منگل، 7 جون، 2011

کانگریس پروجیکٹڈ بابا


کانگریس پروجیکٹڈ بابا

ہندوستان میں تمام بڑے واقعات جو منظر عام پر آتے ہیںان کے پیچھے عام طور پر سیاسی وجوہات ہوا کرتی ہیں۔کبھی سیاست سے وابستہ لیڈران اپنے مختلف کارناموں کی وجہ سے سامنے آتے ہیں تو کبھی ان کے پیداکردا مہرے۔ہندوستان میں جو مختلف سیاسی پارٹیاں ہیں ان میںایک نمایاں نام کانگریس پارٹی (انڈین نیشنل کانگریس)کا ہے جو عام طور پر "کانگریس "کے نام سے عوام میںمقبول ہے۔1885میں قائم ہونے والی انڈین نیشنل کانگریس نے ملک سے انگریزوں کے نکالنے کی ایک منظم جدوجہد کی تھی ۔اس کوشش میں نہ صرف کانگریس سے وابستہ افراد بلکہ ملک کے تمام افراد ہی وابستہ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آج موجود تمام ہی سیاسی پارٹیاں اپنے سابق لیڈران کو دیش میں غلامی سے نجات دلانے والی مانتی ہیں۔آزادی سے کس کو کتنا فائدہ ہوا اگر دیکھا جائے تو بہت صاف طور پر نظر آتا ہے کہ 1947میں ملی آزادی کوکانگریس آج تک کیش کراتی آئی ہے اوریہ ملک کی ایک واحد سیاسی پارٹی ہے جس نے ہندوستان میں سب سے زیادہ حکومت کے مزے لوٹے ہیں۔

کانگریس پارٹی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے زیادہ تر کام "سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے"کے مصداق ہوتے ہیں۔آج جو چہار طرف بابا جی کا چرچا ہے، انھوں نے جو ایشوز اٹھائے اور لوگ ان سے وابستہ ہو گئے، کرپشن، کالا دھن اور ملک کی سیاست کو ٹھیک کرنے کی باتیں جو انھوں نے کہیں۔ پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے پنڈال لگایا گیا، پوسٹر چسپاں کیے گئے،پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کے چرچے ہوئے،کچھ لوگوں نے خاموش حمایت کی تو کچھ نے کھل کر،یوگا سکھانے کے ساتھ ساتھ بقول کپل سببل راجنیتی یوگ بھی سکھائے گئے، پھر بابا کو پکڑنے آدھی رات پولس اہلکار آئے،کبھی بابا اپنے حامیوںکے کاندھوں پر تو کبھی کودتے پھاندتے دوبارہ پنڈال پر نظر آئے، لوگوں نے جی جان سے ان کی حمایت کرتے ہوئے نعرے بازی کی کہ بابا کو پولس ہاتھ نہ لگائے اور اگر ایسا کیا تو اس کے برے نتائج دیکھنے کو تیار رہے،اور بابا پانی پیتے، ہانپتے کانپتے اور پریشان حال پنڈال پر نظر آتے رہے ،پھر وہ اچانک غائب ہو گئے اور دوسری جانب بابا کو ہاتھ لگانے پر برے نتائج سے خبر دار کرنے والوں پر آنسو گیس چھوڑی گئی۔آنسوں گیس چھوڑنے کے نتیجہ میں پنڈال میں نہبابا رہے اور نہ ان کے حمایتی،سب تتر بتر ہو گئے۔وقفے وقفے سے میڈیا والے بتا رہے تھے کہ بابا کو پولس نے اریسٹ کر لیا ہے،بقول ہندستانی میڈیا کبھی بابا حیدراباد جا رہے تھے تو کبھی ہری دوار اور کبھی کہیں تو کبھی کہیں۔رات کا اندھیرا چھٹا تو بابا کو لے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر منتظر نظر آیااوربابا خاتون کا لباس پہنےدہرا دون کے لیے روانہ ہوگئے ۔بعد میں بابا نے پریس کانفرس کی اور کہا:"پنڈال سے اگر وہ خاتون کا لباس نہ پہن کر نکلتے تو ان کا قتل بھی کیا جا سکتا تھااور چار جون کی رات (حقیقت میں وہ ۵ جون کی رات تھی)کو تاریخ میں سیاہ رات قرار دیا جائے گا"۔

