society لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
society لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 26 دسمبر، 2012

نعرہ آزادئ نِسواں کی آڑ میں!


نعرہ  آزادئ نِسواں کی آڑ میں!

                معاشرے میں موجود لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی فرد کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچائیں کیونکہ ہر شخص قابل عزت و قابل قدرہے ۔ساتھ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرہ میں خوشگوار ماحول پروان چڑھانے میں اپنا بھر پورکردار ادا کریں۔اس کے برخلاف عمل کے نتیجہ میں نہ صرف معاشرہ بلکہ اقوام ِ وقت بھی ہلاک ہوجائیں گی۔لیکن معاملہ یہ ہے کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت اس پہلو پر نہ غور کرتی ہے اور نہ ہی عمل۔یہاں غور و فکر سے مراد عمل تبدیلی سے ہے نہ کہ اس پر مذاکرے، بحثیں،دھرنے ،ریلیاں اور اسی طرز کی دیگر سرگرمیاں۔ہمارے درمیان چند معصوم مسلمان ذہنوں کی سوچ ہے کہ اگر فرد بذات خود ٹھیک ہو جائے تو نہ صرف مسلم معاشرہ بلکہ ملک و ملت کے دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔جس کے نتیجہ میں بھلائیاں فروغ پائیں گی اور برائیاں ختم ہو جائیں گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرہ میں فی الوقت موجود برائیاں کیا صرف مسلمانوں میں ہی پائی جاتی ہیں؟اور کیا خود ہی وہ اس کے پوری طرح ذمہ دار بھی ہیں؟فرداً فرداً اگر وہ اپنے آپ کو ٹھیک بھی کرلیں تو کیا اس سے معاشرہ اور ملک و ملت کے مسائل واقعی حل ہو جائیں گے ؟ یا یہ چہار جانب پھیلی برائیاں،مسائل اور چیلیجز جوعملی سطح پر ہی نہیں فکری سطح پر بھی ہیں، اس میں مسلمانوں کی حیثیت بس ایک فریق کے سوا کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے تمام معاملات میں مسلمان کوئی خاص رول نہیں رکھتے۔موجودہ تعلیمی نظام اور اس کی فکر و نظر، موجودہ سیاسی نظام اور اس کی بد اخلاقیاں ، موجودہ معاشی نظام اور مکمل طور پر سود پر مبنی معیشت،موجودہ معاشرتی و تمدنی نظام اور اس کے گنجلک نظریات،یہ تمام نظریہ ہائے افکاراسلا م کے دیے ہوئے نہیںہیں۔نہ صرف اسلام بلکہ مسلمانوں کا بھی کوئی رول اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ موجودہ قوانین پر عمل کر رہے ہیں۔پھر کیسے ممکن ہے کہ ان تمام افکار و نظریات کو پڑھنے، ان پر تحقیق کرنے،ان سے نبرد آزما ہونے،ان کو زندگی کے شب و روز کا حصہ بنانے کے باوجود مسلمان یا دیگر اقوام،صرف مسلمانوں کے ٹھیک ہو جانے سے ظلالت و گمراہی سے نجات پا لیں گی؟اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ عقیدے کی حد تک موجودہ نظام پر یقین رکھنے والے لا علم اورفکر و نظر سے کھوکھلے مسلمان اپنی روز مرہ کی زندگی میں یا معاشرے میں کوئی اہم رول ادا کر سکیں ؟چند عبادات تک سمٹے ہوئے لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تبدیلی فکر و نظر اور نظام حیات میں تبدیلی کی جرت و حیثیت رکھتے ہیں،ایک غیر فطری توقع تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقی نہیں۔اس کے باوجود کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اللہ اوررسول کے احکامات کو نہ اپنی زندگی میں اور نہ ہی اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کی سعی و جہد کرتے ہیں۔اور اگر ٹوٹی پھوٹی فکر پا ئی بھی جائے تو جامع پالیسی و پروگرام کے بغیر۔