38 (4%) of the events.

  • 176 (26%) events were held in the five states (Karnataka, Madhya Pradesh, Rajasthan, Chhattisgarh, Telangana) that conducted legislative elections in 2023.

  • 186 (28%) events took place in states that are slated for elections in 2024. The majority of these events were held in Maharashtra.

  • Hindu far-right influencer Kajal Hindustani, chief of Antarrashtriya Hindu Parishad (AHP) Pravin Togadia, and chief of Hindu Rashtra Sena, Dhananjay Desai are the top three sources of hate speech.

  • BJP legislator T Raja Singh, Pravin Togadia, and Kajal Hindustani are the top three sources of dangerous speech

source: https://indiahatelab.com/2024/02/25/hate-speech-events-in-india-2023-annual-report/

*************

آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

رمضان المبارک کا استقبال تازہ دم ہوکریکسوئی سے کریجئئے !

"مسلمانوں کے ہزارہا مسائل ماہ مقدس سے مربوط ہیں"


کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہیں ۔اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ اُمت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانے پر خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ تقویٰ و پرہیزگاری، ہمدردی و غمگساری، محبت و الفت، خیر خواہی و خدمت خلق، راہ خدا میں استقامت و جذبہ حمیت اور جذبۂ اتحاد، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنی ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتاہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شب قدر رکھی گئی، فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے تینوں عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ، انفاق اور فطرانے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ ضروری ہے کہ ہم اس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس کے کہ رمضان کی آمد آمد ہو، ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسو کر لیں۔

رمضان المبارک: تین اہم واقعات
رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنہوں نے دنیا کی صورت یک سر تبدیل کر دی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی حکمت عملی، لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجے میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم بحیثیت امت مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ لہٰذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔

نزولِ قرآن:
واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیات انسانی کو جِلا بخشی اور دنیا کو تاریکی، گمراہی اورشرک سے نجات دلائی۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ہے۔

غزوۂ بدر:
یہ واقعہ اس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علَم بردار اس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس نے عطا کی ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعے خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہئیں ۔ اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعے جہالت، گمراہی اور باطل نظریہ ہائے افکار سے چھٹکارا پایا اور دلایا جانا چاہیے۔ اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعے نظامِ باطل کو زیر کیا جاسکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیے جائیں جن کا آغاز ہرشخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اس وقت ہوگا جب اس کا تقاضا ہو۔

فتح مکہ :
تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے :یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علَم بردار دنیا میں بھی سرخ رُو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کرلیا گیا ہے وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے، لہٰذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربسجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں۔ ان کی گردن غرور و تکبر سے اکڑے نہیں بلکہ مزیدوہ اللہ کے آگے جھک جانے والی بن جائے۔ فائدہ یہ ہوگا کہ ان میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہِ قرآن کے استقبال ،اس سے استفادے اور اس کے بعد کے ایام میں ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ تبدیلیاں پیدا کر لینی چاہیے جن کے نتیجے میں اللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔

یکسو ہو جائیے
آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی، صنعت و حرفت میں پیش قدمی، سائنس و ٹکنالوجی میں دریافتیں، چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟ حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے، اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور میسر آجائیں۔ لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو انہی بنیادوں پر قائم رہے مگر اخلاق، معاشرت، معیشت، نظم و نسق اور سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام، زندگی کی بنیادی خرابیوں کا آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ کامل پروگرام کیا ہے؟ اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ اس موقع پر ہم یہ بتاتے چلیں کہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اَب تک ہمارا نظامِ حیات بنا ہوا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی۔
داعی حق بن جائیے

انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہٰذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہر سطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں، یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔لیکن یہ عمل انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔ جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الی الخیر کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔ اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم داعیِ حق بن جائیں لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پُرجوش داعی خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطہ نظر قبول کر لے لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔داعیِ حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کارِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطۂ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے اسے احسن طریقے سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ اپنے مخاطب ہی کو براہِ راست یا بلا واسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجے میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔ کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتیں۔لہٰذا رمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ نبی کریم ﷺ کی آمد کا مقصد کیا تھا۔

پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریم ﷺ کی آمد کا مقصد کیا تھا اور وہ کس طریقہ سے رمضان کا استقبال کرتے تھےتوہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اسلامی نظریہ حیات کو عام کرکے اور ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں اس ماہ مقدس کا استقبال کریں نیز رمضان کا خیرمقدم اِس عہد و پیمان کے ساتھ کریں جس کے نتیجے میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں، اور رمضان المبارک کا ایسا استقبال ہوکہ یہ امت کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریمؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسا کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینے میں کسی نے ستر فرض ادا کیے ہوں۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے‘‘۔ پس یہ وہ عبادات ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ پھر یہی استقبال ہے اور یہی استفادہ بھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مضمون پڑھا، اس کے لیے شکریہ۔ ہم آپ کے قیمتی مشورے و تبصرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

