بدھ، 26 دسمبر، 2012

نعرہ آزادئ نِسواں کی آڑ میں!


نعرہ  آزادئ نِسواں کی آڑ میں!

                معاشرے میں موجود لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی فرد کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچائیں کیونکہ ہر شخص قابل عزت و قابل قدرہے ۔ساتھ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرہ میں خوشگوار ماحول پروان چڑھانے میں اپنا بھر پورکردار ادا کریں۔اس کے برخلاف عمل کے نتیجہ میں نہ صرف معاشرہ بلکہ اقوام ِ وقت بھی ہلاک ہوجائیں گی۔لیکن معاملہ یہ ہے کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت اس پہلو پر نہ غور کرتی ہے اور نہ ہی عمل۔یہاں غور و فکر سے مراد عمل تبدیلی سے ہے نہ کہ اس پر مذاکرے، بحثیں،دھرنے ،ریلیاں اور اسی طرز کی دیگر سرگرمیاں۔ہمارے درمیان چند معصوم مسلمان ذہنوں کی سوچ ہے کہ اگر فرد بذات خود ٹھیک ہو جائے تو نہ صرف مسلم معاشرہ بلکہ ملک و ملت کے دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔جس کے نتیجہ میں بھلائیاں فروغ پائیں گی اور برائیاں ختم ہو جائیں گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرہ میں فی الوقت موجود برائیاں کیا صرف مسلمانوں میں ہی پائی جاتی ہیں؟اور کیا خود ہی وہ اس کے پوری طرح ذمہ دار بھی ہیں؟فرداً فرداً اگر وہ اپنے آپ کو ٹھیک بھی کرلیں تو کیا اس سے معاشرہ اور ملک و ملت کے مسائل واقعی حل ہو جائیں گے ؟ یا یہ چہار جانب پھیلی برائیاں،مسائل اور چیلیجز جوعملی سطح پر ہی نہیں فکری سطح پر بھی ہیں، اس میں مسلمانوں کی حیثیت بس ایک فریق کے سوا کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے تمام معاملات میں مسلمان کوئی خاص رول نہیں رکھتے۔موجودہ تعلیمی نظام اور اس کی فکر و نظر، موجودہ سیاسی نظام اور اس کی بد اخلاقیاں ، موجودہ معاشی نظام اور مکمل طور پر سود پر مبنی معیشت،موجودہ معاشرتی و تمدنی نظام اور اس کے گنجلک نظریات،یہ تمام نظریہ ہائے افکاراسلا م کے دیے ہوئے نہیںہیں۔نہ صرف اسلام بلکہ مسلمانوں کا بھی کوئی رول اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ موجودہ قوانین پر عمل کر رہے ہیں۔پھر کیسے ممکن ہے کہ ان تمام افکار و نظریات کو پڑھنے، ان پر تحقیق کرنے،ان سے نبرد آزما ہونے،ان کو زندگی کے شب و روز کا حصہ بنانے کے باوجود مسلمان یا دیگر اقوام،صرف مسلمانوں کے ٹھیک ہو جانے سے ظلالت و گمراہی سے نجات پا لیں گی؟اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ عقیدے کی حد تک موجودہ نظام پر یقین رکھنے والے لا علم اورفکر و نظر سے کھوکھلے مسلمان اپنی روز مرہ کی زندگی میں یا معاشرے میں کوئی اہم رول ادا کر سکیں ؟چند عبادات تک سمٹے ہوئے لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تبدیلی فکر و نظر اور نظام حیات میں تبدیلی کی جرت و حیثیت رکھتے ہیں،ایک غیر فطری توقع تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقی نہیں۔اس کے باوجود کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اللہ اوررسول کے احکامات کو نہ اپنی زندگی میں اور نہ ہی اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کی سعی و جہد کرتے ہیں۔اور اگر ٹوٹی پھوٹی فکر پا ئی بھی جائے تو جامع پالیسی و پروگرام کے بغیر۔ان حالات میں ضرورت ہے ایک ایسی پختہ فکر،پالیسی اور پروگرام مرتب دیا جائے جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقوام کے افراد بھی تعاون و شراکت داری کے ساتھ تبدیلی کے لیے کوشاں ہوں۔