ان حالات میں ضرورت ہے ایک ایسی پختہ فکر،پالیسی اور پروگرام مرتب دیا جائے جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقوام کے افراد بھی تعاون و شراکت داری کے ساتھ تبدیلی کے لیے کوشاں ہوں۔آج یہ بحث زور پکڑ تی جا رہی ہے کہ اسلامی تعلیمات ، اسکا نظام و طریقہ ہائے زندگی کیا صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص و محدودرہنا چاہیے یا دیگر ممالک اور ان کے قوانین میں بھی ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟حالات کے مثبت پہلوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو چاہیے کہ مکمل طور پر فکری اور عملی میدان میں اسلامی تعلیمات کو نہ صرف پوری طرح سے واضح کردیں بلکہ اس کے قیام و بقا کے لیے بھی سرگرم عمل ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج "جدیدیت"اس نظام فکر و نظر کی علامت بن گئی ہے جو فی الوقت رائج ہے اور جس کے قبضہ میںقوت و اقتدار بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر میدان میں جدیدیت کا غلبہ ہے۔ وہ تعلیمی میدان ہویاسیاسی ، معاشی ہو یا معاشرتی و تمدنی ہر میدان میں قوت و اقتدار رکھنے والا طبقہ جدیدیت کو اختیار کرنے میں نہ صرف عزت بلکہ اس کے تراشے و سنوارے لبادے میں ہر قسم کی خوشی بھی محسوس کر تا ہے۔برخلاف اس کے عام طبقہ جسے "عوام"کہتے ہیں ، فکر ِ جدیدیت کے نتیجہ میں رونما ہونے والے واقعات سے بہت حد تک اکتا چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہحالیہ دہلی آبروریزی معاملہ میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اسلامی قوانین کو لاگو کرنے کی بات کر رہی ہے۔اندرونی کسک و جذبات نہ صرف دہلی کے بلکہ پوری دنیا کے ہیں۔کیونکہ انسان ہمیشہ ہی امن پسند رہا ہے اور اسلام و اسلامی قوانین امن کے علمبردار۔
پرانا واقعہ نئی تاریخ کے ساتھ:
                16دسمبر2012ءکی رات ملک کی راجدھانی دہلی میںایک درد ناک واقعہ طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کا سامنے آیا۔پولیس نے6وحشیانہ حرکت میں ملوث بدمعاشوں میں سے 4کو چوبیس گھنٹوں میں گرفتار کر لیا۔گرفتار شدگان میں بس کا ڈرائیور رام سنگھ، اس کا بھائی مکیش، جم انسٹرکٹر ونے شرما اور پھل فروش پون گپتا شامل ہیں۔اور جلد ہی دیگر دو بدمعاشوں کی شناخت بھی کر لی گئی۔ دریں اثنا دہلی کی ایک عدالت نے ملزم بس ڈرائیور کو آج5دنوں کی پولیس حراست میں بھیج دیا ۔ دہلی پولیس نے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نمرتا اگروال کی عدالت سے کہا کہ گرفتار دیگر 3ملزمین رام سنگھ کے بھائی مکیش، جم انسٹرکٹر ونے شرما اور پھل فروش پون گپتا کو عدالت میںپیش کیا جائے ۔دہلی پولیس نے کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ اس معاملے کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت میں ہو، جہاں پولیس عدالت سے مجرموں کے لیے سخت سے سخت سزا یعنی عمر قید کی اپیل کرے گی، جس سے اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو سبق مل سکے۔دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظمیں،سماجی تنظیمیں اور سرکردہ حضرات نے اظہار افسوس و ملامت کی۔احساسات کے اظہار کے لیے ریلیاں اور مظاہرے کیے،پولیس، انتظامیہ اور حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے اور مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے پر زور ڈالا۔