islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 22 اکتوبر، 2012

"رمی" اعلان براءت !


"رمی" اعلان براءت !

                جس طرح کسی علم کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بنیادی فلسفہ سے واقفیت ہو ٹھیک اسی طرح مذاہب جن عبادات و اعمال کا تقاضا کرتے ہیں،ان کے بنیادی فلسفہ سے واقفیت بھی لازم ہے ۔فائدہ یہ ہوگا کہ عمل میں تشنگی نہیں رہے گی اور نتائج کے اعتبا سے بھی فرد کی ذات اور ملت میں وہ نتائج نمودار ہو جائیں گے جو مطلوب ہیں۔اب اگر کوئی عمل عبادت کے دائرہ میں بھی آتاہواور خشوع و خضوع کے ساتھ انجام بھی دیا جائے اس کے باوجود نتائج ظاہر نہ ہوتے ہوں تو معنی یہی ہوں گے کہ آیا فرد یا ملت نے اس کو بنا سوچے سمجھے ہی انجام دیا ہے یا واقعی وہ لایعنی عمل ہے جس کو عبادت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔آج مختلف مذاہب کے افراد بے شمار اعمال عبادات کے نام پر انجام دیتے ہیں ۔دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ اعمال جن کو "عبادت"کہا جا رہا ہے کیا واقعی فرد میں مثبت تبدیلی لار ہے ہیں یا لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟یا پھر بس چند اعمال ہیں جو کبھی شائستہ اور کبھی ناشائستہ انداز میں انجام دیے جاتے ہیں اور نتیجہ کے اعتبار سے وقت گزاری کے سوا کچھ حاصل نہیںہوتا۔اس کے برخلاف اسلام نے جن اعمال کو عبادات کا درجہ دیا ہے اس کے ذریعہ فرد واحد اور اجتماعیت دونوں ہی کو ارتقاءکی جانب ابھارا جاتا ہے۔ان عبادات کو انجام دیتے ہوئے تہذیب و شائستگی کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے اور کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتا جس سے یہ کہا جا سکے کہ اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے کہ جس میں نہ فردکی شخصیت نکھرتی ہے اور نہ ہی معاشرہ مثبت تبدیلیوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔یہی معاملہ اس عظیم عبادت کا ہے جسے"حج"کہا جاتا ہے۔