نوٹ: بلاگر کی جانب سے اس مضمون کو اخبارات و میگزین نیز ڈیجٹل میڈیا میں شائع کرنے کی اجازت ہے البتہ شائع کرتے وقت مصنف کا نام (محمد آصف اقبال، نئی دہلی) مع بلاگ کا ایڈیس (maiqbaldelhi.blogspot.com) شائع کرنا ضروری ہے۔

پیر، 18 مارچ، 2019

جھوٹ پر مبنی معاشرہ کی ہلاکت خیزیاں !

جھوٹ پر مبنی معاشرہ کی ہلاکت خیزیاں !

انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ جس چیز سے ڈرتا ہے اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے یعنی اس کی ہرصحیح و غلط بات کو بے چوں و چرا تسلیم کر لیتا ہے۔ اسی ڈر اور خوف کی حقیقت سے واقفیت رکھنے والے فی زمانہ ظالم افراد،گروہ اور نظریات کے حاملین فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔برخلاف اس کے ڈر و خوف سے نجات پاچکے افراد ظالمین کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں ۔پھر جب وہ اُنہیں لالچ میں مبتلا کرنے ،ڈر و خوف پیداکرنے اورہر طرح کا حربہ استعمال کرنے کے باوجود ناکام ہوجاتے ہیںتو وہ ان پر ظلم کرتے ہیں،کچلنے،تباہ وبرباد کرنے اور فنا کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔یہ بات تاریخ انسانی سے بھی ثابت ہے کہ ظالمین نے اختلاف رائے رکھنے والوں پر کس کس دور میں کون کون سے طریقے اختیار کیے اور کس طرح بربریت کا ننگا ناچ کھیلا،عام انسانوں پر ظلم و زیادتیاں کیں،لوگوں کی زبانوں پر قفل چڑھائے،جھوٹ کو مشتہر کیا اور حق یا سچائی پر پردے ڈالے،روشنی سے انسانوں کو محروم کیا اور اندھیرے میںجینے پر مجبور کیاہے۔اس 
سب کے باوجود سچائی زیادہ دیر چھپی نہیں رہی،حق کو دبایا نہیںجا سکا،آخر کار باطل کو شکست ہوئی اور وہ نامراد ہوا۔
سچ اور جھوٹ کے سلسلے میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم پر سچ بولنا لازم ہے، کیونکہ سچ بولنا نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ اور انسان لگاتار سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم لوگ جھوٹ بولنے سے بچو، کیونکہ جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کا راستہ دکھاتی ہے، اور انسان لگاتار جھوٹ بولتا رہتا ہے، جھوٹ بولنے کا متمنی رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے"(صحیح مسلم)۔اس حدیث میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر ہدایت کی گئی ہے کہ سچ بولیں، سچ کو فروغ دیں، سچ کی تشہیر کریں برخلاف اس کے جھوٹ سے پرہیز کریں، جھوٹ کے فروغ میں حصہ دار نہ بنیں اور جھوٹ کی تشہیر سے شعوری طور پر پرہیز کریں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ کی تشہیر سے شعوری طور پر ایک فرد کیسے پرہیز کرسکتا ہے جبکہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ فلاں بات سچی ہے یا جھوٹی؟اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرماتا ہے ،کہا کہ:"اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو"(الحجرات:۶)۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو، یعنی جس کا ظاہر حال ی بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ جھوٹ کوئی اچھے چیز نہیں ہے۔ اس کے بے شمار منفی نتائج انسان کی نفسیات،مزاج اور عمل پر مرتب ہوتے ہیں۔اس کے باوجود ہم جھوٹ سے پرہیز نہیں کرتے، ہماری یہ صورتحال حد درجہ افسوس ناک ہے۔جھوٹ بولنے سے انسان باطنی طور پر کھوکھلا ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ جھوٹ سے انسان اپنے کردار کی مضبوطی کھو دیتا ہے۔بعض لوگ مذاق میں جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذاق میں جھوٹ بولنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ احادیث مبارکہ میں مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ مزاح کی حس قابل تعریف ہے، لیکن اس میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ بعض لوگ مسکراہٹ کی آڑ میں جھوٹ بولتے ہیں کہ مسکراہٹ ان کے جھوٹ پر پردہ ڈال دے گی، لیکن اللہ تعالیٰ جو کچھ سینوں میں ہے، اس کو بھی جاننے والا ہے۔ مزاح میں جھوٹ بولنے کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : "ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے۔ ہلاکت ہے اُس کے لیے، ہلاکت ہے اُس کے لیے ©"(سنن ترمذی و ابودا ¶د)۔حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مجھے اطلاع ملی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، اس وحشت ناک خبر کو سن کر میں اپنے گھر سے چل کر مسجد میں گیا، کچھ دیر وہاں توقف کیا تو کچھ لوگ وہاں بھی یہی باتیں کر رہے تھے یہ دیکھ کرمیں نے سوچا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے، میں اجازت لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا یا رسول اللہ! کیا حضور نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،نہیں۔ میں نے تعجب سے کہا: اللہ اکبر اور پھر مسجد کے دروازے پر آکر بلند آواز سے ندا کر دی کہ یہ خبر غلط ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو طلاق نہیں دی۔اس واقعہ میں جس طریقہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا ٹھیک یہی طریقہ ہم سب کا بھی ہونا چاہیے۔اس کے برخلاف عمل کے نتیجہ میںہم خود جھوٹ کو فروغ دینے والوں میں شامل ہو جائیں گے،جوکسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔وہیں یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے،لہذا کسی بات کا قلم سے لکھنا ٹھیک وہی حکم رکھتاہے جو زبان سے کہنے کاہے۔جس بات کا زبان سے ادا کرنا ثواب ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے اور جس کا بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے۔بلکہ لکھنے کی صورت میں ثواب اورگناہ دونوں میں ایک درجہ مزید زیادتی ہو جا تی ہے، کیوں کہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے،مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے، اس لیے جب تک وہ دنیا میں موجود رہے گی اور لوگ اس کے اچھے یابرے اثر سے متاثر ہوتے رہیں گے اس وقت تک کاتب کے لیے اس کا ثواب یا عذاب جاری رہے گا۔