ایوان بالا سے درخواست کی کہ آبروریزی جیسے معاملات جو ملک میں ہر دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں ،کے لیے سخت سے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔سرکردہ لوگوں نے عمر قیداورپھانسی جیسی سزائیں تجویز کیں۔ریاست دہلی کی چیف منسٹر نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ اس تعلق سے خصوصی توجہ دیتے ہوئے سخت قوانین اور انتظامات کی سعی و جہد کریں گی۔اجتماعی آبروریزی میں ملوث طالبہ کی صحت تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے۔مختلف آپریشن کے بعد بھی وہ صحت یاب ہوتی نظر نہیں آتی اور ہو بھی جائے تو ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا جسم پوری طرح صحیح ہونے میں بہت وقت لگے گا۔یہ ہے وہ صورتحال جو صرف ایک واقعہ کے پس منظر میں ہمارے سامنے آیا ہے نہیں تو کتنی ہی طالبات ، بچیاں و خواتین اس عذاب میں آئے دن مبتلا ہوتی رہتی ہیں۔

نعرہ آزادئ نسواں کی آڑ میں:
                اخلاقیات سے آزادمغربی دنیا جن نعروںکو بلند کرتی ہے ان میںسر فہرست آزادی نسواں ہے۔ اس کا مطلب قید سے آزادی بھی ہے اور اخلاقی اصولوں سے آزادی بھی ہے۔ اس لئے کہ اخلاقی اصول بھی انسان کو چند چیزوں کا پابند بناتے ہیں۔لہذا اس نعرے میں مرد جو قوام بنائے گئے ہیں ان کی قوامیت سے آزادی بھی ہے تو وہیں معاشرے میں جو حدود عورت کے لیے متعین کیے گئے ہیں ان سے بھی آزادی ہے۔عورت جو شوہر کے تئیں وفاداربنائی گئی ہے اس وفاداری سے بھی آزادی ہے تو وہیں معاشرہ میں اختلاط مرد وزن میں جو ایک مخصوص دوری قائم کی گئی ہے اس سے آزادی بھی ہے ۔ حکومت و سیاست میں مرد کے زیر نگیں آزادی بھی ہے اورمذہب جو افکار و نظریات اور میدان عمل میں حدود متعین کرتا ہے اس سے آزادی بھی ہے۔پھر یہ نعرے نہ صرف نظریاتی یا فکری حد تک ہیں بلکہ عملی میدان میں بھی وہ مثالیں قائم کی گئی جو بطور شہادت پیش کی جا سکیں۔آج "آزادی نسواں" کے نعروں کی آڑ میں عورت کو سرم عام بازار کا کھلونا بنا دیا گیاہے ۔ساتھ ہی ایک شے جو بازار میںفروخت کی جا سکے نیز جسکاکھل کر استحصال کرنا بھی ممکن ہو۔واقعہ یہ ہے کہ یہ پاکدامن، عفت و عصمت کی علمبردار عورت کھلے عام نیلام ہو رہی ہے اور وہ ان حالات سے باخوبی واقف بھی ہے۔ اس کے باوجوداس نے ان خوبصورت نعروں کی زینت بننا پسند کیا اور مسلسل کیے جا رہی ہے۔دیکھنا یہ چاہیے کہ مختلف مذاہب و تہذیب سے تعلق رکھنے والی یہ عورت اپنے رویہ میں تبدیلی کیوں نہیں لا رہی ہے۔کیا اس کی بھی کوئی معقول وجہ ہے؟معلوم ہوا کہ ایک طرف عورت کو بازار میں سر عام بے عزت کیا جاتا ہے تو وہیں دوسری طرف گھروں میںلڑکے اور لڑکیوں میں تفریق کی جاتی ہے۔مختلف انداز میں ہر مقام پر ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے ۔کبھی شوہر اوردیگر رشتے داروں کے ذریعہ رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جو جانوروں سے بھی بڑھ کر نہ صرف اُن پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں بلکہ معمولی جہیز کی خاطر انھیں زندہ جلادینے تک سے گریز نہیں کرتے۔