جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟
مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے!!!
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
بھارت میں اس وقت چہار جانب لوک سبھا الیکشن 2024 کے چرچے ہیں۔
تمام ہی سیاسی پارٹیاں کوشاں ہیں کہ ان کی پارٹی کو لوک سبھا الیکشن میں بڑے
پیمانے پر کامیابی حاصل ہو تاکہ وہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں اور انہیں وہ سب کچھ
حاصل ہو جو عموماً الیکشن کے بعد سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو حاصل ہوتا ہے۔
اپریل 2023 میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن کے تعلق سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے
نوٹیفکیشن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں فی الوقت 8 نیشنل اور 55 اسٹیٹ سیاسی
پارٹیاں ہیں جبکہ 2597 غیر تسلیم شدہ سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میں حصہ لینے اور
انتخابی نشان کو حاصل کرنے کی درخواست دی ہوئی ہے۔ ان غیر تسلیم شدہ پارٹیوں میں
ایک جانب 1915 میں قائم ہونے والی اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا ہے تو وہیں ریاست
تمل ناڈو میں جوزف وجے چندر شیکھر کی 2024 میں قائم ہونے والی Tamilaga Vettri Kazhagam پارٹی
بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی میدان سیاست میں قسمت
آزمائے گی اور مقامی و ضلعی سطح پر کچھ نہ کچھ ووٹوں کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب
رہے گی جن کے نام الیکشن میں حصہ لینے اور پرچہ بھرنے سے چند دن پہلے سامنے آئیں
گے۔
ووٹر آئی ڈی ڈاٹا بیس کی روشنی میں یکم جنوری 2024 تک بھارت میں
94,50,25,694 ووٹرس نے ووٹ دینے کا حق حاصل کرلیا ہے۔ یہ اطلاع راجیہ سبھا میں ایک
سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون کرن رجیجو نے تحریری شکل میں دیا ہے۔ لیکن اگر
آزاد بھارت میں 1951 میں رائے دہندگان کی تعداد دیکھی جائے تو یہ تعداد 17.32
کروڑ تھی جو 1957 میں بڑھ کر 19.37 کروڑ ہوئی۔ پھر 2019 کے انتخابات کے وقت یہ
تعداد 91.20 کروڑ ہوئی جو کہ 2024 میں 94.50 کروڑ ہوگئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور
ووٹرس کی تعداد دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دنیا میں ایک اہم ترین ملک ہے
جہاں سیاسی پارٹیوں اور ووٹرس کی تعداد کے لحاظ سے اس کے مد مقابل کم ہی ممالک
ہیں۔ اعداد و شمار کا یہ کھیل اس بات کا بھی احساس دلانے میں کامیاب رہتا ہے کہ
بھارت وہ واحد ملک ہے جس میں ہر کسی کو اپنی سیاسی پارٹی بنانے اور رائے دہی کا
آزادانہ حق حاصل ہے۔ یعنی یہاں سیاسی پارٹی بنانا بھی آسان ہے اور دوسری جانب
ووٹ بھی خاصی تعداد میں کاسٹ ہوتے ہیں۔ غالباً اسی لیے بھارت خصوصاً آج کل اور
عموماً پہلے ہی ’مدر آف ڈیموکریسی‘ کہا جانے لگا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ‘مدر آف ڈیموکریسی’ کیا ہے؟ ہم امید کرتے
ہیں کہ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی چند ماہ پہلے بھارت میں G20 سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس موقع پر حکومت ہند کی وزارت ثقافت
نے10-8 ستمبر 2023 کے دوران ’بھارت: دی مدر آف ڈیموکریسی‘ سے متعلق ایک نمائش
تیار کی تھی۔ اس نمائش میں ہمارے ملک کی جمہوری روایات کے تیار کردہ تجربے کو ظاہر
کیا گیا۔جس ہال میں نمائش لگائی تھی اس کے سنٹر میں سندھو :سروسوتی تہذیب کی ایک
لڑکی کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ یہ وہ لڑکی ہے جو پراعتماد ہے اور دنیا کی آنکھ
میں آنکھ ڈال کر دیکھ رہی ہے اور آزادی کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ وہ اپنے جسم پر
سجاوٹ کی طرح زیورات پہنتی ہے جیسا کہ مغربی بھارت میں خواتین ہر روز پہنتی ہیں۔
اس مجسمہ کی اونچائی 10.5 سینٹی میٹر اور 120 کلو وزن کے ساتھ کانسے میں بنائی گئی
تھی۔ ساتھ ہی بھارت میں جمہوریت کی تاریخ کو 26 انٹرایکٹو پینلز کے ذریعے ظاہر کیا
گیا تھا جہاں دیکھنے والے 16 مختلف زبانوں میں متن کو پڑھ سکتے تھے اور آڈیو سن