انسانی معاشرہ جب جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے تو اس میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔جھوٹ پر مبنی معاشرہ کے ہر فرد سب سے پہلے شجاعت و جرات ختم ہوتی ہے۔ایسے معاشرے میں مظالم بڑھتے جاتے ہیں۔اورظلم کے خلاف اہل باطل کے سامنے سچ کی گواہی دینے کی جرات اور ان سے سوال کرنے کی ہمت ختم ہو جاتی ہے۔انسانوں کے درمیان نفرتیں فروغ پاتی ہیں، اعتماد ختم ہوتا ہے،مسائل کا حل سوجھتا نہیں ہے، اور سوجھتا بھی ہے تو فکر و عمل میں اس کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے۔وہیں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس طرح مچھلی ہمیشہ سرکی جانب سے سڑتی ہے ٹھیک اسی طرح کسی قوم اور اجتماعیت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے کا آغاز اس کے سر کی جانب سے ہی ہوا کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سب سے پہلے کسی قوم کے اہلِ دانش میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں مفکرین، فلسفی، علماءکرام، شاعر، ادیب، صحافی، سیاسی و سماجی رہنما وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ منطقی بات ہے کہ ابتدا میں ابلاغ کا عمل اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے، جب ابلاغ کے عمل کا یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو ابلاغ کا یہ عمل اپنے پھیلاﺅ کے لیے دوسری سمتیں تلاش کرتا ہے۔اور دوسری سمتیں آج وہی ہیں جسے ہم سوشل میڈیا کہتے ہیں۔جس کے ذریعہ سے آج بڑے پیمانہ پر جھوٹ کی تشہیر اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ زبان و قلم اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ہم بہت محتاط رہیں۔لیکن اگر ہم نے اپنے شعور و بصیرت کا استعمال نہیں کیا تومعاشرہ حد درجہ بدصورت ہوتا جائے گا،اور اس کی بدصورتی میں ہم بھی کسی نہ کسی درجہ ذمہ دار ہوں گے!

جمعرات، 25 جنوری، 2018

نفرت کے مبلغین اپنے ہی پھیلائے جال میں پھنستے ہیں!

