indian culture لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
indian culture لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 26 دسمبر، 2012

نعرہ آزادئ نِسواں کی آڑ میں!


نعرہ  آزادئ نِسواں کی آڑ میں!

                معاشرے میں موجود لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی فرد کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچائیں کیونکہ ہر شخص قابل عزت و قابل قدرہے ۔ساتھ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرہ میں خوشگوار ماحول پروان چڑھانے میں اپنا بھر پورکردار ادا کریں۔اس کے برخلاف عمل کے نتیجہ میں نہ صرف معاشرہ بلکہ اقوام ِ وقت بھی ہلاک ہوجائیں گی۔لیکن معاملہ یہ ہے کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت اس پہلو پر نہ غور کرتی ہے اور نہ ہی عمل۔یہاں غور و فکر سے مراد عمل تبدیلی سے ہے نہ کہ اس پر مذاکرے، بحثیں،دھرنے ،ریلیاں اور اسی طرز کی دیگر سرگرمیاں۔ہمارے درمیان چند معصوم مسلمان ذہنوں کی سوچ ہے کہ اگر فرد بذات خود ٹھیک ہو جائے تو نہ صرف مسلم معاشرہ بلکہ ملک و ملت کے دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔جس کے نتیجہ میں بھلائیاں فروغ پائیں گی اور برائیاں ختم ہو جائیں گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرہ میں فی الوقت موجود برائیاں کیا صرف مسلمانوں میں ہی پائی جاتی ہیں؟اور کیا خود ہی وہ اس کے پوری طرح ذمہ دار بھی ہیں؟فرداً فرداً اگر وہ اپنے آپ کو ٹھیک بھی کرلیں تو کیا اس سے معاشرہ اور ملک و ملت کے مسائل واقعی حل ہو جائیں گے ؟ یا یہ چہار جانب پھیلی برائیاں،مسائل اور چیلیجز جوعملی سطح پر ہی نہیں فکری سطح پر بھی ہیں، اس میں مسلمانوں کی حیثیت بس ایک فریق کے سوا کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے تمام معاملات میں مسلمان کوئی خاص رول نہیں رکھتے۔موجودہ تعلیمی نظام اور اس کی فکر و نظر، موجودہ سیاسی نظام اور اس کی بد اخلاقیاں ، موجودہ معاشی نظام اور مکمل طور پر سود پر مبنی معیشت،موجودہ معاشرتی و تمدنی نظام اور اس کے گنجلک نظریات،یہ تمام نظریہ ہائے افکاراسلا م کے دیے ہوئے نہیںہیں۔نہ صرف اسلام بلکہ مسلمانوں کا بھی کوئی رول اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ موجودہ قوانین پر عمل کر رہے ہیں۔پھر کیسے ممکن ہے کہ ان تمام افکار و نظریات کو پڑھنے، ان پر تحقیق کرنے،ان سے نبرد آزما ہونے،ان کو زندگی کے شب و روز کا حصہ بنانے کے باوجود مسلمان یا دیگر اقوام،صرف مسلمانوں کے ٹھیک ہو جانے سے ظلالت و گمراہی سے نجات پا لیں گی؟اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ عقیدے کی حد تک موجودہ نظام پر یقین رکھنے والے لا علم اورفکر و نظر سے کھوکھلے مسلمان اپنی روز مرہ کی زندگی میں یا معاشرے میں کوئی اہم رول ادا کر سکیں ؟چند عبادات تک سمٹے ہوئے لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تبدیلی فکر و نظر اور نظام حیات میں تبدیلی کی جرت و حیثیت رکھتے ہیں،ایک غیر فطری توقع تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقی نہیں۔اس کے باوجود کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اللہ اوررسول کے احکامات کو نہ اپنی زندگی میں اور نہ ہی اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کی سعی و جہد کرتے ہیں۔اور اگر ٹوٹی پھوٹی فکر پا ئی بھی جائے تو جامع پالیسی و پروگرام کے بغیر۔