عشق و محبت کا عظیم نظارہ :
                بندہ مومن جب حج کا ارادہ کرتا ہے اسی وقت سے ایک تڑپ اس کو اندر سے بے چین کیے رہتی ہے۔عظیم عبادت کو انجام دینے کی تڑپ، اللہ کے گھر کی زیار ت کی تڑپ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مبارک میں قدم رکھنے کی تڑپ، ابراہیم خلیل علیہ السلام کے بنائے گھر کو دیکھنے کی تڑپ، ان وادیوں،سحراں اور پہاڑوں کے مشاہدے کی تڑپ جہاں ایک عظیم واقعہ رونما ہوا تھا۔اور بندہ مومن کا یہ عشق و محبت اس کو بے چین کیے رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مقام کو نہ پہنچ جائے۔حدود حرم میں داخل ہوتا ہے اور بہت ہی خوبصورت اور قیمتی کپڑے اتار پھنکتا ہے اور دو ان سلی چادریں جو کفن سے مشابہ ہیں، زیب تن کرتا ہے۔پھر جیسے ہی وہ اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے آنکھیں اشک بار ہو اٹھتی ہیں،خانہ خدا میں قدم رکھتے ہی بندہ مومن پتھروں سے بنی ایک عمارت کے گردچکر لگانا شروع کر دیتا ہے۔ایک گوشے میں ایک پتھر نسب دیکھتا ہے جس کی جانب وہ دیوانہ وار لپکتاہے اور بے اختیار چومنے لگتا ہے۔صفا و مروہ کے درمیان دو پہاڑ کہ جن کے درمیان وہ دوڑتا ہے۔پھر وہ اپنے سر کے بال جن کو اس نے اپنی زیب و زینت سمجھ کر بنا سنوار کر رکھتا تھاانہیں استرے سے منڈوادیتاہے۔پھر منا کی طرف بھاگتا،خیمے گاڑتااور عرفات میں شام تک قیام کرتا ہے۔ پتھر کے ستون کو کنکریاں مارتا اور شیطان مردور پر لعنتیں بھیجتا ہے۔اور آخر میں اللہ کی خوشنودی اور جذبہ  للہیت سے سرشار ہوکرجانور کی قربانی کرتا ہے۔اور اس سب کے درمیان اس کی زبان پر جو کلمات رواں ہوتے ہیں وہ بس یہی کہ :"لبیک الھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک،ان الحمد و النعمة لک و المک لا شریک لک"۔ایسے موقع پر دنیاوی فلسفیوں میں سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ رقت و گریہ زاری ، دنیا کی بے ثباتی اور یہ دیوانہ وار فنا فی الرض کی کیفیت کیوں تم پر طاری ہو گئی ہے؟تو اس کے پاس عقلی طور پر جواب نہ بن پڑے گا۔وہ بے ساختگی کے ساتھ اگر کچھ کہے گا بھی تو بس یہی کہ مجھے کچھ پتہ نہیں۔یہ میرے محبوب کا وہ گھر ہے جسے آج میں جاگتی آنکھوںسے دیکھ رہا ہوں ۔یہ وہی گھر اور مقام ہے جس کی آرزو ساری زندگی دل میں پرورش پاتی رہی اور زندگی کے یہ لمحات عمر بھر کی تمنا کا حاصل ہیں۔جن کے لیے میں نے ہزاروں میل کی مسافت طے کی اور سفر کی صعوبتیںو تکلیفیں برداشت کی ہیں۔یہاں عقل نہیں بلکہ عشق و محبت ہے جس نے یہ سب مجھے کرنے پر اکسایا اور میں نے بالکل ویسا ہی کیا جیسے میرے محبوب کی چاہت تھی۔یہاں آکر میں رویا گڑگڑایا،خطاں سے معافی طلب کی اور اس عبادت ِعظیم کو انجام دینے کی ہر ممکن سعی و جہد کی جو میرے ربِ کریم کو پسند ہے۔

مقاصد ِ حج:
                حج کے ذریعے امتِ مسلمہ کی ہر نسل اپنے اسلاف کے کارناموں اور ان کے تاریخی ورثے سے روشناس ہوتی ہے۔وہ جانتی ہے کہ کس طرح ابرہیم ؑ نے اپنے ربِ رحیم کے اشارے پر اپنی بیوی اور بچے کو ایک بنجر وادی میں بسایا، اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی سعی کی، کعبہ تعمیر کیا، لوگوں کو حج کی جانب بلایا ،اور مکہ کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی دعا کی۔ اسی طرح مکے کی پہاڑیاں اللہ کے آخری نبی محمد اورا ن کے جاں نثار ساتھیوں کی جدوجہد، قربانیوں ، ان پر ہونے والے مظالم اور آخر میں ان کی ہجرت کی داستان بیان کرتی ہیں۔ساتھ ہی حج کا مقصد تقوٰی کا حصول ، دنیا سے بے انتہا لگا میں کمی اور روحانیت کو فروغ دینا ہے۔ بندہ اپنے رب کی رضا کے لئے دنیا کی زینت کو خود پر حرام کرتا ہے۔ وہ اپنا میل کچیل دور نہیں کرتا، ناخن نہیں کاٹتا، جائز جنسی امور سے گریز کرتا ، مختصرلباس زیب تن کرتا، برہنہ پا اور ننگے سر ہوکرروحانی مدارج طے کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کا تقرب اس کو حاصل ہو جائے۔ حج ان عبادات کا مجموعہ ہے جس میں نماز ، انفاق ، ہجرت، بھوک و پیاس، مجاہدہ، جہاد، زہد و درویشی ،قربانی، صبرو شکر سب شامل ہیں۔فریضہ حج ان تمام عبادات کو انجام دینے کا موقع کافراہم کرتا ہے جو انسان کی روحانی بیماریوں کے لئے اکسیر کا کام کرتا ہے۔ اسی طرح تکمیل ذات اور تطہیر فکر و عمل بھی حج کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ جس کے ذریعہ انسان کوروحانی تطہیر کا موقع فراہم ہوتا ہے تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنی اصل فطرت پرلوٹ آئے۔ حج مومن کو اس کے ازلی دشمن ابلیس کے خلاف تمثیلی جنگ میں برسرِ پیکار کرتا ہے۔ وہ ابلیس جس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اسے حقیر سمجھا ، جنت سے نکلوایااور پھر دنیا میں گھات لگا کر بیٹھ گیا تاکہ اسے اپنے رب کے سامنے نااہل اور ناکام ثابت کردے۔ حج اسی ازلی دشمن کی شناخت کراتا ، اسکے چیلنج کی یاد دلاتا اور اس کو سنگسار کرکے طاغوتی رغبات کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔

' رمی' اعلان براءت:
                شبِ مزدلفہ وہ شب ہے جبکہ دشمن سے مڈبھیڑ ہونے میں بس اب ایک رات باقی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ عرفات کے میدان سے اگلے مورچے پرجاناجہاں اوپر کھلا آسمان ہے، نیچے کوئی بستر نہیں۔ مگر کیا ہو ا؟ چند لمحوں کی بات ہے پھر یہ شیطان اور نفس کے خلاف معرکہ آرائی ختم ہوگی اور یہ مجاہد خدا کے انعام سے سر فراز ہوگا۔ صبح ہوئی اور تاریکی ختم ہوگئی۔ اسی طرح قیامت کی صبح بھی ہوگی اور ظلم و عدوان کے اندھیرے مٹ جائیں گے۔ آج گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ آج وہ دشمن سامنے ہے جس نے ہمارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا،ان سے پوشاکیں چھین لیں، ہابیل و قابیل کولڑوادیا،اور پھر کثیر خلقت کو شرک ، زنا اور قتل پر اکسا کر خدا کی راہ سے برگشتہ کردیا۔آج یہ حاجی اسی راہ پر ہیں جہاں چار ہزار سال قبل ابراہیم ؑ تھے۔ جب انہوں نے اسماعیل ؑ کو لیا اور انھیں قربان کرنے کے لئے آگے بڑھے۔ اسی اثنا میں ا بلیس آدھمکا اورابراہیم ؑ کے کان میں سرگوشی کی کہ پاگل ہوئے ہو؟ کیا اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروگے ؟ ابراہیم ؑ نے اس پر سنگباری کی اور دھتکار دیا۔ آج اس بندہ خدا کو بھی شیطانی وسوسوں سے مغلوب نہیں ہوناہے بلکہ اسے سنگسار کرکے طاغوت کا انکار کرنا ہے۔کنکریاں مار کر آج اعلان براءت کیا جائے گا۔پھرجب کنکریاں مار دی گئیں تو تلبیہ ختم ہوا کیونکہ شیطان کی ناک رگڑی جاچکی اور رحمان کا بول بالا ہوا ۔