پھر یہ بھی ہواکہ:

سیاست داں نیند سے بیدار ہوئے اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔آپ کہیں گے کہ سیاست داں اور وہ بھی کام میں مصروف؟ ہم کہتے ہیںجی ہاں! سیاست داں ہی تو اصل کام کرتے ہیں اور ان کا کام بیان بازی ہوتا ہے۔کسی کی حمایت اور کسی سے اختلاف،بس یہی ان کا اصل کام ہے۔اور یہی وجہ بنتی ہے ان کے اقتدار میں آنے کی،کسی کو زیر کرنے اور کسی کو بڑھانے کی اور یہی وجہ بنتیہے کسی کو پروجیکٹ کرنے کی بھی۔یہبیان بازیاں ہمارے ملک کی عوام کے لیے بڑی توجہ اور غور و فکر کرنے کا موضوع ہوا کرتی ہیں۔پھریہی بیانات، گفتگو اورتبصرے کا موضوع بنتے ہیں۔یہی بابا جی کے ساتھ اور ان پر گزری "تاریخ کی سیاہ رات"میں بھی ہوا۔بابا اور ان کی حامیوں پر ہوئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں نے آواز اٹھائی جو کہ ایک جمہوری ملک میں ہوئے غیر جمہوری ہرکت پر لازماً اٹھنا بھی چاہیے ۔اسی لیے ہم بھی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ بالکل غلط ہوا،ایک جمہوری ملک میں جمہور پر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیلا گیا،جلیاں والا باغ اور اس میں ہندوستانیوں پر زیادتیاںتازہ ہو گئیں،اور یہ بھی کہ مانو ایسا لگتا تھا کہ کالے انگریزوں نے ہندوستانی جمہور کے حقوق کو سلب کر لیے ہوں۔ہم اس آواز میں آواز ملاتے ہوئے اس غلط کام کی پرزور مخالفت کرتے ہیں۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے اس پورےepisode میں فائدہ کس کو ہوا؟ عوام کو؟بابا کو؟بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو ؟بی جے پی سے اختلاف رکھنے والی پارٹیوں کو؟ یا کانگریس کو؟

بابا کی جدوجہد اور سیاستدانوں کے بیانات:

سب سے پہلے بابا کی بات"رام لیلا میدان پر مجھے گرفتار کرنے کے بعد میرا انکانٹر کرنے یا مجھے غائب کردینے کی تیاری تھی۔ وہاں میرے قتل کرنے کی سازش تھی۔ جب 3جون کو دہلی کے ایک ہوٹل میں ہماری حکومت سے بات چل رہی تھی تب بھی رام لیلا میدان پر بڑی تعداد میں پولس اہلکار تعینات کر دیے گئے تھے۔ کانگریس کی مرکزی حکومت نے نہ صرف جمہوریت کا گھلا گھونٹ کر انگریزی حکومت کی یاد دلائی بلکہ ایک 'سنیاسی' کے قتل کی بھی سازش رچی۔کیونکہ ملک کے 624اضلاع کے 90فیصد لوگ بھی تحریک سےجڑے ہیںاور بلاک سطح پر بھی ستیہ گرہ شروع ہوا ہے، اسی لیے مرکزی حکومت پریشان ہے اور یہ کارروائی کی ہے"(بابا رام دیو)۔"ستیہ گرہ کرنے والوں کو جبراً دہلی کے رام لیلا میدان سے پولیس کے ذریعہ بھگایا جانا بنیادی حق پر حملے کے مترادف ہے(نتیش کمار، وزیر اعلیٰ بہار)"۔"بابا رام دیو کے خلاف پولیس کارروائی کو راون لیلا بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کی تاریخ میں کالا دن ہے اور ملک اسے کبھی معاف نہیں کرے گا(نریندر مودی، وزیراعلیٰ گجرات)"۔"رات گئے رام دیو اور ان کے ساتھیوں پر جو سونے والے تھے حملہ ایمرجنسی کے دنوں کی یاد دلاتا ہے۔ہم رام دیو کے کاز کی حمایت کرتے ہیں اور پولیس کی زیادتیوں کی مذمت کرتے ہیں(بی ایس ید یورپا، وزیر اعلیٰ کرناٹک)"۔"سپریم کورٹ میں اس پورے معاملے کی جانچ کی درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کا خاص نوٹس لے اور اس کی قومی خواتین کمیشن اور ایس سی ایس ٹی کمیشن سے براہ راست انکوائری کرانے کے لیے کہے(مایاوتی، وزیر اعلیٰ اتر پردیش)"۔"ایک سادھو کے خلاف یہ قدم ہندو مذہب کی توہین کے مترادف ہے(شیوسینا)"۔"مرکزی یو پی اے حکومت کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔کیونکہ بابا رام دیو نے زعفرانی لباس زیب تن کرکے احتجاج میں حصہ لیا تھا جو حکومت کو راس نہیں آئی اس لیے یہ کارروائی کی گئی(سنجے راوت، ایم پی راجیہ سبھا)"وغیرہ۔

مخالفین کی آراء:

"بابا رام دیو نے 'یوگ'کے نام عوامی جذبات سے کھیلا ہے نیز انہیں بھگوا پہن کر احتجاج نہیں کرنا چاہیے تھا"(فلم اداکارہ کونیکالال)۔"بابا رام دیو ستیہ گرہ ختم کرنے کی پولیس کارروائی جائز۔یوگ گرو نے رام لیلا میدان میں منعقد یوگ کیمپ کی اجازت لیے جانے کے دوران کیا گیا وعدہ توڑا اور وہ اپنے وعدے سے پلٹ گئے۔5ہزار لوگوں کو جمع کرنے کی بات کہی تھی لیکن اپنے سیاسی فائدوں کے لیے 50ہزار لوگوں کی بھیڑ جمع کر لی تھی جس سے دہلی میں نظم و نسق سے منسلک صورتحال بگڑنے کا اندیشہ تھا۔بابا کا اسٹیج یوگا کرانے والا نہیں تھا بلکہ وہ سیاسی اسٹیج بن گیا تھا۔'سادھو رتمبھرا'کی مودگی کی وجہ سے اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ وہ 'رام دیو'سنگھ کا دوسرا چہرہ ہے۔ رام دیو پر بھروسہ نہیں رہ گیا تھا کیونکہ انہوں نے حکومت اور اپنے حامیوں کے ساتھ دغا بازی کی تھی"(مرکزی وزیر، کپل سبل)۔"پولیس نے وہی کارروائی کی ہے جو ایک ٹھگ کے خلاف کی جانی چاہیے۔وہ ایک طرف کلیرجس ہوٹل میں معاہدے کر رہا تھا اور دوسری طرف رام لیلا میدان میں اپنے پیروکاروں کو بے وقوف بنا کر انھیں مشتعل کر رہا تھا۔برنب مکھرجی جیسے سینئر وزیر کو بھی بات چیت کے لیے ایئر پورٹ بھیجا لیکن وہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔اپنی پارٹی سے کہیں گے کہ بابا رام دیو کے 1994سے اب تک کے کاموں کی جانچ کرائی جائے کہ ان کے پاس ہزاروں کروڑوں روپے کی املاک کہاں سے آئی۔دواں کا غیر قانونی کاروبار کرنے پر یوگ گرو بابا رام دیو کی گرفتاری کا مطالبہ "(دگ وجے سنگھ، جنرل سکریٹری کانگریس)۔اور ساتھ ہی ملائم سنگھ یادو کی بابا کو دیے جانے والی حمایت کے سلسلے میں کہا کہ :مسلمانوں کو ملائم سنگھ کا دوہرا چہرہ دیکھنا چاہیے جو خود کو مسلمانوں کا جمپئن کہتے ہیں لیکن اب وہ بابا رام دیو کی حمایت کرکے آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ ہو گئے ہیں۔