ان حالات میں ضرورت ہے ایک ایسی پختہ فکر،پالیسی اور پروگرام مرتب دیا جائے جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقوام کے افراد بھی تعاون و شراکت داری کے ساتھ تبدیلی کے لیے کوشاں ہوں۔آج یہ بحث زور پکڑ تی جا رہی ہے کہ اسلامی تعلیمات ، اسکا نظام و طریقہ ہائے زندگی کیا صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص و محدودرہنا چاہیے یا دیگر ممالک اور ان کے قوانین میں بھی ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟حالات کے مثبت پہلوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو چاہیے کہ مکمل طور پر فکری اور عملی میدان میں اسلامی تعلیمات کو نہ صرف پوری طرح سے واضح کردیں بلکہ اس کے قیام و بقا کے لیے بھی سرگرم عمل ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج "جدیدیت"اس نظام فکر و نظر کی علامت بن گئی ہے جو فی الوقت رائج ہے اور جس کے قبضہ میںقوت و اقتدار بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر میدان میں جدیدیت کا غلبہ ہے۔ وہ تعلیمی میدان ہویاسیاسی ، معاشی ہو یا معاشرتی و تمدنی ہر میدان میں قوت و اقتدار رکھنے والا طبقہ جدیدیت کو اختیار کرنے میں نہ صرف عزت بلکہ اس کے تراشے و سنوارے لبادے میں ہر قسم کی خوشی بھی محسوس کر تا ہے۔برخلاف اس کے عام طبقہ جسے "عوام"کہتے ہیں ، فکر ِ جدیدیت کے نتیجہ میں رونما ہونے والے واقعات سے بہت حد تک اکتا چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہحالیہ دہلی آبروریزی معاملہ میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اسلامی قوانین کو لاگو کرنے کی بات کر رہی ہے۔اندرونی کسک و جذبات نہ صرف دہلی کے بلکہ پوری دنیا کے ہیں۔کیونکہ انسان ہمیشہ ہی امن پسند رہا ہے اور اسلام و اسلامی قوانین امن کے علمبردار۔
پرانا واقعہ نئی تاریخ کے ساتھ:
                16دسمبر2012ءکی رات ملک کی راجدھانی دہلی میںایک درد ناک واقعہ طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کا سامنے آیا۔پولیس نے6وحشیانہ حرکت میں ملوث بدمعاشوں میں سے 4کو چوبیس گھنٹوں میں گرفتار کر لیا۔گرفتار شدگان میں بس کا ڈرائیور رام سنگھ، اس کا بھائی مکیش، جم انسٹرکٹر ونے شرما اور پھل فروش پون گپتا شامل ہیں۔اور جلد ہی دیگر دو بدمعاشوں کی شناخت بھی کر لی گئی۔ دریں اثنا دہلی کی ایک عدالت نے ملزم بس ڈرائیور کو آج5دنوں کی پولیس حراست میں بھیج دیا ۔ دہلی پولیس نے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نمرتا اگروال کی عدالت سے کہا کہ گرفتار دیگر 3ملزمین رام سنگھ کے بھائی مکیش، جم انسٹرکٹر ونے شرما اور پھل فروش پون گپتا کو عدالت میںپیش کیا جائے ۔دہلی پولیس نے کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ اس معاملے کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت میں ہو، جہاں پولیس عدالت سے مجرموں کے لیے سخت سے سخت سزا یعنی عمر قید کی اپیل کرے گی، جس سے اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو سبق مل سکے۔دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظمیں،سماجی تنظیمیں اور سرکردہ حضرات نے اظہار افسوس و ملامت کی۔احساسات کے اظہار کے لیے ریلیاں اور مظاہرے کیے،پولیس، انتظامیہ اور حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے اور مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے پر زور ڈالا۔