                لیکن ایک لمحہ  کے لیے غور فرمائیں! وہ لوگ جو اس رکن کو انجام نہیں دے رہے ہیں ،یا وہ لوگ جھنوں نے کبھی اس رکن کو انجام دیا تھا ،لیکن اب نہیں دے رہے ہیں ،یا وہ لوگ جو اس رکن کو انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ابھی انجام نہیں دے پا رہے ہیں ،یا وہ لوگ جو انجام دینے کی اسطاعت ہی نہیں رکھتے ۔ایسے تمام لوگ کیا کریں ؟کیا وہ طاغوت کا انکار نہیں کریں گے؟کیا وہ شیطانی وسوسوں سے اسی طرح مغلوب ہوتے رہیں گے جیسا کہ ہو رہے ہیں؟ ایک لڑکی کے ملال میں تو صبح و شام ملامت بھیجیں گےکیونکہ وہ کمسن اورصنف نازک ہے۔ اور ملال ہونا بھی چاہیے کیونکہ واقعہجن لوگوں نے انجام دیا وہ مشکوک ہیں۔لیکن اُن کی ملامت کون کرے گاجو دراصل طاغوتی نظام کے علمبردار،شیطانی وساوس و اعمال کو فروغ دینے والے اور اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف صف بستہ کھڑے ہونے والے ہیں۔آج مسلمانوںکی صورتحال جو کچھ ہے وہ توجہ طلب ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا نا چاہیے۔اوریہ سب شاید اسی لیے ہے کہ یہ عبادات اور ان کو انجام دینے والے مالک حقیقی سے وہ ربط نہیں رکھتے جو مطلوب ہے۔وہ مسجدوں کے اندر تو بندگان خدا بن کررہتے ہیں لیکن مسجد کی چہار دیواری سے باہر وہ بندگان نفس ہیں۔یہ وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ ظالم و جابر لوگوں کا تعاون کرتے ہیں،خصوصاً ان لوگوںکاجو ملتِ اسلامیہ کو منتشر کرنے کے درپے ہیں۔نہ صرف منتشر بلکہ اس کے وجود کو ہی مٹادینا چاہتے ہیں۔ایسے لوگوں کویاد رکھنا چاہیے کہ ان کی نماز اور ان کے روزے ان کی قربانیاں اور ان کے حج کسی کام نہ آئیں گے کیونکہ وہ اپنے افکار و اعمال سے ان لوگوں کی مدد کررہے ہیں جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے خلاف سعی و جہد کرنے والے ہیں۔یہ ظالم و جابر وہی لوگ ہیں جنھوں نے پے درپے انبیاءورسل کا قتل کیا نتیجتاً ان کے حصہ میں گمراہی لکھ دی گئی۔لہذا انبیا و رسولوں کے قاتلوں کی مدداور اس کے نتیجہ میں ایک ذراسا نام و نمود ،نہ اس دنیا میں اور نہ ہی اس دنیا میں کسی کام آئے گا۔ان حالات میں ہمارے لیے لازم آتا ہے کہ کسی بھی واقعہ کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کرکے نہ دیکھا جائے۔کیونکہ جب کسی واقعہ ہی کو نہیں بلکہ قرآن جیسی عظیم الشان اللہ کی کتاب کے کسی جملے کو بھی سیاق و سباق سے الگ کرکے پڑھا ، سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے تو اس کے وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جو ہونے چاہیں بلکہ گمراہ کن لوگ اسی کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اپنے لیے مزید گناہ سمیٹتے جاتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح فریضہ حج و قربانی کی ادائیگی کو انجام دیتے ہوئے اس کے پس منظر اور تقاضوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حج و قربانی ادا کرنے کے باوجودہماری زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہ آئے ۔ایسی صورت میں پناہ مانگنی چاہیے ہر اس کام سے جو لا حاصل و لایعنی ہو۔

