جمعہ، 18 جنوری، 2013

سینٹرل ٹیچرس الیجبلٹی ٹیسٹ اوراساتذہ تقرری گھوٹالہ


سینٹرل ٹیچرس الیجبلٹی ٹیسٹ اوراساتذہ تقرری گھوٹالہ

               وزیر تعلیم کپل سبل نے گزشتہ سال لوک سبھا کو بتایا تھاکہ اگلے پانچ سال کے دوران ملک بھر میں ۰۰۲ نئی یونیورسٹیز اور ۰۴ نئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کے علاوہ اضافی IITS بھی قائم کئے جائیں گے۔اسی کے ساتھ ساتھ بارہویں پنج سالہ منصوبہ میں حکومت ہند کی خاص توجہ ابتدائی،سکنڈری اور ہائیر ایجوکیشن پر ر ہے گی۔جس کے تحت ابتدائی تعلیم کے ڈروپ آٹ 42.39%فیصد کو کم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔کمزور ،اقلیتی اور معذور طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔نیز اساتذہ کی تربیت و راہنمائی پروگرام مرتب دے کر ان کی تعلیمی استعداد بہتر بنانے کی سعی و جہد کی جائے گی۔ نیز مختلف عمر کے بچوں کے لیے الگ الگ کریکلم بنانے اور اس کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ٹھیک اسی طرح سکنڈری ایجوکیشن کے تعلق سے کہا گیا تھا کہ14سے 16سال کے طالبہ کے داخلہ کو 62.71%فیصد سے بڑھا کر 90%فیصد تک کیا جائے گا۔اس کے لیے 500کیندری ودھالیہ اور 378نئے جواہر نویدیہ ودھالیہ قائم کیے جائیں گے۔اساتذہ کی تربیت و راہنمائی کے یہاں بھی بڑے پیمانہ پر پروگرام چلائے جانے کی بات کہی گئی تھی۔اس ایک سالہ گزرے عرصہ میںکیا کچھ ہوا؟ اور کون سے اہداف حاصل کیے جا سکے اس کی جانکاری تو سالانہ رپورٹ سے ہی بتائے گی۔لیکن فی الوقت آنے والے نئے اساتذہ کے معیار کی بات کی جائے تو ماہ دسمبر2012کے سینٹرل ٹیچرس الیجبلٹی ٹیسٹ کے نتائج نے نہ صرف حکومت ہند بلکہ تعلیم ، تعلیمی اداروں اور طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
سینٹرل ٹیچرس الیجبلٹی ٹیسٹ اور اس کے نتائج:
                ہر زمانے میں استاد کی عزت و تکریم کی گئی ہے اور اس کی وجہ اس سوا کچھ نہیں کہ استاد ہی وہ فرد و احد ہے جو طلبہ کی فکر و نظر میں کو وسعت بخشتا ہے۔روشن مستقبل کے لیے جہاں یہ لازمی ہے کہ ملک و ملت کے بچے ناخواندہ نہ ہوں وہیں یہ بھی لازم ہے کہ ان بچوں کو خواندہ بنانے والے اور ان کی تعلیم و تربیت کا فیریضہ انجام دینے والے خود بھی باصلاحیت ، باکردار اور مثبت فکر و نظر کے حامل ہوں۔اس کے برخلاف سینٹرل ٹیچرس الیجبلٹی ٹیسٹ(CTET)2012کی یہ رپورٹ مستقبل کے اساتذہ کی صلاحیتوں کو لے کربڑا ہی شرمناک پہلو نمایاں کر رہی ہے۔ٹیسٹ کے نتائج میں99%فیصد اساتذہ نے ناکامی کا سامنا کیا ہے۔یہ ٹیسٹ دو سطحوں کے اساتذہ سے دو الگ الگ پرچوں میں لیا جاتا ہے۔پہلا پرچہ ان اساتذہ سے تعلق رکھتا ہے جو پہلی جماعت تا پنجم میں تعلیم و تدریس کا عمل انجام دیتے ہیں تو دوسرا پرچہ جماعت ششم تا ہشتم یعنی6-8کلاس کے اساتذہ کے لیے لیا جاتا ہے۔سال 2012میں پہلے پرچہ کا ٹیسٹ 2.71لاکھ اساتذہ نے دیا اس کے بالمقابل دوسرے پرچہ میں 5.24لاکھ اساتذہ نے دیا۔نتیجہ کے اعتبار سے پہلے پرچہ میں کل2,481تو وہیں دوسرے پرچہ میں 2,368اساتذہ ہی کامیاب ہوئے۔پہلے پرچے میں کامیابی صرف0.91%فیصد ہی اساتذہ کے حصے میں آئی تو وہیں دوسری جانب0.45%فیصد کامیابی دوسرے پرچہ کو دینے والے اساتذہ نے حاصل کی۔سینٹرل ٹیچرس الیجبلٹی ٹیسٹ وہ ٹیسٹ ہے جو کسی بھی سینٹرل اسکول میں استاد کی تقرری کے لیے حکومت ہند نے لازم کر رکھا ہے اس کے برخلاف دہلی میں یہ ٹیسٹ حکومت سے امداد یافتہ اسکولوں کے اساتذہ کی تقرری کے لیے بھی لازم ہے۔نتیجہ کی روشنی میں یہ بات کھل کر عیاں ہو گئی ہے کہ ملک کے مستقبل کو سنوارنے ،بنانے اور تعلیم و تربیت سے ہمکنار کرنے والے اساتذہ بذات خود باصلاحیت نہیں ہیں۔ان حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ غیر تربیت یافتہ اور تعلیم جیسے اہم پیشہ سے وابستہ یہ حضرات کس طرح ملک و ملت کے بچوں کے مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں؟