ایوان بالا سے درخواست کی کہ آبروریزی جیسے معاملات جو ملک میں ہر دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں ،کے لیے سخت سے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔سرکردہ لوگوں نے عمر قیداورپھانسی جیسی سزائیں تجویز کیں۔ریاست دہلی کی چیف منسٹر نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ اس تعلق سے خصوصی توجہ دیتے ہوئے سخت قوانین اور انتظامات کی سعی و جہد کریں گی۔اجتماعی آبروریزی میں ملوث طالبہ کی صحت تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے۔مختلف آپریشن کے بعد بھی وہ صحت یاب ہوتی نظر نہیں آتی اور ہو بھی جائے تو ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا جسم پوری طرح صحیح ہونے میں بہت وقت لگے گا۔یہ ہے وہ صورتحال جو صرف ایک واقعہ کے پس منظر میں ہمارے سامنے آیا ہے نہیں تو کتنی ہی طالبات ، بچیاں و خواتین اس عذاب میں آئے دن مبتلا ہوتی رہتی ہیں۔

نعرہ آزادئ نسواں کی آڑ میں:
                اخلاقیات سے آزادمغربی دنیا جن نعروںکو بلند کرتی ہے ان میںسر فہرست آزادی نسواں ہے۔ اس کا مطلب قید سے آزادی بھی ہے اور اخلاقی اصولوں سے آزادی بھی ہے۔ اس لئے کہ اخلاقی اصول بھی انسان کو چند چیزوں کا پابند بناتے ہیں۔لہذا اس نعرے میں مرد جو قوام بنائے گئے ہیں ان کی قوامیت سے آزادی بھی ہے تو وہیں معاشرے میں جو حدود عورت کے لیے متعین کیے گئے ہیں ان سے بھی آزادی ہے۔عورت جو شوہر کے تئیں وفاداربنائی گئی ہے اس وفاداری سے بھی آزادی ہے تو وہیں معاشرہ میں اختلاط مرد وزن میں جو ایک مخصوص دوری قائم کی گئی ہے اس سے آزادی بھی ہے ۔ حکومت و سیاست میں مرد کے زیر نگیں آزادی بھی ہے اورمذہب جو افکار و نظریات اور میدان عمل میں حدود متعین کرتا ہے اس سے آزادی بھی ہے۔پھر یہ نعرے نہ صرف نظریاتی یا فکری حد تک ہیں بلکہ عملی میدان میں بھی وہ مثالیں قائم کی گئی جو بطور شہادت پیش کی جا سکیں۔آج "آزادی نسواں" کے نعروں کی آڑ میں عورت کو سرم عام بازار کا کھلونا بنا دیا گیاہے ۔ساتھ ہی ایک شے جو بازار میںفروخت کی جا سکے نیز جسکاکھل کر استحصال کرنا بھی ممکن ہو۔واقعہ یہ ہے کہ یہ پاکدامن، عفت و عصمت کی علمبردار عورت کھلے عام نیلام ہو رہی ہے اور وہ ان حالات سے باخوبی واقف بھی ہے۔ اس کے باوجوداس نے ان خوبصورت نعروں کی زینت بننا پسند کیا اور مسلسل کیے جا رہی ہے۔دیکھنا یہ چاہیے کہ مختلف مذاہب و تہذیب سے تعلق رکھنے والی یہ عورت اپنے رویہ میں تبدیلی کیوں نہیں لا رہی ہے۔کیا اس کی بھی کوئی معقول وجہ ہے؟معلوم ہوا کہ ایک طرف عورت کو بازار میں سر عام بے عزت کیا جاتا ہے تو وہیں دوسری طرف گھروں میںلڑکے اور لڑکیوں میں تفریق کی جاتی ہے۔مختلف انداز میں ہر مقام پر ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے ۔کبھی شوہر اوردیگر رشتے داروں کے ذریعہ رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جو جانوروں سے بھی بڑھ کر نہ صرف اُن پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں بلکہ معمولی جہیز کی خاطر انھیں زندہ جلادینے تک سے گریز نہیں کرتے۔یہ اور ان جیسے بے شمار ظلم و زیادتیوں کے واقعات ہی دراصل وہ پس منظر ہے جو عورت کو آزادی  نسواں کے نعروں کو پسند کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔پھر ان نعروں کی آڑ میں کہیں زمانہ حال کی ماری ہوئی تو کہیں عزت و ذلت سے ناواقف عورت ان تمام امور کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتی جو آج رائج ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان نعروں کو بلند کرنے والے ،ان پر عمل کرنے والے اور ان کوفروغ دینے والے مسائل کا رونا نہیں روتے،لیکن پھر بھی وہ روتے ہیں، درد محسوس کرتے ہیں اور مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔تو چاہیے کہ ان حالات میں نہ صرف ان مخصوص لوگوں کے سامنے بلکہ عوام الناس کے سامنے بھی اس مالک برحق اللہ رب العزت کی تعلیمات کو عام کیا جائے جس نے ان تمام مسائل کا حل بہت پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔

متذکرہ واقعہ کے برخلاف:
                راجدھانی دہلی کے حالیہ واقعہ کے برخلاف یہ دوسرا واقعہ امریکی ریاست اریزونا کا ہے ۔جہاں امریکی پولیس نے ایک یمنی طالب علم پر جنسی تشدد کی کوشش کے الزام میں پانچ امریکی طالبات کو حراست میں لیا ۔ حکام کے مطابق حال ہی میں ریاست اریزونا میں ایک کالج میں زیر تعلیم پانچ لڑکیوں نے اپنے ہم کلاس ایک یمنی طالب علم عصام الشرعبی کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کے بعد اندر سے تالے لگا دیے اور اپنے کپڑے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔تاہم عصام کھڑکی سے چھلانگ لگاکر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ عصام کی اطلاع پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر پانچوں لڑکیوں کو حراست میں لے لیا۔ ان کے خلاف جنسی تشدد کی پاداش میں مقدمہ درج کر لیا ۔ ذرائع کے مطابق تفتیش کے بعد پانچوں لڑکیوں نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ عصام شرعبی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہے، جس پر انہوں نے اسے رضاکارانہ طور پر کئی مرتبہ جنسی تعلقات کی پیشکش کی تھی، اُس نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی تھی کہ وہ ایک دیندار مسلمان نوجوان ہے اور اس کا مذہب اسے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ امریکی ریاست اریزونا میں وہ مقام ہے جہاںہر تعلیمی سال کے اختتام پر کم و بیشپانچ ہزار طالبات عریاں دوڑ میں حصہ لیتی ہیں۔

دو متضاد واقعات کیوں؟
                پہلا واقعہ ان حالات کی عکاسی کرتا ہے جس نے انسانوں کو بے لگام حیوان بنا دیا ہے۔برخلاف اس کہ دوسرا واقعہ بھی تقریباًوہی ہے فرق بس اتنا ہے کہ چہار طرفہ پھیلی ظلالتوں میں کچھ لوگ آج بھی عقیدے اور عمل کے میدان میں مستحکم ہونے کی بنا پر ان گندیوں سے پرہیز کرنا پسند کرتے ہیں جو درحقیقت دنیا و آخرت دونوں میں ہی نقصان دہ ہیں۔یہ کچھ لوگ کون ہیں اور ایسا کیوں کرتے ہیں؟وجہ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ جس عقیدہ اور نظریہ پر قائم ہیں وہ حاکم برحق کا عطا کردہ ہے جس نے نہ صرف انسانوں کو پیدا کیا بلکہ انھیں صراطِ مستقیم بھی عطا کیا۔پہلے اور دوسرے واقعہ میں ظلم و تشدد کرنے والے نیز ظلالت و گمراہی میں مبتلا انسان اور انسانوں کے گروہ کسی مخصوص علاقہ،نظریہ،فکر اور عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتے اس کے باوجود وہ دونوں ہی اللہ وحدہ‘ لا شریک اور اس کے رسول کی تعلیمات سے دور بھاگتے ہیں۔کبھی لاعلمی کی بنا پرتو کبھی علم ہونے کے باوجود زمانہ  وقت یا نفس امارہ کے دبا میں آکر۔پھر یہی وہ لوگ بھی ہیں جن کے قبضہ میں قوت و اقتدار ہے۔قوت و اقتدار کی بنا پر ان لوگوں نے تعلیم و تربیت کا نظام کنڈر گارڈن سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک جوقائم کیا ہوا ہے،نتائج کے اعتبار سے نہایت عبرتناک ہے۔