یہ اور ان جیسے بے شمار ظلم و زیادتیوں کے واقعات ہی دراصل وہ پس منظر ہے جو عورت کو آزادی  نسواں کے نعروں کو پسند کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔پھر ان نعروں کی آڑ میں کہیں زمانہ حال کی ماری ہوئی تو کہیں عزت و ذلت سے ناواقف عورت ان تمام امور کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتی جو آج رائج ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان نعروں کو بلند کرنے والے ،ان پر عمل کرنے والے اور ان کوفروغ دینے والے مسائل کا رونا نہیں روتے،لیکن پھر بھی وہ روتے ہیں، درد محسوس کرتے ہیں اور مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔تو چاہیے کہ ان حالات میں نہ صرف ان مخصوص لوگوں کے سامنے بلکہ عوام الناس کے سامنے بھی اس مالک برحق اللہ رب العزت کی تعلیمات کو عام کیا جائے جس نے ان تمام مسائل کا حل بہت پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔

متذکرہ واقعہ کے برخلاف:
                راجدھانی دہلی کے حالیہ واقعہ کے برخلاف یہ دوسرا واقعہ امریکی ریاست اریزونا کا ہے ۔جہاں امریکی پولیس نے ایک یمنی طالب علم پر جنسی تشدد کی کوشش کے الزام میں پانچ امریکی طالبات کو حراست میں لیا ۔ حکام کے مطابق حال ہی میں ریاست اریزونا میں ایک کالج میں زیر تعلیم پانچ لڑکیوں نے اپنے ہم کلاس ایک یمنی طالب علم عصام الشرعبی کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کے بعد اندر سے تالے لگا دیے اور اپنے کپڑے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔تاہم عصام کھڑکی سے چھلانگ لگاکر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ عصام کی اطلاع پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر پانچوں لڑکیوں کو حراست میں لے لیا۔ ان کے خلاف جنسی تشدد کی پاداش میں مقدمہ درج کر لیا ۔ ذرائع کے مطابق تفتیش کے بعد پانچوں لڑکیوں نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ عصام شرعبی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہے، جس پر انہوں نے اسے رضاکارانہ طور پر کئی مرتبہ جنسی تعلقات کی پیشکش کی تھی، اُس نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی تھی کہ وہ ایک دیندار مسلمان نوجوان ہے اور اس کا مذہب اسے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ امریکی ریاست اریزونا میں وہ مقام ہے جہاںہر تعلیمی سال کے اختتام پر کم و بیشپانچ ہزار طالبات عریاں دوڑ میں حصہ لیتی ہیں۔

دو متضاد واقعات کیوں؟
                پہلا واقعہ ان حالات کی عکاسی کرتا ہے جس نے انسانوں کو بے لگام حیوان بنا دیا ہے۔برخلاف اس کہ دوسرا واقعہ بھی تقریباًوہی ہے فرق بس اتنا ہے کہ چہار طرفہ پھیلی ظلالتوں میں کچھ لوگ آج بھی عقیدے اور عمل کے میدان میں مستحکم ہونے کی بنا پر ان گندیوں سے پرہیز کرنا پسند کرتے ہیں جو درحقیقت دنیا و آخرت دونوں میں ہی نقصان دہ ہیں۔یہ کچھ لوگ کون ہیں اور ایسا کیوں کرتے ہیں؟وجہ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ جس عقیدہ اور نظریہ پر قائم ہیں وہ حاکم برحق کا عطا کردہ ہے جس نے نہ صرف انسانوں کو پیدا کیا بلکہ انھیں صراطِ مستقیم بھی عطا کیا۔پہلے اور دوسرے واقعہ میں ظلم و تشدد کرنے والے نیز ظلالت و گمراہی میں مبتلا انسان اور انسانوں کے گروہ کسی مخصوص علاقہ،نظریہ،فکر اور عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتے اس کے باوجود وہ دونوں ہی اللہ وحدہ‘ لا شریک اور اس کے رسول کی تعلیمات سے دور بھاگتے ہیں۔کبھی لاعلمی کی بنا پرتو کبھی علم ہونے کے باوجود زمانہ  وقت یا نفس امارہ کے دبا میں آکر۔پھر یہی وہ لوگ بھی ہیں جن کے قبضہ میں قوت و اقتدار ہے۔قوت و اقتدار کی بنا پر ان لوگوں نے تعلیم و تربیت کا نظام کنڈر گارڈن سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک جوقائم کیا ہوا ہے،نتائج کے اعتبار سے نہایت عبرتناک ہے۔