آج یہ بحث زور پکڑ تی جا رہی ہے کہ اسلامی تعلیمات ، اسکا نظام و طریقہ ہائے زندگی کیا صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص و محدودرہنا چاہیے یا دیگر ممالک اور ان کے قوانین میں بھی ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟حالات کے مثبت پہلوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو چاہیے کہ مکمل طور پر فکری اور عملی میدان میں اسلامی تعلیمات کو نہ صرف پوری طرح سے واضح کردیں بلکہ اس کے قیام و بقا کے لیے بھی سرگرم عمل ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج "جدیدیت"اس نظام فکر و نظر کی علامت بن گئی ہے جو فی الوقت رائج ہے اور جس کے قبضہ میںقوت و اقتدار بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر میدان میں جدیدیت کا غلبہ ہے۔ وہ تعلیمی میدان ہویاسیاسی ، معاشی ہو یا معاشرتی و تمدنی ہر میدان میں قوت و اقتدار رکھنے والا طبقہ جدیدیت کو اختیار کرنے میں نہ صرف عزت بلکہ اس کے تراشے و سنوارے لبادے میں ہر قسم کی خوشی بھی محسوس کر تا ہے۔برخلاف اس کے عام طبقہ جسے "عوام"کہتے ہیں ، فکر ِ جدیدیت کے نتیجہ میں رونما ہونے والے واقعات سے بہت حد تک اکتا چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہحالیہ دہلی آبروریزی معاملہ میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اسلامی قوانین کو لاگو کرنے کی بات کر رہی ہے۔اندرونی کسک و جذبات نہ صرف دہلی کے بلکہ پوری دنیا کے ہیں۔کیونکہ انسان ہمیشہ ہی امن پسند رہا ہے اور اسلام و اسلامی قوانین امن کے علمبردار۔
پرانا واقعہ نئی تاریخ کے ساتھ:
                16دسمبر2012ءکی رات ملک کی راجدھانی دہلی میںایک درد ناک واقعہ طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کا سامنے آیا۔پولیس نے6وحشیانہ حرکت میں ملوث بدمعاشوں میں سے 4کو چوبیس گھنٹوں میں گرفتار کر لیا۔گرفتار شدگان میں بس کا ڈرائیور رام سنگھ، اس کا بھائی مکیش، جم انسٹرکٹر ونے شرما اور پھل فروش پون گپتا شامل ہیں۔اور جلد ہی دیگر دو بدمعاشوں کی شناخت بھی کر لی گئی۔ دریں اثنا دہلی کی ایک عدالت نے ملزم بس ڈرائیور کو آج5دنوں کی پولیس حراست میں بھیج دیا ۔ دہلی پولیس نے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نمرتا اگروال کی عدالت سے کہا کہ گرفتار دیگر 3ملزمین رام سنگھ کے بھائی مکیش، جم انسٹرکٹر ونے شرما اور پھل فروش پون گپتا کو عدالت میںپیش کیا جائے ۔دہلی پولیس نے کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ اس معاملے کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت میں ہو، جہاں پولیس عدالت سے مجرموں کے لیے سخت سے سخت سزا یعنی عمر قید کی اپیل کرے گی، جس سے اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو سبق مل سکے۔دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظمیں،سماجی تنظیمیں اور سرکردہ حضرات نے اظہار افسوس و ملامت کی۔احساسات کے اظہار کے لیے ریلیاں اور مظاہرے کیے،پولیس، انتظامیہ اور حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے اور مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے پر زور ڈالا۔ایوان بالا سے درخواست کی کہ آبروریزی جیسے معاملات جو ملک میں ہر دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں ،کے لیے سخت سے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔سرکردہ لوگوں نے عمر قیداورپھانسی جیسی سزائیں تجویز کیں۔ریاست دہلی کی چیف منسٹر نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ اس تعلق سے خصوصی توجہ دیتے ہوئے سخت قوانین اور انتظامات کی سعی و جہد کریں گی۔اجتماعی آبروریزی میں ملوث طالبہ کی صحت تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے۔مختلف آپریشن کے بعد بھی وہ صحت یاب ہوتی نظر نہیں آتی اور ہو بھی جائے تو ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا جسم پوری طرح صحیح ہونے میں بہت وقت لگے گا۔یہ ہے وہ صورتحال جو صرف ایک واقعہ کے پس منظر میں ہمارے سامنے آیا ہے نہیں تو کتنی ہی طالبات ، بچیاں و خواتین اس عذاب میں آئے دن مبتلا ہوتی رہتی ہیں۔