پھریہی وہ لوگ ہیںجو تعلیمی ادراوںکے ماحول اور فضا کو رخ دینے والے،طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے حقیقی جذبات سے کھلواڑ کرنے والے،بدکاریوں پر ابھارنے والے اور بدکاریوں کو خوشنما انداز میں پیش کرنے والے،فیشن کی آڑ میں ننگ و عار کو فروغ دینے والے،انٹر نیٹ،فلموں اور ٹی وی سیریلز کے ذریعہ عریانیت اور فحاشی کو بڑھاوا دینے والے، مقاصد کے حصول کے لیے پرنٹ و الیکڑانک میڈیاکا بھر پور استعمال کرنے والے ہیںاوروسائل پر بے ساختہ دولت صرف کرنے والے اور ۔ان حالات میںاگر چند نفوس اللہ وحدہ لا شریک اور اس کے حبیب ِ رسول پر ایمان رکھنے والے اور احکا م الٰہی پر عمل پیرا رہ نظر آجائیں تو یہ اس حقیقی علم اور اس پر پختہ یقین کا نتیجہ ہی کہلائے گا جو چہار طرفہ پھیلی ظلالتوں کی دلدل سے بچے رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔یہ وہی علم ہے جو خالقِ جن و انس اور مالک رب العالمین کا دیا ہوا ہے،یہی وجہ ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوکر انسان شرف و منزلت کے ادوار طے کرتا ہے،دنیا امن کا گہوارہ بنتی ہے اور ایک بہتر معاشرہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔

vvvvvvv

بدھ، 13 جون، 2012

بہتّر چھید اور ذات پرست سیاست!


بہتّر چھید اور ذات پرست سیاست!
        ڈاکٹرامبیڈکرکا انقلابی فلسفہ انصاف،آزادی، برابری اور اخوت یعنی بھائی چارے سے روشناس کراتاہے جو انہوں نے اسلامی تعلیمات اورمہاتما بودھ کی تعلیمات سے اخذ کی ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کے نظام اور اس کے تکلیف دہ انجام سے متاثر ہوکر امبیڈکر نے محسوس کیا کہ ذات پات کی اونچ نیچ اور ناہمواری انسانی جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ امبیڈکر کے مطابق ذات پات کا نظام جس کی ہندو مت و مذہب اجازت دیتا ہے، وہ حقیقت میں سماجی ناہمواری، ناانصافی اور نفرت کو بڑھاوا دینے کی زندہ مثال ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان میں ذات پات اور جمہوری اصولوں کے مابین تضاد بڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے ہندوسماج میں امبیڈکر کے افکار کی اہمیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر جنہیں اپنی زندگی میں اونچی ذات والوں کے ہاتھوں بدترین ذلتوں اور بے عزتی کا مسلسل سامنا رہا نتیجتاً انہوں نے ہندوستان میں برابری پر مبنی سماج کوقائم کرنے کی انتھک جدوجہد کی۔ وہ ہمیشہ جمہوری انقلاب پرایمان رکھتے تھے اور سماج کے کمزور،بے سہارا،اور مظلوم فرقہ کی آزادی کے لئے سرگرم تھے ۔انھوں نے جو طریقہ کار متعین کیا وہ تین نکاتی تھا ۔i) تعلیم ii)احتجاج اورiii ) تنظیم ۔ہندوستان میں ہندو اچھوت پن کو مذہبی فریضے کے طور پر لیتے ہیں اور اس پر عمل نہ کرنے کو پاپ/گناہ خیال کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر ذات اور اچھوت پن ایک ہی طریقے اور اصول پر قائم ہیں۔ اگر ذات کی بنیاد پر ہندو اچھوت پر عمل کرتے ہیں تو اس لئے کہ وہ ذات پات میں یقین رکھتے ہیں۔ اس نقطے کے پیش نظر اچھوت ہونے کی لعنت سے اس وقت تک چھٹکارہ پانا ممکن نہیں جب تک کہ ذات پات کے نظام کوختم کرکے اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہوجاتا۔ یہ سمجھنا کہ ذات اور اچھوت پن دو علیحدہ چیزیں ہیں صحیح نہیں ہے۔ دونوں نہ صرف ایک ہےں بلکہ انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اچھوت پن محض ذات پات کے طریقہ کارکا حصہ ہے۔ ان دونوں کو علیحدنہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت دونوں ایک دوسرے کے سہارے کھڑے ہیں اور ایک ساتھ ہی گرائے جاسکتے ہیں۔