پھریہی وہ لوگ ہیںجو تعلیمی ادراوںکے ماحول اور فضا کو رخ دینے والے،طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے حقیقی جذبات سے کھلواڑ کرنے والے،بدکاریوں پر ابھارنے والے اور بدکاریوں کو خوشنما انداز میں پیش کرنے والے،فیشن کی آڑ میں ننگ و عار کو فروغ دینے والے،انٹر نیٹ،فلموں اور ٹی وی سیریلز کے ذریعہ عریانیت اور فحاشی کو بڑھاوا دینے والے، مقاصد کے حصول کے لیے پرنٹ و الیکڑانک میڈیاکا بھر پور استعمال کرنے والے ہیںاوروسائل پر بے ساختہ دولت صرف کرنے والے اور ۔ان حالات میںاگر چند نفوس اللہ وحدہ لا شریک اور اس کے حبیب ِ رسول پر ایمان رکھنے والے اور احکا م الٰہی پر عمل پیرا رہ نظر آجائیں تو یہ اس حقیقی علم اور اس پر پختہ یقین کا نتیجہ ہی کہلائے گا جو چہار طرفہ پھیلی ظلالتوں کی دلدل سے بچے رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔یہ وہی علم ہے جو خالقِ جن و انس اور مالک رب العالمین کا دیا ہوا ہے،یہی وجہ ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوکر انسان شرف و منزلت کے ادوار طے کرتا ہے،دنیا امن کا گہوارہ بنتی ہے اور ایک بہتر معاشرہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔

vvvvvvv

جمعرات، 30 اگست، 2012

ہمارے معاشرتی مسائل اور یہ انڈیا اگینسٹ کرپشن والے


ہمارے معاشرتی مسائل اور یہ انڈیا اگینسٹ کرپشن والے

        اللہ نے آدمؑ کو پیدا اور ساتھ ہی آزمائش میں بھی ڈال دیا۔مقصود یہ تھا کہ آیا تم ہمیشگی جنت کے مستحق ہو سکتے ہو یا نہیں۔یا پھر گناہ کی پاداش میں ربِ رحیم سے معافی اور غلطی پر ندامت کی شکل میں دعا گو ہوگے اور وہ خدا جس نے تم کو پیدا کیا اپنی بے انتہا رحمتیں تم پر نازل کرے گا۔تم سے جو غلطی سرزد ہوئی اور جس احساس ندامت کے ساتھ تم دعا گو ہوئے اس کے نتیجہ میں وہ تم کو معاف کرے گا اور جنت جو درحقیقت تمہارے لیے ہی بنائی گئی ہے اس میں تم دوبارہ داخل کردیے جا گے۔ یہ وہ مقام ہوگاجہاں تمہیں لافانی زندگی عطا کی جائے گی اوروہاںاللہ تم سے خوش اور تم اللہ رب کریم و ذلجلال کی لازوال نعمتیں پاکر خوش ہو جا گے۔لیکن صورت واقعہ یہ ہے کہ اس سب کے لیے اللہ رب العزت نے ایک اصول طے کر دیا ہے۔اگر اس پر عمل کروگے تو ہی اس کی نظر کرم کے مستحق ٹھہرو گے بصورت دیگر تم ظالم و معصیت زدہ لوگوں میں شمار کیے جا گے۔نتیجہ یہ نکلے گا کہ نہ تم دنیا میں ہی کامیا ب ہوسکو گے ہو اور نہ ہی آخرت میں۔ اصول کی پہلی شرط:وحدانیت کے عقیدہ پرعمل پیرا ہونا ہے۔ تو دوسری:جس زمانے میں بھی تم ہو زمانے کے نبی کی تعلیمات پر عمل آوری۔اب جو شخص ان دو شرطوں پرکاربند ہو گا وہ زمانے کے نبی کی امت میں ٹھہرے گا اور نبی کی پیروی اس پر لازم آئے گی۔یہ زمانہ آخری زمانہ ہے اور اس آخری زمانہ میں اللہ نے اپنے محبوب نبی محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو اس امت کا نبی و رسول بناکر بھیجا ہے۔اور اسی نبی محمد نے اپنے آخری حج کے موقعہ پر امت ِ محمدیہ جو موجود تھی اور جو نہیں اس کو یہ پیغیام پہنچا دیا کہ جب تک تم اللہ کی کتاب قرآن اور محمد کی سیرت کو اپنا اسوہ بنا گے تم کامیاب ٹھہرو گے اور جب اس سے انحراف برتو گے تو ناکام و نامراد۔ان حالات میں ذمہ داری ہے ان لوگوں کی جو نبی کی امت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے بھی اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔تب ہی ممکن ہے کہ مسائل جن سے دنیا دو چار ہے وہ نجات پا سکے، امن و امان قائم ہو، اللہ کی زمین پر اللہ کی کبرائی بیان کی جائے اور یہ لوگ بھی اللہ اور اس کے نبی کی بشارتوں کے مستحق ٹھہریں۔