vvvvvvv

بدھ، 10 اکتوبر، 2012

دعوت اسلامی کا پھیلتا دائرہ


دعوت اسلامی کا پھیلتا دائرہ

                موجودہ دور میں اجتماعیت سے دوری اُس نظر یہ کی دین ہے جس نے کرہ  ارض میں حریت فکر کے علم برداروں کے ذریعہ انفرادیت کا نظریہ پیش کیا۔اس نظریہ نے فرد کو شتر بے مہار کی طرح مادر پدر آزاد چھوڑ دیا۔جب فرد پر کوئی قدغن نہ رہا تو حالات اور اجتماعی معاملات کا توازن اس قدر ناہمواری اور افراتفری کا شکار ہوگیا کہ رد عمل کے طور پر تاریخی جبریت و جدلیت کے نتیجے میں طبقاتی کشمکش کے حامل اشتراکیت (سوشلزم)و اشتمالیت(کمیونلزم)کے نظریات نے جنم لے لیا ۔یہ وہ نظریات تھے جنھوں نے کرہ عرض کے ایک خطے پر جابرانہ اور قاہرانہ مستبد (despotic)نظام مسلط کیا جس نے فرد سے آزادی چھین لی اور ایک اجماعتی آمریت کے شکنجے میں جکڑ کر روح حریت بری طرح پامال ہوگئی۔پھر جب تجدید احیائے دین کا فریضہ انجام دینے والوں نے اپنا حق ادا کرنے کی منظم کوششیں کیں تو اس کے نتیجہ میں دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں میں اسلامی اجتماعیتیں فروغ پائیں ۔یہ کوشش کرنے والے بہت معمولی قسم کے افراد تھے اس کے باوجودان کے جذبہ عمل و خلوص و للہیت نے ان کی کوششوں کو استحکام بخشااوران کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد میں ہر صبح اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا کی اعلیٰ ترین صلاحتیں رکھنے والے فروغ ِاسلام سے خوف زدہ ہیں۔اس لیے نہیں کہ یہ جماعتیں اور ان کے افراد اور چند ایک نام نہاد اسلامی ممالک کی طاقت و قوت ان کو زیر کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے۔ بلکہ اس لیے کہ اسلام کے طاقتور اور بے لچک اصول اوراس کی کاملیت اور ہمہ گیری کا متبادل سب کچھ رکھنے کے باوجود وہ نہیں رکھتے۔آج امریکہ اور اس کے حواری استعمار ی قوتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلام رسموں اور رواجوں کا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک دین ہے، ایک نظام زندگی اور ایک طرزحیات ہے جو ہر لحاظ سے کامل واکمل ہے۔ اس کی اپنی ایک تہذیب اور نظام معاشرت ہے، اپنا روحانی اور اخلاقی نظام ہے، اپنا ایک نظام سیاست اور نظام اقتصادیات ہے، اپنا عدالتی اور قانونی نظام ہے، غرض سب کچھ اپنا ہے اور کچھ بھی باہر سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ کہیں پر بھی اور کسی بھی مرحلے میں نظام باطل سے لین دین ، مفاہمت اور مداہنت کاکوئی مزاج نہیں رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج اسلام،اسلامی نظام ،اسلامی شخصیات اور ان سے متعلق ہر فکر و عمل کو اپنے ہی چشمے سے دیکھنے پر دوسروں کو مجبور کرر ہے ہیں ۔ اس سب کے لیے ان کے پاس بہت ہی منظم و مربوط اورمضبوط و مستحکم آلہ، میڈیا ہے جس کا وہ بھر پور استعمال کرر ہے ہیں۔ہر جھوٹ کو سچ اور ہر سچ کو جھوٹ بناکر پیش کر رہے ہیں اس کے باوجود وہ کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔اسی کی ایک تازہ مثال فرانس کی وہ گلوکارہ ہے جس نے قبول اسلام کی خبر عام کرکے اپنے غیر مسلم مداحوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔

 گلوکارہ میلنئی جارجیادیس المعروف دیام :
                فرانس میں حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر خواتین کے اسلامی حجاب اوڑھ کر آنے پر پابندی پر بحث کا سلسلہ جاری ہے اور بعض مسلم خواتین کو حجاب اوڑھنے کی پاداش میں سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ایسے میں ایک گلوکارہ نے اپنے قبول اسلام کی خبر عام کرکے اپنے غیر مسلم مداحوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے اور وہ پہلی مرتبہ اسلامی حجاب اوڑھ کر ایک ٹی وی چینل پر نمودار ہوئی ہیں۔ ماضی کی معروف گلوکارہ میلنئی جارجیادیس المعروف دیام سن 2009کے بعد سے پردہ اسکرین سے غائب رہی ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ وہ اس دوران گاہے گاہے حجاب اوڑھ کر منظر عام پر بھی آتی رہی ہیں لیکن ان کے معلومات کے بارے میں کم ہی اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ کہاں روپوش ہو گئی تھیں۔حال ہی میں وہ اپنی نئی شناخت کے ساتھ فرانس کے ٹیلی ویژن چینل ٹی ایف ون کے ذریعے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس ٹی وی چینل کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انھوں نے اپنے ماضی کے بارے میں تفصیل بیان کی ہے۔ وہ ماضی میں اپنا غم غلط کرنے کے لیے منشیات اور نشہ آور ادویہ استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس دوران ان کی اپنی ایک مسلمان دوست سے ملاقات ہوئی اور پھر انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ دیام نے بتایا کہ انھوں نے ایک سال قبل شادی کرلی تھی۔ اب وہ ایک بچے کی ماں ہیں اور وہ اپنے منشیات زدہ ماضی سے بہت آگے نکل چکی ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے قرآن حکیم کو پڑھ کر اور سمجھ کر اسلام قبول کیا تھا۔جب ان سے فرانس جیسے ملک میں حجاب اوڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کو کہنا تھا کہ "میرا خیال ہے میں ایک روادار معاشرے میں رہتی ہوں۔میں تنقید کا برا نہیں مانتی لیکن روایتی قسم کی تضحیک اور برجستہ فیصلوں کو ضور برا مانتی ہوں"۔ اس کے بعد ٹی وی میزبان نے ان سے یہ سوال کی کہ وہ حجاب کیوں اوڑھ رہی ہیں جبکہ بہت سی مسلم خواتین ایسا نہیں کرتی ہیں اور بعض اس کو مذہبی فریضہ بھی نہیں سمجھتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ :"میں پردے کو ایک شرعی حکم سمجھتی ہوں۔ اس سے میرا دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور میرے لیے یہی کافی ہے"۔دیام کہتی ہیں کہ وہ مسلمان ہونے کے بعد سے خوش ہیں۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ:"میں اسلام قبول کرنے سے قبل نشہ آور ادویہ استعمال کیا کرتی تھی اور اپنی نفسیاتی صحت کی بحالی کے لیے ذہنی امراض کے ایک مرکز میں بھی داخل رہی تھی لیکن اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا تھا۔ اس دوران میری دوستوں میں سے ایک سے ملاقات ہوئی اور اس نے بتایا کہ میں نماز کے لیے جا رہی ہوں تو میں نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی"۔ اُس خوشگوار لمحہ اور تجربہ کو یاد کرتے ہوئے دیام بتاتی ہیں کہ:"یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنی پیشانی فرش پر رکھی تھی۔ میں نے اس وقت جو کچھ محسوس کیا، اس سے قبل مجھے کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ اب میرا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکنا چاہیے"۔دیام نے مزید بتایا کہ اس کے بعد وہ موریشس چلی گئی تھیں جہاں انھوں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور اسلام کو بہتر طور پر سمجھا۔ اس دوران ہی انھیں پتہ چلا کہ اسلام سب سے زیادہ روادار دین ہے۔