ذات پرستی اور ہمارے لیڈران:
        نریندر مودی کی طرف سے بہار کے لیڈروں کو ذات پرست کہنے پر جنتا دل یو کے ساتھ کئی پارٹیوں نے مودی کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے مودی کے بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے وہ اپنا گھر ٹھیک کریں، اس کے بعد دوسروں کے بارے میں بات کریں۔ نتیش کمار نے کہا کہ ہم دوسروں پر نکتہ چینی نہیں کرتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے حالات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ بہار تمام تر مصائب سے گزر کر ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ ویسے نتیش نے نریندر مودی کا نام تو نہیں لیا، لیکن بالواسطہ طور پر نریندر مودی کے بارے میں بہت کچھ کہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ خود کی چھلنی میں 72چھید ہیں۔مودی کو تاریخ کی معلومات نہیں ہے، کیونکہ ذات برادری ملک کی سچائی ہے۔ کیا نریندرمودی بتا سکتے ہیں ہیں کہ گجرات میں ذات برادری نہیں ہے؟ادھر جنتا دل یو کے قومی صدر شردیادو کو بھی مودی کا تبصرہ ناگوار گزرا ہے۔ این ڈی اے کے کنوینر نے نریندر مودی کو بیوقوف تک کہہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تاریخ سے نابلد ہیں۔ ذات پات ہندوستان کی سچائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرات کسی شخص کی وجہ سے اقتصادی ترقی میں آگے نہیں ہے، بلکہ اپنی جغرافیائی حدود کی وجہ سے ہے۔ گجرات کی ترقی آج نہیں بلکہ اس کی ترقی سمندر کے کنارے بسے دیگر شہروں کی طرح برٹش حکومت میں ہی ہوئی تھی۔ دوسری طرف راڑاشٹریہ جنتا دل کے صدراور سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے نتیش کمار اور سشیل مودی، دونوں کو نشانہ پر لیتے ہوئے کہا کہ نتیش-مودی کو اس کا جواب دینا چاہیے۔ لالو پرسساد یادو نے کہا کہ اس بات کا جواب نتیش اور سشیل مودی دونوں کو دینا چاہیے کیونکہ ان دونوں کے لیڈر نریندر مودی ہیں، اور جنتا دل یو بھی این ڈی اے کا اتحادی ہے۔ واضح ہو کہ اتوار کو راج کوٹ میں بی جے پی کی ریاستی کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے بہار کے وزیر اعلیٰ کا نام لیے بغیر کہا کہ ہندوستان نے دیکھا ہے کہ جو ریاست ذات پات کے زہر میں الجھ گئی ، اس کاکیا حشر ہوا۔ بہار کسی وقت کتنی شاندار ریاست تھی لیکن وہاں کے ذات پرست لیڈروں نے اس ریاست کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ مودی نے اترپردیش کا بھی نام لیا، حالانکہ انہوں نے وہاں کے کسی لیڈر کا نام نہیں لیا۔ پھر بھی انہوں نے اترپردیش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے ذات پرست لیڈروں نے اترپردیش کا کیا حال کرکے رکھ ہے۔دوسری طرف نتیش کمار کی حمایت کرتے ہوئے بہار ودھان پریشد کے رکن اور جے ڈی یو کے ترجمان نے کہا کہ مودی کو گجرات اور اپنی پارٹی کے اندر کئی طرح کی پریشانیاں لاحق ہیں جس کی وجہ سے وہ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھول گئے ہیں کہ بہار حکومت میں بی جے پی بھی شامل ہے، ایسے میں انہیں منہ کھولنے سے قبل کئی بار سوچنا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیان بازیاں ذات پرست سیاست کو مزید تقویت نہیں پہنچاتیں؟
ذات پرستی کیا پارٹیوں کی دین ہے؟