ایک دردناک حادثہ:
        تھانہ بنڈا کے گاں کلیان پور بھارتی میں دو بیٹوں نے اپنے والد کو لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر ہاتھ پیر توڑ ڈالے اور قریب ایک گھنٹہ تک تڑپنے کے بعد اس نے دم توڑ دیا۔ واردات کے بعد دونوں بیٹے فرار ہو گئے۔ مقتول کے معذور بیٹے نے واردات کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ اطلاع کے مطابق قتل کی یہ واردات تھانہ بنڈا کے گاں کلیان پوربھارتی میں گزشتہ ہفتہ کی شام قریب 7بجے پیش آئی۔ گاں میں رام کیشن (60)کے پاس 24بیگھہ کھیتی تھی۔ اس کے چار بیٹے پربھو دیال، روپ دیال، پرمیشور دین و مکیش ہیں۔ روپ لال معذور ہے۔ رام کیشن کی اہلیہ کی کئی سال قبل موت ہو چکی ہے۔ معذور روپ لال نے پولس کو بتایا کہ قریب دو ماہ قبل اس کے والد رام کیشن نے سات بیگھہ کھیتی کی زمین کسی شخص کے ہاتھ آٹھ لاکھ روپے میں فروخت کردی تھی۔ اس رقم کو اس نے بینک میں جمع کردیا تھا کچھ رقم اپنے پاس رکھ لی ۔ اس رقم سے وہ شراب اور رشتہ داروں میں جاکر فضول خرچی کر نے لگا۔ قریب پندرہ روز قبل کنبہ والوں کو زمیں فروخت کرنے کا علم ہوا۔ جس پر پربھو دیال و پرمیشر دین نے والد رام کیشن سے ناراضگی دکھائی تھی اور بچی ہوئی رقم سے زمین خریدنے کا دبا بنانے لگے۔ جس پر رام کیشن نے نہ صرف زمین خریدنے سے منع کر دیا بلکہ باقی زمین بھی فروخت کرنے کا انتباہ کیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ کی شام قریب ساتھ بجے باپ بیٹوں میں اسی بات کو لے کر کہا سنی ہو گئی ۔ رام کیشن نے کہہ دیا کہ وہ اب ساتھ بیگھہ زمین اور فروخت کرے گا۔اس پر پربھو دیال اور پرمیشور دین مشتعل ہو گئے اور دونوں بھائیوں نے لاٹھیوں سے معمر والد پر حملہ کر دیا۔ معمر والد چینختا چلاتا رہا لیکن دونوں بھائیوں کو رحم نہیں آیا۔لاٹھیاں مارمار کر اس کے ہاتھ پیر توڑ ڈالے۔ اس کے بعد دونوں گھر سے فرار ہو گئے۔ قریب ایک گھنٹہ تڑپنے کے بعد رام کیشن نے دم توڑدیا۔ معذور روپ لال اسے علاج کے لیے بھی نہیں لے جا سکا۔ اس واردات سے گاں میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔ اطلاع پاکر موقع پر پہنچی پولیس نے جائع وقوعہ کا معائنہ کرنے کے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔ پولیس نے روپ لال کی تحریرپر واردات کی رپورٹ درج کر لی ہے اور فرار دونوں بیٹوں کی سرگرمی سے تلاش کر رہی ہے۔
واقعہ کوئی انوکھا نہیں ہے:
        واقعہ تکلیف دہ، قابل مذمت اور خاندان اور معاشرتی نظام پرسوال پیدا کرنے والا ہے۔اس کے باوجود یہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔مال و دولت اور زمین و جائداد کے نام پر ملک ِ عزیز میںہر دن لا تعداد واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔کچھ واقعات خبروں کی شکل میں اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں اور بقیہ متعلقہ گھر،خاندان اور محلہ والوں کے علم میں آتے ہیں۔اس کے باوجود نہ گھر والے، نہ خاندا والے،نہ محلہ والے اور نہ ہی معاشرہ ان کا حل تلاش کرتا ہے۔بس ہوتا ہے تو اتنا کہ مجرمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی جاتی ہے، پولیس اور متعلقہ افراد اس واقعہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔بات ذرا آگے پہنچتی ہے تو کورٹ کچہری والے بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یوں یہ معاملات شب و روز کے معمولات میں سے ایک بن جاتے ہیں۔