اس ہفتہ کی خبروں پر نظر ڈالی جائے تو دو اہم خبریں ابھر کے سامنے آتی ہیں۔ایک :وشو ہندوپریشد کے بین الاقوامی ایگیزیکٹیو چیرمین پروین توگڑیا کا اچانک غائب ہو جانا اور پھر پریس کانفرنس میں ان کا یہ کہنا کہ میرے انکاﺅنٹر کی سازش رچی گئی ہے۔تو دوسری خبر : 'فائدے کا عہدہ'معاملہ میں عام آدمی پارٹی کے بیس اسمبلی کی رکنیت کا خطرے میں پڑنا ہے۔اس کے علاوہ چند ایسی خبریں بھی سرخیوں میں رہیں جنہیں کم نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔جن میں i)اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا دورہ ہندوستان اور اس کے خلاف حقوق انسانی کی تنظیموں کا احتجاج ہے ۔ii) دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سوشل میڈیا پر کنٹرول کی بات کہتے جنرل راوت کا بیان۔iii)سرحدوں پر جنگ جیسے حالات اورانسانی جانوں کی ہلاکت۔iv)سیٹلائٹ امیج کے حوالہ سے ڈوکلام کے شمالی حصے میں چینی فوج کی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش۔جہاں نہ صرف دو منزلہ واچ-ٹاور اور سات ہیلی پیڈ بنالیے گئے بلکہ ٹینک،میزائل،آرمڈوہیکلس اور آرٹلری تک جمع کیے جانے کی کوششیں۔v)جج لویا کے دوست کا دہلی میں ہوئی ایک میٹنگ میں سینئر وکیل ادے گوارے کا یہ کہنا کہ جج کی اچانک ہوئی موت پر ان کے ساتھیوں کو شک ہوا تھا اور لویا کی موت منصوبہ بند قتل ہو سکتی ہے۔اور وہیں vi) جج لویا کی موت کے معاملے میں سپریم کورٹ میں داخل عرضی پر چیف جسٹس دیپک مشرا کی بنچ کی سماعت کی خبر۔اس بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی شمولیت کا فیصلہ۔یہ ساری خبریں بہت اہم ہیںلیکن فی الوقت ہم اُن دو خبروں پر نظر ڈالیں گے جن کا تذکرہ آغاز میں کیا ہے۔


شروع کرتے ہیں پروین توگڑیا کے اُس بیان کی جو انہوں نے انکاﺅنٹر کی سازش رچنے کی بات سے کی تھی ۔16جنوری کو اچانک وشوہندوپریشد کے لیڈر پروین توگڑیا تقریباً دس گھنٹے پراسرار گمشدگی میں رہتے ہیں۔اگلے دن وہ ایک پریس کانفرنس بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرضی پولیس انکاﺅنٹر میں ان کے قتل کے اندیشوں کے سبب خاموشی سے ہوائی اڈے سے راجستھان جانے کے لیے نکلے تھے اور اسی اثنا میں انکی طبیعت بگڑنے سے وہ بیہوش ہو گئے۔توگڑیا نے کہا کہ کل یعنی 16جنوری 2017،میں بھیاجی جوشی کے ساتھ پروگرام کر رہا تھا،میں نے گرفتاری کے سلسلے میں پولیس کو ڈھائی بجے آنے کے لیے کہا تھا لیکن میں جب صبح پوجاکررہا تھا تبھی ایک شخص آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ میرے انکاﺅنٹر کی سازش ہو رہی ہے۔توگڑیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے راجستھان کی وزیر اعلیٰ ،وزیر داخلہ سے رابطہ کیا اور اس کے بعد فون بند کر لیا تاکہ میرے فون کی لوکیشن پتہ نہ چل سکے۔اگلے دن 17جنوری 2017توگڑیا نے براہ راست پی ایم نریندر مودی پر حملہ بولا اور کہا کہ دہلی کے سیاسی باس(پی ایم مودی)کے اشارے پر کرائم برانچ کے جوائنٹ کمشنر جے کے بھٹ ان کے خلاف اور وی ایچ پی کے کارکنوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔توگڑیا نے مطالبہ کیا کہ بھٹ اور پی ایم نریندر مودی کے درمیان ہوئی بات چیت کو عام کیا جائے۔توگڑیا نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس کے پروموشنل سنجے جوشی کے خلاف 2005میںآئی سیکس سی ڈی فرضی تھی اور اس کو بنانے والوں کا نام وہ وقت آنے پر بتائیں گے۔ادھر ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق وشوہندوپریشد کاایگزیکٹو اجلاس فروری کے آخر تک منعقد کیا جائے گا۔جس میں آر ایس ایس کونسل کے دوبارہ انتخابات کو لے کر دباﺅ پیداکرے گا تاکہ راگھو ریڈی کو ہٹا کر نئے صدر کا انتخاب کیا جا سکے۔اس کے ساتھ ہی ریڈی کے توگڑیا سمیت دیگر حامیوں کو بھی ہٹانے کی مکمل منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔آر ایس ایس نے ان تمام لوگوں کو سنگھ سے باہر کا راستہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے ،جو بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سامنے آئے ہیں۔اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ 2019کے عام انتخابات ہیں۔