        حقیقت یہ ہے کہ ہندوسستان میںہندو احیا پسند تحریکیں اس ذات پات کے سسٹم کو برقرار رکھنے کا ذریعہ رہی ہیں۔یہ ذات پر مبنی سماج یا اچھوت پن ایک منفرد اور بے مثل طریقہ کار ہے کہ۔ یہ دنیا کے کسی اور کونے کے انسانوں میں نہیں ملتا نیز دنیا کی قدیم، قبل از تاریخ یا جدید سوسائٹی میںبھی اس کا وجود نہیں ملتا۔ اگر انتھراپولوجی(علم بشریات) وہ سائنس تسلیم کی جائے جس پر لوگوں کی نسل معلوم کرنے پر انحصار کیا جاسکے تو انتھراپولوجی کے نتائج اخذ کرتے ہوئے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اچھوت ہندو سوسائٹی سے ہٹ کر آریاؤں اور دراوڑوں سے مختلف کسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس پیمانے پر براہمن اور اچھوت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا اچھوتوں کی بنیاد میں نسلی نظریے کو یکسر خارج کردینے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی اس حقیت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہحقیر و غلیظ پیشے کی بنیاد پر بھی اچھوت پن کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ عمومی طور پریہ براہمنوںکی بودھ لوگوں کے خلاف پھیلائی ہوئی نفرت و حقارت کی فضا تھی۔ دوسری جانب یہ ان منتشر افراد کے خلاف نفرت و حقارت کا اظہار تھا جوگائے کو مقدس قرار دیئے جانے کے باوجود گوشت خوری کی عادت جاری رکھے ہوئے تھے۔لہذا اِن منتشر افرادکا بڑے پیمانہ پرمعاشرتی بائیکاٹ کیا گیااور وہ سماج سے باہر اچھوت قرار پائے۔
        یہ حقیقت اب بحث طلب نہیں رہی کہ کہ ” ذات اور اچھوت پن“ کوئی بے ضرر عقائد نہیں ہین جن کا موازنہ موت کے بعد کی روح کے حربے سے کیا جائے۔ یہ ہندؤوں کا ایسا ضابطہ حیات ہے جس میں ہر ہندو کوزمین پر اپنی زندگی میں پابند رہنا ضروری ہے۔ ”ذات پات اور اچھوت پن“ محض عقیدہ ہی نہیں بلکہ ہندو ازم کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ ایک ہندو کے لئے ”ذات اور اچھوت پن“ کے عقیدے پر محض یقین رکھنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کو اپنی روزمرہ زندگی میں اس پر عمل پیرا رہنا ضروری ہے۔ بیشتر ہندو یقین رکھتے ہیں کہ اچھوت پن UNTOUCHABILITYایک مذہبی فریضہ ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ محض مذہبی فریضہ ہی نہیں، اچھوت پن مذہب سے بھی آگے کی چیز ہے۔ یہ ایک معاشی و اقتصادی سسٹم ہے جو غلامی کی حالت سے بھی بدتر ہے۔ غلامی کے دور میں کم از کم غلاموں کو کھانا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ دینا آقا کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی مگر اچھوت پن کی صورت میں ہندو، اچھوت غلام کو زندہ و سلامت رکھنے کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔آج بھی آزاد ہندوستان کی یہ تلخ حقیقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ مندروں میں جانور داخل ہو جاتے ہیںمگر اچھوتوں کے داخلے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔
ذات پرستی اور اسلامی تعلیمات:
        اسلام نے انسانی اخوت ومساوات کو قائم کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور اعلان کیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجة الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے تاریخی خطبہ میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت ومساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اللہ کے رسول فرماتے ہیں:اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر۔قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:"لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔"(النسائ:۱)۔مزید فرمایا:"لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے "(الحجرات:۳۱)۔ان دونوں ہی آیات میں نہ صرف مسلمانوںکو بلکہ تمام ہی انسانوںکو مخاطب کرتے ہوئے ربِ اعلیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو دنیا کا نظام ہے یعنی یہ قومیں اور برادریاں ، ان کا مقصد ہے کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ ورنہ درحقیقت ربِ اعلیٰ کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔اور اللہ اور انسانوں میں زیادہ عزت والا وہ ہوگا جو زیادہ متقتی اور پرہیزگارہے۔
لمحۂ فکریہ:
        ہندوستان جہاں غربت و افلاس اپنے عروج پر ہے،صحت عامہ، تعلیم، روزگار اور ان جیسے انسانی مسائل سے وہ دو چار ہے۔ملک کی سا لمیت کا خطرہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔کرپشن کی جڑیں جہاں خوب مستحکم ہو چکی ہیں۔نکسلی زور جہاں ایک اہم تریں مسئلہ بن چکا ہے۔ملک کی معیشیت اور روپے کی قیمت جہاں اپنے کم تر درجہ پر پہنچ چکی ہے۔جمہوریت کی جڑیں جہاں کھوکلی ہو رہی ہیں۔غنڈہ گردی اور جرائم کا گراف جہاں ہر صبح اوپر ہی اٹھتا ہے۔ذہنی تنا اور نفیساتی مسائل میں مبتلا اشخاص بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔معاشرہ پر عریانیت ، فحاشی اور اخلاقی زوال کے بادل مزید سیاہ ہورہے ہیں۔یہ اور ان جیسے بے شمار مسائل جس ملک میں موجود ہوں وہاں کے سیاست داں یہ دیکھنے کی بجائے کہ برائی کیا ہے؟ اس کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟سدھار کے وہ کون سے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے ملک اور معاشرہ میں انسانی رواداری ، اخوت، ہمدردی، بھائی چارہ اور محبت و الفت کی فضاءقائم ہو۔اس جانب توجہ ، غور وفکر اور تبادلہ خیال کی بجائے اُن امور پر زیر بحث ہیں جن کے تذکرے سے معاشرے میں مزید دوریاں پیدا ہوںگی۔یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ذات پرستی اور ذات پر مبنی سماج نہ کل ملک کے لیے سود مند ثابت ہو ا تھا اور نہ آئندہ ہی ہوگا۔لہذا اسلامی تعلیمات جو درحقیقت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہیں۔اِن تعلیمات پر ٹھنڈے دل سے اور متعصب ذہنیت سے پاک ہوکر غور و فکر کرنا چاہیے۔اگر ان تعلیمات میں ملک اور معاشرے کے لیے واضح ہدایات و راہنمائی موجود ہوں تو سب سے پہلے انسانوں سے محبت کے نتیجہ میں اور بعد میں معاشرے میں سدھار اور ملک میں سا لمیت اور یکجہتی کی بنیادوں پر قبول کیا جانا چاہیے۔اس سا لمیت ،یکجہتی اور انسانوں سے محبت نیز ملک اور معاشرے کی فلاح و بہود کی خاطرپہلے اُن لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے جو ان تعلیمات سے واقف ہیں۔ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو نہ صرف مسلمانوں کی فلاح و کامرانی تک محدود رکھیںبلکہ ان تمام افراد تک پہنچانے کی سعی و جہد کریں جن کے درمیان وہ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ساتھ ہی ان تمام فورمس میں اِن امور کو زیر بحث لائیں جہاں انسانیت اور انسانوں سے محبت کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں۔توقع ہے اس طرح ملک کے کھوکھلے پن اور سماجی بنیادوں پر دوریوں کو کسی حد تک کم کیا جا سکے گا!
vvvvvvv

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...