کہیں جہیز کے نام پر مظلوم عورتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو کہیں لڑکی کی پیدائش پر عورتوں سے نازیبا معاملات کیے جاتے ہیں اور اس طرح بے شمار معا ملات سے گھرا ہمار ا معاشرہ نظر آتاہے۔معاملہ یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں مظالم خوبصورت ناموں سے کیے جا رہے ہیں کہیںحقوق انسانی کے نام پرغیر فطری جنسی تعلقات ،قائم مقام مادریت(Surrogate Motherhood)، غیر فطری بنیادوں پرنعرہ حقوق نسواں ،مادہ پرستی اور شہوت پرستی اور اخلاط و مرد و زن جیسے مسائل ہیں تو کہیں امن و امان کے قیام و استحکام کے نام پرملکوں پر بم باری اور ملک اور اہل ملک کو در بدر کرناجیسے کام انجام دیے جا رہے ہیں۔ان حالات میں سوچنا چاہیے کہ وہ کون سا نظریہ اور طریقہ کار ہوگا جو صحیح بھی ہو، لوگوں کا استحصال بھی نہ کرے اور مسائل کا صحیح تدارک بھی پیش کر سکے۔ساتھ ہی معاشرہ کو اخلاقی اور قانونی حدود کا پابند بنائے اور موجودہ معاشرتی،خاندانی اورتمدنی بگاڑ پر بھی گرفت بنا سکے۔ سوال اٹھتے ہی سماعت و بصارت رکھنے والے چہار جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ان آوازوں کی جانب بھی جودعویدار ہیں کہ ان کے پاس حل موجود ہے اور ان لوگوں کی جانب بھی جن کا زمانہ جدید ساتھ دے رہا ہوتا ہے۔
اور یہ فی الوقت جو ہندوستان میں تحریکں برپا ہیں:
         گزشتہ دو سال سے یہ جو عوامی تحریکیں کہلانے والی آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ بھی انہیں حالات کا پس پردہ ہیں یعنی یہ کہ مال و دولت سے جب غلط بنیادوں پر تعلق استوار کیا جائے گا تو اس کے نتائج بھی غلط ہی ثابت ہوں گے۔لوگ ملک کی دولت کو ناجائز طریقوں سے حاصل کریں گے بلکہ لوٹیں گے اور پھر اس دولت کو نہ یہ کہ ملک کے اندر ہی بلکہ دوسرے ملکوں کے بینکوں میں بھی جمع کریں گے ۔گھپلے اور گھوٹالے کریں گے اور کروائیں گے اور ساتھ ہی دولت کو عیاشی، ناجائز کاموںاور غنڈہ گردی میں صرف کریں گے۔کیونکہ آج ہر شخص ضرورت سے زیادہ مال و دولت کی دھن پڑگیا ہے۔لہذا پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں ہی یکساں طور پر چہار جانب پھیلی عیاشیوں میں بدمست ہواچاہتے ہیں۔ملک کی دولت چند مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ دیگر دوسروں کا استحصال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔غربت و افلاس کی آندھیاں تیزرفتاری کے ساتھ چل رہی ہیں،چہار جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے،ملک اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر ہے، ان حالات میں چند لوگ اس آواز کے ساتھ کہ وہ کرپشن اور کالا دھن اور اسی طرح سے ناجائز انداز سے لوٹی ہوئی دولت کو ملک اور اہل ملک کو واپس دلائیں گے، اٹھتے ہیں۔لیکن پھر ان کے معاملات پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں یا پھر ان کے حالات سے واقف ہوتے جاتے ہیں۔یہ لوگ خود بیرونی اور داخلی طور پر انتشار کا شکار ہوتے ہیںاور اس طرح ان پر بھی اعتماد مدھم پڑتاجاتا ہے۔گرچہ یہ لوگ صرف ایک ہی مسلہ کو لے کر اٹھے تھے جس میںاننا ہزارے،بابا رام دیو، اروند کجری وال اور کرن بیدی کے نام قابل ذکر ہیںمگر اب وہ بھی ایک ایک کرکے الگ ہوتے جارہے ہیں۔