دوسری جانب فائر برانڈ دلت لیڈر اور گجرات کے وڈگام سے رکن اسمبلی جگنیش میوانی نے بھی توگڑیا کے سر میں سرملاتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے بھی پروین توگڑیا کی طرح ڈرلگتا ہے۔مجھے بھی اس بات کا ڈر ہے کہ کچھ لوگ میرا قتل کر سکتے ہیں۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ مجھے قتل کر سکتے ہیں۔مجھے ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ مجھے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔میوانی نے یہ بات انڈین ایکسپریس سے گفتگو کے دوران کہی ہے۔نیز اِس آواز میں ایک اور آواز اس وقت مل گئی جب شری رام سینا کے بانی پرمود متھالک نے الزام لگایا کہ آر ایس ایس کے کچھ ساتھیوں سے انہیں جان کا خطرہ ہے۔نیوز 18کو انٹرویو میں پرمود متھالک نے کہا کہ میں اپنے دشمنوں کو بہت اچھے سے جانتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ وہ پیچھے سے وار کرنے میں بہت اچھے ہیں۔پروین توگڑیاکے ساتھ جو ہوا وہ میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔متھالک نے براہ راست طور پر آر ایس ایس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ "کرناٹک کے سینئر آر ایس ایس لیڈر منگیش بھینڈے مجھے پسند نہیں کرتے۔انہیں سابق وزیر اعلیٰ جگدیش سیٹر او دھرواڑ ممبر پارلیمنٹ پرہلاد جوشی کی حمایت حاصل ہے۔وہ مجھے شمالی کرناٹک میں نہیں چاہتے ہیں۔میرے پیچھے میرے اپنی ہی لوگ ہیں۔انہیں میری مقبولیت پسند نہیں ہے۔انہیں یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ کسی کو نام اور شہرت ملے۔متھالک نے کہا میں انے ان کے ساتھ اور ان کے بغیر بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس وجہ سے مجھے زبردستی تنظیم چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔واضح ہو کہ پرمود متھالک کرناٹک میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے تیز طرار لیڈر ہوا کرتے تھے۔دس سال پہلے انہوں نے تنظیم چھوڑ کر خود شری رام سینا تنظیم بنائی تھی۔حال ہی میں متھالک کرناٹک یونٹ چیف کے طور پر شیوسینا میں شامل ہوئے ہیں۔وہیں پرمود متھالک کے الزامات پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔حالات کے پس منظر میں بخوبی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا چل رہا ہے۔متذکرہ واقعات کے پس منظر میں ہی اگر سپریم کورٹ آف انڈیا کے چارججوں کی پریس کانفرنس کو یاد کر لیا جائے تو ہم سب پر حقیقت عیاں ہو جائے گی۔اس سب کے باوجود ہماری آنکھیں بند ہیں۔میڈیا جو کچھ دکھانا چاہتا ہے ہم بس اسی کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔برخلاف اس کے ظاہری چیزوں کے پس پشت حقیقت ہم سے عموماً اوجھل ہی رہتی ہے۔


لیکن اگر دہلی کے سیاسی حالات پر نظر ڈالی جائے تو بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کا اعلان کرکے برسراقتدار عام آدمی پارٹی کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کابینہ وزیر سمیت کل 20ممبران اسمبلی کو فائدے کے عہدے پر رہنے کی بنا پر نا اہل قرار دیدیا ہے اور اس کی سفارش صدر جمہوریہ کو بھیج دی ہے۔نتیجہ میں دہلی میں ایک بار پھر ضمنی انتخابات کے امکانات قوی ہوگئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی ضمنی انتخابات کے نتیجہ میںکہاں کھڑی نظر آتی ہے؟ وہیں کانگریس اور بی جے پی کو لوگ کس قدر اور کن بنیادوں پر کامیاب کرتے ہیں؟اس کے باوجود کہ عام آدمی پارٹی نے اپنی حکومت کے دوران فلاحی کاموں کو عام آدمی کی رسائی تک پہنچانے اور ان سے مستفید ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ دیگر اسکیموں کے تحت آگے بھی جاری رہنے کے امکانات ہیں۔اس کے باوجود الیکشن کے دوران وہ اپنی کامیابیوں کو عوام تک کیسے باور کراتے ہیں اور کس قدر عوام ان کے کاموں سے خوش ہیں؟ یہ فیصلہ کسی حدتک ضمنی انتخابات کے نتیجہ میں سامنے آئے گا!

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...