جمعرات، 2 فروری، 2012

!تبصرہ و تجزیہ

تبصرہ و تجزیہ!

تبصرہ اور تجزیہ ایک مشکل ترین کام ہے لیکن اگر کسی مضمون یااداریہ پر تبصرہ نہ کیا جائے تو یہ ثابت کرتا ہے کہ یا تو لوگوں نے اس کو پڑھا نہیں یا پھر اس تحریر میں وہ تاثیر نہیں کہ قارئین کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ ہر مضمون اور اداریہ پر تبصرہ شائع ہی ہو جائے کیونکہ جس قدر مضامین ہیں اس سے کہیں زیادہ قارئین اور ہر قاری ہر مضمون پر کچھ نہ کچھ تاثر توضرور ہی قائم کرتاہے۔معلوم ہوا کہ تحریر کے اثرات سے انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔اب یہ الگ بات ہے کہ یہ تاثر منفی ہے یا مثبت۔ لہٰذا یہ کہا جانا کہ ہر تحریر اثر انداز نہیں ہوتی یہ ایک ناقابل فراموش بات ہوگی۔پھر غور فرمائیں کہ ایک مضمون،یاکالم یا اداریہ جو چند پیراگراف پر منحصر ہوتا ہے اُس کی اِس قدر اہمیت ٹھہری تو اس اخبار یا جریدے کی کس قدر اہمیت ہوگی جس میں ایک نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں بے شمارمضامین شائع ہوتے ہوں!لہٰذا یہ اخبارات و جرائد وہ ہیں جو لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں،مختلف پہلوںکو اجاگر کرتے ہیں،لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کرتے ہیں،ان کے اشکالات دور کرتے ہیں،فکر و نظریہ میں وسعت پیدا کرتے ہیں اور ایک خاص نظریہ کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔لہٰذا ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا!

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...