فائدہ کس کو ہوگا:

اس پورے عمل کے نتیجہ میں اگر یہ دیکھا جائے کہ فائدہ کسکا ہوگا۔ تو یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ فائدہ صرف اور صرف کانگریس پارٹی کو ہونے والا ہے ۔ بابا رام دیو ایک طویل عرصہ سے اس جدوجہد میں نظر آ رہے تھے کہ ملک کے اندر بد عنوانی اور کالے دھن اور اسی طرز کی دیگر برائیوں کا خاتمہ ہوناجائے۔اس سلسلے میں کبھی وہ دھرنے پر بیٹھے اور کبھی جلسے اور ریلیوں میں خظاب کیا۔اور اُسی سلسلے کو مزیدجاری رکھتے ہوئے یہ' دہلی پنڈال'بھی وجود پذیر ہوا۔ کیونکہ ہمارے ملک کی عام روش ہے کہ ہم عام طور پر نقل تو کرتے ہیں لیکن عقل کا استعمال کیے بغیر۔ لہذا یہاں بھی یہی ہوا کہ عالم عرب میں جمہوریت کی علمبردار تحریکات جو ایک طویل عرصہ سے عوام پر مسلط حاکمین کے خلاف تھیں، شروع کی گئی۔مصر میں تحریر چوک پر اس کو ہر ممکن طرح سے قائم رکھنے اور اپنی مانگنیں منوانے کے تعلق سے ایک طویل عرصہ میں ان کو کامیابی حاصل ہوئی۔اس کے بعد لیبیا،شام، یمن وغیر ہ کے عوام نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا ۔بس یہی وجہ تھی کہ پہلے اننا ہزارے نے ہمارے ملک ہندوستان میں عالم عرب کیسعی و جہد سے تحریک پاکرعوام کی ایک بڑی بھیڑ کو جمع کر لیاجو لوک پال بل میں سدھار کے تعلق سے جاری کی گئی تھی۔ بعد میں حکومت سے بات چیت اور معاہدوں کے تحریک چند ہی دنوں میںختم ہو گئی۔اور اب بابا جی نے کالے دھن اور دیگر ایشوز پر عوامی بھیڑ کو جمع کرنا چاہا اور وہ بھی کامیاب رہے ۔اس پورے episodeمیں غور طلب پہلو ایک تو یہ ہے کہ کیا یہ اور اس قسم کے مظاہرے ہندوستان میں اٹھائے جانے والے ایشوز کے لیےکافی ہیں اس صورت میں کہ جہاں ڈکٹیٹر شپ نہیں ہے، جہاں آج بھی گئے گزرے حالات میں جمہوریتکی اہمیت برقرار ہے اور عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔ کیا ایسے ملک میں یہ طرز عمل مناسب ہے؟ اور دوسرا پہلو یہ کہ کیا اس پورے episodeکو کانگریس اور اس کے باصلاحیت لیڈران نے ہی بابا کو پروجیکٹ کرنے کیا ہے۔کیا کانگریس چاہتی ہے کہ اس کے بھی اپنے ایک بابا ہونے چاہیں جوکانگریس میں شامل نہ ہوتے ہوئے بھی کانگریس کے مقاصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوں؟

یوپی الیکشن اور بابا رام دیو:

آئندہ سال ہونے والے یوپی الیکشن کی تیاریاں زوروں پر ہیںاور تمام پارٹیاں چاہتی ہیں کہ ان کو گزشتہ کے مقابلے اس مرتبہ زیادہ بڑے پیمانہ پر کامیابی ملے۔لہذا اگر ہم یوپی الیکشن کے پس منظر میں بات کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے واقعات ایک کے بعد ایک اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور یہ اسی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے اجزائ۔گزشتہ دنوں یوپی میں بھٹہ پارسول کے کسانوں پر ہوئے ظلم،وہاں کے حالات سے واقفیت اور وہاں کے لوگوں کی حمایت کے لیے جانے والے لیڈران کی گرفتاریاں،اور اچانک تمام اہل کار،پولیس،خصوصی فورس،انٹلجنس،اور میڈیا کو مات کرتے ہوئے راہل گاندھی کا بھٹہ پارسول پہنچ جانا! کہنے والوں نے کہا تھا کہ مایا وتی راہل گاندھی کو پروجیکٹ کر رہی ہیں اور فائدہ کانگریس اور بہن جی کی پارٹی کو ہی ہوگا۔ اس کے برخلاف بی جے پی اور ایس پی کو نقصان۔پھر اُس سے قبل بابری مسجد کا الہ آباد ہائی کورٹ فیصلہ ۔بی جے پی جو ایک طویل عرصہ سے اس مہم میں مصروف ِ عمل تھی اس کے ہاتھ سے اس ایشو کو بھی چھین لینا! فائدہ کس کو؟ بہن جی اور کانگریس کو۔ اور اب بابا کی انصاف پر مبنی کالے دھن کے خلاف مہم، بابا کو ایک یوگ بابا سے ہیرو بنانے کی کوشش، بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کی حمایت!فائدہ کس کو؟ کانگریس اور بہن جیکو، اور نقصان بی جے پی اور ایس پی کو۔ کیونکہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں با با کے حق میں بیان بازی میں مصروف ہیں لہذا بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے ووٹ بینک ہی سب سے پہلے متاثر ہوں گے۔یہ بھی جگ ظاہر ہے کہ بابا کی سیاسی پارٹی بی جے پی کیحمایت سے الیکشن نہیں لڑے گی نہ ہی اس کی بی جے پی کے ٹکٹ پربابا سیاست میں آئیں گے۔بابا جلد ہی اپنی سیاسی منظر عام پر لائیں گے جسکے سیاسی سفر کا آغاز اتر پردیش کے الیکشن ہی سےہوگا۔لہذا آج جو لوگ بابا کی حمایت کا دم بھرتے ہیں انھیں کا ووٹ بینک بابا کا بھی ووٹ بینک ہوگا اوریہی وہ لوگ ہوں گے جو یوپی میں بی جے پی کو مزید کمزورکریں گے ۔اور نہ صرف بی جے پیبلکہ سماج وادی کا ووٹ بینک بھی متاثر ہوگا ۔کیونکہ کانگریس چاہتی ہے کہ مسلمانوں کے چیمپین کو بھی مات دی جائے اسی لیے وہ بابا کی حمایت کرنے پر ملائم سنگھ کی گرفت تو کرتی ہے لیکن اسی ریاست میں بابا کی حمایت کرنے والی بہن جی کے خلاف وہ خاموش رہتی ہے۔ویسے بھی سماج وادی پارٹی آئندہ آنے والے الیکشن سے پریشان ہے اسی لیے کبھی وہ کلیان سنگھ کوسماج وادی پارٹی میں شامل کرتی ہے اور کبھی الگ دور کرنے کی بات کرتی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ بابا کی موجودگی ،اور اس کی حمایت سے ایس پی کا بھی ووٹ بینک بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔ اور فائدہ ہوگا تو ایک طرف کانگریس اور بی ایس پی کا اور دوسری طرف راست بابا رام دیو جی کا۔لہذا واقعات کا سلسلہ اس امکان میں مزید تقویت بخشتا ہے کہ باباکونگریس کے پروجیکٹ کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ جو کچھ عوام کو نظر آیا یہی کانگریس اور بابا چاہتے تھے۔اوراسی میں کانگریس اور بابا رام دیو کے کے مفاد وابستہ ہیں!

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...