پہلے اننا اور رام دیو الگ ہوئے تو اب انڈیا اگینسٹ کرپشن مہم میںکجری وال اورکرن بیدی الگ۔سوال یہ نہیں ہے کہ کون کس کو الگ کر رہا ہے اور وہ کیوں ایک دوسرے سے الگ ہو رہے ہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے خود کے ذاتی مفاد کیا کچھ تھے اور ہیں؟اور یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ آج تک ان لوگوں نے عوامی مسائل کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔جس کی زندہ مثال حالیہ ملک کی بیس فیصد اقلیت کے مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کر نا اور خاموشی اختیار کرنا ہے۔چونکہ عوامی تحریکیں عوام سے متعلق ہوتی ہیں اور ان کے مسائل کو ایڈرس کرتی ہیں ،ان پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز اٹھا تی ہیں اور ان کے حقوق کی باز یابی کے لیے سرگرم ہوتی ہیںلیکن اس نام نہاد عوامی تحریک نے ایساکچھ نہیں کیا۔ایک پارٹی دوسری پارٹی کو زیر کرنے میں مصروف ہے اور چندپیادے ہیں جو کبھی ایک پارٹی کے لیے کام کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی دوسری پارٹی کے لیے۔ان حالات میں بڑے مسائل تو خود بہ خود ہی دب جاتے ہیںجبکہ معمولی اور کمتر مسائل بھی وہ حل نہیں کرپاتے!

حالات اسی بات کے متقاضی ہیں:
         حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک اور اہل ملک کو اسلامی تعلیمات سے قول و عمل کی شہادت دیتے ہوئے واقف کیا جائے۔گرچہ اسلامی تعلیمات کے علمبردار خود اسی کیچڑ میں لت پت نظر آتے ہیں جس میں دیگر ۔ اس کے باوجودیہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس اللہ رب العالمین کی صحیح ، واضح اور برحق تعلیمات ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو علم رکھتے ہیں، واضح ہدایات ،تعلیمات،تنبیہات اور سرخ روئی و کامیابی کی بشارتیں بھی جبکہ دوسروں کا معاملہ اس کے برخلاف ہے۔وہ نہ علم ہی رکھتے ہیں اور نہ ہی عمل لہذا ایسی صورت میں ان سے کوئی خاص توقع نہیں کی جا سکتی۔بات کے آغاز میں بیان کیے واقعہ اور موجودہ ہندوستان میں عوامی تحریکیوں کی آوازیں جن مسائل سے دوچار ہیں ان کے لیے اللہ کے رسول کی یہ تعلیم و راہنمائی قابل توجہ ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"ہر امت کے لیے ایک آزمائش ہے (یعنی ایسی چیز جس کے ذریعے سے اسے آزمایا جاتا ہے)اور میری امت کے لیے فتنہ (آزمائش)مال ہے"(ترمذی)۔یہاں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی آزمائش کے ہیں۔جس کو جس چیز سے آزمایا جائے وہ اس کے لیے فتنہ ہے ۔ اس اعتبار سے قرآن مجید میں اولاد اور مال کو بھی انسانوں کے لیے فتنہ کہا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی نعمتیں ہیں۔لیکن چونکہ ان نعمتوں کے ذریعہ سے انسانوں کی آزمائش ہوتی ہے، اس لیے انھیں فتنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس حدیث میں امت محمدی کے لیے سخت تنبیہ ہے کہ وہ مال کی محبت میں اعتدال کو ملحوظ رکھیں ورنہ وہ اس آزمائش میں ناکام ہو سکتی ہے۔ اور یہ مال،جو نعمت الہٰی ہے اس کے لیے عذابِ شدید کا باعث بن سکتا ہے۔بس یہی ایک حدیث دونوں واقعات کے لیے کافی ہے اور یہی اس کا حل بھی ۔لیکن یہ حل وہ نہیں جانتے جو لا علم ہیں۔ یہ حل ان لوگوں کو پیش کرنا ہے جو علم کے ساتھ ساتھ یقینِ کامل بھی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اعمال ان کے علم کے عکاس ہیں!

vvvvvvv

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...