نعرہ آزادئ نسواں کی آڑ میں:
                اخلاقیات سے آزادمغربی دنیا جن نعروںکو بلند کرتی ہے ان میںسر فہرست آزادی نسواں ہے۔ اس کا مطلب قید سے آزادی بھی ہے اور اخلاقی اصولوں سے آزادی بھی ہے۔ اس لئے کہ اخلاقی اصول بھی انسان کو چند چیزوں کا پابند بناتے ہیں۔لہذا اس نعرے میں مرد جو قوام بنائے گئے ہیں ان کی قوامیت سے آزادی بھی ہے تو وہیں معاشرے میں جو حدود عورت کے لیے متعین کیے گئے ہیں ان سے بھی آزادی ہے۔عورت جو شوہر کے تئیں وفاداربنائی گئی ہے اس وفاداری سے بھی آزادی ہے تو وہیں معاشرہ میں اختلاط مرد وزن میں جو ایک مخصوص دوری قائم کی گئی ہے اس سے آزادی بھی ہے ۔ حکومت و سیاست میں مرد کے زیر نگیں آزادی بھی ہے اورمذہب جو افکار و نظریات اور میدان عمل میں حدود متعین کرتا ہے اس سے آزادی بھی ہے۔پھر یہ نعرے نہ صرف نظریاتی یا فکری حد تک ہیں بلکہ عملی میدان میں بھی وہ مثالیں قائم کی گئی جو بطور شہادت پیش کی جا سکیں۔آج "آزادی نسواں" کے نعروں کی آڑ میں عورت کو سرم عام بازار کا کھلونا بنا دیا گیاہے ۔ساتھ ہی ایک شے جو بازار میںفروخت کی جا سکے نیز جسکاکھل کر استحصال کرنا بھی ممکن ہو۔واقعہ یہ ہے کہ یہ پاکدامن، عفت و عصمت کی علمبردار عورت کھلے عام نیلام ہو رہی ہے اور وہ ان حالات سے باخوبی واقف بھی ہے۔ اس کے باوجوداس نے ان خوبصورت نعروں کی زینت بننا پسند کیا اور مسلسل کیے جا رہی ہے۔دیکھنا یہ چاہیے کہ مختلف مذاہب و تہذیب سے تعلق رکھنے والی یہ عورت اپنے رویہ میں تبدیلی کیوں نہیں لا رہی ہے۔کیا اس کی بھی کوئی معقول وجہ ہے؟معلوم ہوا کہ ایک طرف عورت کو بازار میں سر عام بے عزت کیا جاتا ہے تو وہیں دوسری طرف گھروں میںلڑکے اور لڑکیوں میں تفریق کی جاتی ہے۔مختلف انداز میں ہر مقام پر ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے ۔کبھی شوہر اوردیگر رشتے داروں کے ذریعہ رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جو جانوروں سے بھی بڑھ کر نہ صرف اُن پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں بلکہ معمولی جہیز کی خاطر انھیں زندہ جلادینے تک سے گریز نہیں کرتے۔یہ اور ان جیسے بے شمار ظلم و زیادتیوں کے واقعات ہی دراصل وہ پس منظر ہے جو عورت کو آزادی  نسواں کے نعروں کو پسند کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔پھر ان نعروں کی آڑ میں کہیں زمانہ حال کی ماری ہوئی تو کہیں عزت و ذلت سے ناواقف عورت ان تمام امور کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتی جو آج رائج ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان نعروں کو بلند کرنے والے ،ان پر عمل کرنے والے اور ان کوفروغ دینے والے مسائل کا رونا نہیں روتے،لیکن پھر بھی وہ روتے ہیں، درد محسوس کرتے ہیں اور مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔تو چاہیے کہ ان حالات میں نہ صرف ان مخصوص لوگوں کے سامنے بلکہ عوام الناس کے سامنے بھی اس مالک برحق اللہ رب العزت کی تعلیمات کو عام کیا جائے جس نے ان تمام مسائل کا حل بہت پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔

متذکرہ واقعہ کے برخلاف:
                راجدھانی دہلی کے حالیہ واقعہ کے برخلاف یہ دوسرا واقعہ امریکی ریاست اریزونا کا ہے ۔جہاں امریکی پولیس نے ایک یمنی طالب علم پر جنسی تشدد کی کوشش کے الزام میں پانچ امریکی طالبات کو حراست میں لیا ۔ حکام کے مطابق حال ہی میں ریاست اریزونا میں ایک کالج میں زیر تعلیم پانچ لڑکیوں نے اپنے ہم کلاس ایک یمنی طالب علم عصام الشرعبی کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کے بعد اندر سے تالے لگا دیے اور اپنے کپڑے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔تاہم عصام کھڑکی سے چھلانگ لگاکر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ عصام کی اطلاع پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر پانچوں لڑکیوں کو حراست میں لے لیا۔ ان کے خلاف جنسی تشدد کی پاداش میں مقدمہ درج کر لیا ۔ ذرائع کے مطابق تفتیش کے بعد پانچوں لڑکیوں نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ عصام شرعبی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہے، جس پر انہوں نے اسے رضاکارانہ طور پر کئی مرتبہ جنسی تعلقات کی پیشکش کی تھی، اُس نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی تھی کہ وہ ایک دیندار مسلمان نوجوان ہے اور اس کا مذہب اسے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ امریکی ریاست اریزونا میں وہ مقام ہے جہاںہر تعلیمی سال کے اختتام پر کم و بیشپانچ ہزار طالبات عریاں دوڑ میں حصہ لیتی ہیں۔

دو متضاد واقعات کیوں؟
                پہلا واقعہ ان حالات کی عکاسی کرتا ہے جس نے انسانوں کو بے لگام حیوان بنا دیا ہے۔برخلاف اس کہ دوسرا واقعہ بھی تقریباًوہی ہے فرق بس اتنا ہے کہ چہار طرفہ پھیلی ظلالتوں میں کچھ لوگ آج بھی عقیدے اور عمل کے میدان میں مستحکم ہونے کی بنا پر ان گندیوں سے پرہیز کرنا پسند کرتے ہیں جو درحقیقت دنیا و آخرت دونوں میں ہی نقصان دہ ہیں۔یہ کچھ لوگ کون ہیں اور ایسا کیوں کرتے ہیں؟وجہ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ جس عقیدہ اور نظریہ پر قائم ہیں وہ حاکم برحق کا عطا کردہ ہے جس نے نہ صرف انسانوں کو پیدا کیا بلکہ انھیں صراطِ مستقیم بھی عطا کیا۔پہلے اور دوسرے واقعہ میں ظلم و تشدد کرنے والے نیز ظلالت و گمراہی میں مبتلا انسان اور انسانوں کے گروہ کسی مخصوص علاقہ،نظریہ،فکر اور عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتے اس کے باوجود وہ دونوں ہی اللہ وحدہ‘ لا شریک اور اس کے رسول کی تعلیمات سے دور بھاگتے ہیں۔کبھی لاعلمی کی بنا پرتو کبھی علم ہونے کے باوجود زمانہ  وقت یا نفس امارہ کے دبا میں آکر۔پھر یہی وہ لوگ بھی ہیں جن کے قبضہ میں قوت و اقتدار ہے۔قوت و اقتدار کی بنا پر ان لوگوں نے تعلیم و تربیت کا نظام کنڈر گارڈن سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک جوقائم کیا ہوا ہے،نتائج کے اعتبار سے نہایت عبرتناک ہے۔پھریہی وہ لوگ ہیںجو تعلیمی ادراوںکے ماحول اور فضا کو رخ دینے والے،طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے حقیقی جذبات سے کھلواڑ کرنے والے،بدکاریوں پر ابھارنے والے اور بدکاریوں کو خوشنما انداز میں پیش کرنے والے،فیشن کی آڑ میں ننگ و عار کو فروغ دینے والے،انٹر نیٹ،فلموں اور ٹی وی سیریلز کے ذریعہ عریانیت اور فحاشی کو بڑھاوا دینے والے، مقاصد کے حصول کے لیے پرنٹ و الیکڑانک میڈیاکا بھر پور استعمال کرنے والے ہیںاوروسائل پر بے ساختہ دولت صرف کرنے والے اور ۔ان حالات میںاگر چند نفوس اللہ وحدہ لا شریک اور اس کے حبیب ِ رسول پر ایمان رکھنے والے اور احکا م الٰہی پر عمل پیرا رہ نظر آجائیں تو یہ اس حقیقی علم اور اس پر پختہ یقین کا نتیجہ ہی کہلائے گا جو چہار طرفہ پھیلی ظلالتوں کی دلدل سے بچے رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔یہ وہی علم ہے جو خالقِ جن و انس اور مالک رب العالمین کا دیا ہوا ہے،یہی وجہ ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوکر انسان شرف و منزلت کے ادوار طے کرتا ہے،دنیا امن کا گہوارہ بنتی ہے اور ایک بہتر معاشرہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔

vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...