توجہ طلب پہلو جو سامنے رہنے چاہیے!
                یہ پہلو بہت ہی اہم ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ناپاک عزائم رکھنے والوں کی بے انتہا کوششوں کے باوجود دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے فکر و مزاج یکسر تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام ہی مقامات پر اسلام کی دعوت کے مواقعہ مزید بڑھتے جا رہے ہیں اور عنقریب باطلانہ تصورات کا خاتمہ ہو جائے گا۔لیکن یہ سب اتنا جلد بھی نہ ہوگا کہ جب تک مسلمان خود دوسروں کی طرح تعصبانہ ذہنیت سے پوری طرح پاک نہ ہو جائیں۔ایک تعصب ہمارے ذہنوں میں ہے اور ایک ہمارے معاملات میں، ان دونوں ہی تعصبات سے پاک زندگی جب دوسروں کے سامنے آئے گی اور اسلامی تعلیمات کو بطور فریضہ انجام دیا جائے گا تو یہ دوریاں نزدیکیوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔یہی وہ نزدیکیاں ہوں گی جو ہم کو ایک دوسرے سے واقفیت کا ذریعہ بنےںگی۔اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے والوں کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ دوسروں سے متاثر نہ ہوں یعنی یہ کہ وہ اسلام کو دیگر نظریہ ہائے حیات میں کمتر نہ سمجھیں ۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کے معنی بس یہی ہوں گے وہ خود اُس نظریہ اور اُس کی ہمہ گیریت سے واقف نہیں جس کا پیغام وہ دوسروں تک پہنچا نا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دوسروں کو واقف کرانے کے بعد راست اسلامی عبادات کا مشاہدہ بھی کرائیں۔ان کو قرآن حکیم پڑھنے کے لیے دیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوں کو بیان کریں اور آپ کی عظمت واضح کریں،مساجد میں لے کر جائیں اور مشاہدہ کرائیں کہ کس طرح بندگان خدا اللہ کی عبادت کرتے ہیں،مسجد کا پرنور ماحول ان کے روح و قلب کو ضرور متاثر کرے گی،دین کی وہ تعلیمات جن کا شب و روز کے معاملات سے تعلق ہے،کو فراہم کریں،خوشی اور غم کے مواقعہ پر شرکت کی دعوت دیں تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رونما ہونے والی عبادات کا قریب سے مشاہد ہ کر سکیں۔نفرت انسان یا انسانوں کے گرہوں سے نہ کریں بلکہ ان برائیوں سے کریں جو ان کو عذاب جہنم سے قریب کر نے والی ہیں۔خود ایک پاک باز اور صحت مند سوچ و فکر کے حامل انسان بنیں، اپنے رویوں اور معاملات میں مثبت تبدیلی پیدا کریں اور دوسروں کو ہر درجہ اپنے سے قریب کرنے کی مخلصانہ سعی و جہد کریں۔ہر معاملے میں اللہ کے آگے رکوع و سجود کرنے والے بنیں اور اپنے متعلقین کو بھی اس کار عظیم میں شمار کرتے چلے جائیں۔

                اس کے بر خلاف واقعہ یہ ہے کہ دنیا میںآج مسلمانوں کی بڑی جماعتیں دین ِ حنیف کے پیغام کو عوام الناس کے سامنے پہنچانے میں سرگرم ہیں۔چہار جانب نور اسلام کو پھیلانے کی سعی و جہد کی جا رہی ہے۔پھر بھی افراد جماعت اور ان کے اہل خانہ خصوصاً برصغیر میں منتشر المزاجی کا شکار ہیں۔جماعتوں کے سرکردہ حضرات اپنی انتھک جدوجہد میں مصروف ِ عمل نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ اپنی ضروریات حقیقی کو بھی جابجا قربان کرتے محسوس ہوتے ہیں اس سب کے باوجود وہ اپنے اہل خانہ کو متاثر نہیں کر پاتے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ چند ایک کا معاملہ ہے بلکہ اکثر اسلامی جماعت کے ذمہ داران کو اپنے خاندان میں مایوسی کا ہی شکار ہونا پڑا ہے۔بہت اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟شاید اس کا جواب ان مخصوص لوگوں سے نہیں پوچھا جا نا چاہیے بلکہ اس کا جواب وہ فکر و نظر اور عملی رویہ فراہم کرے گا جس سے نہ صرف مخصوص بلکہ عام افراد بھی کسی نہ کسی درجہ متاثر ہو رہے ہیں۔غلطی فکر و نظر کی نہیں کیونکہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد و فرائض پر مبنی ہے ۔غلطی عملی رویہ اور تربیتی نظام میں ہے جس کی بنا پر فکر و نظر اور عمل میں تضاد رونما ہوتا نظر آرہا ہے۔لیکن کیا اس کے نتیجہ میں اسلامی جماعت سے دوری اختیار کی جا سکتی ہے؟ کیا یہ جواز ہر خاص و عام کو موقع فراہم کر سکتا ہے کہ وہ جماعت سے وابستہ نہ ہو اور انفرادی زندگی گزارے؟کیا ایسا کرنے سے فرد واحد پر عائد ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں؟نہیں ایسا نہیں ہے۔ایک مسلمان کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ انفرادی زندگی گزارے ، ضروری ہے کہ وہ اجتماعیت سے وابستہ ہو اور حصول مقاصد کے لیے اجتماعی سعی و جہد کے ذریعہ اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردے۔