سکتے تھے۔ پینل میں لوکل سیلف گورننس، جدید بھارت میں انتخابات، کرشنا دیوارایا،
جین دھرم اور دیگر شامل تھے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ بھارت میں
جمہوریت کا ایک قدیم تصور ہے۔ بھارتی اخلاقیات کے مطابق جمہوریت معاشرے میں
آزادی، قبولیت، مساوات اور شمولیت کی اقدار پر مشتمل ہے اور اس کے عام شہریوں کو
معیاری اور باوقار زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے۔ رگ وید اور اتھرو وید، قدیم
ترین دستیاب بھارت کے مذہبی متن میں سبھا، سمیتی اور سنسد جیسے شراکتی اداروں کا
حوالہ دیتے ہیں۔ رامائن اور مہا بھارت، اس سر زمین کے عظیم شاہکار ہیں اور یہ بھی
فیصلہ سازی میں لوگوں کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ نیز حکومت کرنے کا اختیار
میرٹ یا مشترکہ اتفاق رائے سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ موروثی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ
پریشد اور سمیتی جیسے مختلف جمہوری اداروں میں ووٹر کی قانونی حیثیت پر مسلسل بحث
ہوتی رہی ہے۔ بھارتی جمہوریت واقعی سچائی، تعاون، اشتراک، امن، ہمدردی اور عوام کی
اجتماعی طاقت کا ایک پرمسرت اور شاندار اعلانیہ ہے۔ اس موقع پر تعلیم اور ہنرمندی
کی ترقی کے مرکزی وزیر جناب دھرمیندر پردھان نے تاریخی تحقیق سے متعلق بھارتی
کونسل (آئی سی ایچ آر) کے ذریعہ تیار اور شائع کی گئی کتاب ‘انڈیا: دی مدر آف
ڈیموکریسی’ کا اجرا کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کتاب بھارتی جمہوری میراث پر ایک
صحت مند مباحثے کی حوصلہ افزائی کرے گی اور یہ آئندہ آنے والی نسلوں کو ہماری
لازوال روایات کو یاد رکھنے کی ترغیب فراہم کرے گی۔
تو یہ ہے وہ خوبصورت تصویر جو بھارت، بھارتی سیاست، بھارتی ثقافت
اور بھارتی جمہوریت کی دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہے اور جسے مزید سنوارنے اور
نکھارنے کی منظم و منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ 6 سالوں میں بھارت کی گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس میں
26 درجے تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ
کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس میں بھارت
27ویں سے 53ویں درجے پر پہنچ گیا، فریڈم ہاس کی مارچ میں جاری کردہ رپورٹ میں
بھارت جمہوری آزاد ملک کے اسٹیٹس سے جزوی آزاد اسٹیٹس پر ایکواڈور، موزمبیق اور
سربیا کے ساتھ آ کھڑا ہوا ہے۔ وہیں ہیومن فریڈم اینڈیکس کے اعداد و شمار کی روشنی
میں بھارت 118ویں درجہ پر پہنچ گیا ہے۔ یہ انسانی آزادی کا اشاریہ (ہیومن فریڈم
اینڈیکس) ایک ایسا پیمانہ ہے جو کسی ملک میں شخصی، شہری اور اقتصادی آزادیوں کی
سطح کا تعین کرتا ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی، جائیداد کے حقوق، تقریر اور مذہب کی
آزادی، اور اقتصادی مواقع تک رسائی جیسے مختلف عوامل کو مد نظر رکھتا ہے۔دوسری
جانب بھارت میں ہر سیاسی پارٹی عوام کے ووٹ حاصل کرنے اور کامیابی ملنے کے بعد بھی
یا تو پوری پارٹی ہی خرید لی جاتی ہے یا اس کے کامیاب عوامی نمائندے عوام کو منہ
چڑاتے ہوئے اقتدار میں موجود سیاسی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی نفرت کا
بازار بھی خوب ترقی کرتا نظر آرہا ہے۔عوام اور ان کے مختلف گروہ اپنے حقوق کے لیے
سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ مدر آف ڈیموکریسی والا ملک جمہوری
اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے انہیں حقوق دلائے گا۔ لیکن انہیں شاید اس بات کا
اندازہ نہیں ہے کہ جمہوریت خود اپنے فریبی جال میں آج کل بری طرح پھنسی ہوئی ہے
اور جمہوریت کے علم بردار اقتدار کے حصول کے لیے گروہ بندیوں میں کہیں ناکام تو
کہیں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ماہ میں مدر آف
ڈیموکریسی اور جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ: بلاگر کی جانب سے اس مضمون کو اخبارات و میگزین نیز ڈیجٹل میڈیا میں شائع کرنے کی اجازت ہے البتہ شائع کرتے وقت مصنف کا نام (محمد آصف اقبال، نئی دہلی) مع بلاگ کا ایڈیس (maiqbaldelhi.blogspot.com) شائع کرنا ضروری ہے۔