                جو کل گزر چکا وہ ماضی اور تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں وہی ہمارا مستقبل ہے۔نظریہ  انفرادیت اور اس کا اس قدر عروج کہ مذہب کو پس پشت ڈال دیاجانا،یہ ایک افسوس ناک صورتحال تھی۔نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ تباہ و بردار ہوا اور مقصدِ وجودآنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ بگڑی ہوئی فکر سے نہ صرف فردِ واحد کی ذات متاثر ہوئی بلکہ معاشرے اورریاست کی چولیں تک ہل گئیں ۔ دنیا فساد عظیم سے دوچار ہوئی اور لگاتار ہوتی چلی جا رہی ہے۔گلوبلائزیشن نے اس بگڑی ہوئی جدیدیت کو ہر صبح پروان چڑھنے میں مدد کی ہے۔لیکن محسوس ہوتا کہ بلندی کے بعد اب ڈھلان آیا چاہتی ہے جہاں پہنچ کر ایک بار پھر یہ نام نہاد جدیدیت اپنی تباہی کی جانب گامزن ہو جائے گی۔آج جدیدیت کے نام پر فحاشی ، عریانیت اور مادیت فروغ پا رہے ہیں۔اس کے باوجودمادی فکر رکھنے والے نہ ان روشنی کے میناروں میں رمق پاتے ہیں اور نہ ہی ان آرام و آسائش سے مزین آرام گاہوںمیں۔ایک خلش ہے جو اُن کو اندر سے بے چین کیے ہوئے ہے۔ایسے موقع پر اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کو نظریہ اور فکر میں بہت غور و فکر کرنے کی بجائے عملی رویوں میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔خصوصاً ان لوگوں کو جو اسلامی کاز کے لیے اپنی پسند اور نا پسند قربان کر چکے ہیں۔ اورجو اس حدیث کی زندہ مثال بننے کی اپنے سینوں میں خواہش رکھتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا "جس شخص نے اللہ (کی رضا ) کے لیے محبت کی ،اللہ کے لیے غصہ کیا،اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے نہ دیا اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا"(ابوداود) ۔اور کہا کہ :" ایمان کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی ہو،اللہ کے لیے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ کے لیے بغض ہو"(طبرانی)۔ یہ محبت اور غصہ اور یہ لینا اور دینا یہ دوستی اور دشمنی صرف افراد ہی سے متعلق نہیںبلکہ اعمال سے بھی تعلق رکھتی ہے۔لہذا اعمال کے دوراہے پربھی یہ احادیث پیش نظر رہنی چاہیں۔اگر ایسا ہوگا تو بہت جلد انشااللہ ہم انفرادیت سے اجتماعیت کی جانب گامزن ہو جائیں گے اور پھر جو اس کے نتائج دنیا کے سامنے آئیں گے اس سے ہر نفس بذات خود مطمئن نظر آئے گا!

vvvvvvv

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...