اساتذہ تقرری گھوٹالہ:
                ملک کا باشعور طبقہ سینٹرل ٹیچرس الیجبلٹی ٹیسٹ کے ناکام اساتذہ پر ابھی غور ہی کر رہا تھا کہ ایک نئے واقعہ نے ملک کے تعلیمی نظام کی چر مراتی صورتحال کو مزید دھچکہ پہنچایا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ سی بی آئی کے خصوصی جج ونود کمار نے ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ، ان کے بیٹے اور دیگر 53لوگوں کو ہریانہ میں 3ہزار سے زیادہ جونیئر بیسک تربیت یافتہ(جے بی ٹی) اساتذہ کی غیر قانونی بھرتی کے معاملے میں تعزیرات ہند اور انسداد بدعنوانی قانون کے تحت قصوروار ٹھہرایا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعدسبھی قصورواروں کو عدالتی تحویل میں لے لیا گیا۔ عدالت ان کو 22جنوری کو سزا سنائے گی۔سزا پر بحث17،19اور 21جنوری کوہوگی۔عدالت نے تعزیرات ہند کی دفعہ120بی (مجرمانہ سازش)420(فریب دہی)467(جعلسازی)468(فریب دہی کے لیے جعلسازی)471(فرضی دستاویزات کو اصل کے طور پر استعمال کرنا) اور انسداد بدعنوانی ایکٹ کی توضیعات کے تحت فرد جرم عائد کی ہے۔عدالت نے اس معاملے میں 17دسمبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس معاملے میں 62ملزمان میں سے 6کی سماعت کے دوران موت ہو گئی، جبکہ عدالت نے ایک کو بری کر دیا تھا۔ عدالت نے اس سے پہلے مسٹر چوٹالہ، ان کے بیٹے اجے چوٹالہ، آئی اے ایس سنجے دھر اور سنجیو کمار اور 51دیگر لوگوں کو خلاف بادی النظر میں ثبوت پائے تھے۔ عدالت نے آج گھوٹالے میں 16خواتین سمیت کل 55لوگوں کو قصور وار ٹھہرایا۔ عدالت میں آج سماعت کے دوران ملزمان ان کے وکیلوں، وکلائے صفائی اور عدالت کے ملازمین کے علاوہ کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ملزموں کے رشتے داروں اور میڈیا کے نمائندوں کو بھی عدالت کے باہر رکھا گیا تھا۔ سی بی آئی نے 6جون 2008کو مسٹر چوٹالہ اور دیگر لوگوں کے خلاف اس سلسلے میں معاملہ درج کیا تھا۔ یہ گھوٹالہ1999اور 2000کے دوران3002جے بی ٹی ٹیچروں کی تقرری کے دوران کیا گیا تھا۔      فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ٹیچروں کی دوسری فہرست یہاں ہریانہ بھون میں 18اضلاع کی ضلعی سطح کی کمیٹیوں کے صدر اور اراکین کی میٹنگ بلا کر تقرری کے مناسب طریقہ کار کے بغیر تیار کردی گئی تھی۔ سی بی آئی نے الزام لگایا تھا کہ مسٹر چوٹالہ اور ان کے بیٹے نے فرضی دستاویزوں کی بنیاد پر 3002اساتذہ کی تقرریاں کی تھیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 25نومبر2003کو سی بی آئی کو اس معاملے کی جانچ کا حکم دیا تھا۔ چوٹالہ اور دیگر54کو اس معاملے میں قصور وار ٹھہرائے جانے کے بعد اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بھو پیندر سنگھ ہڈا نے کہا "قانون اپنا کام کر رہا ہے۔قانون کی خلاف ورزی کا نتیجہ اسی طرح سامنے آتا ہے"۔ اوم پرکاش چوٹالہ کے چھوٹے بیٹے ابھے چوٹالہ نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے بھائی اور والد نے ریاست میں ٹیچروں کی بھرتی میں کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بدعنوانی سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے اور اس معاملے میں پیسے کا کوئی لین دین بھی نہیں ہوا۔
ماہر تعلیم و نفسیات کہتے ہیں:
                تعلیم کا تعلق ماں باپ اور اساتذہ سے ہے ۔ اس لحاظ سے بچوں کی نفسیات کو ہر دو سطحوں پر سمجھنا لازمی ہے۔اگر اس سے روگردانی برتی گئی تواس کے منفی نتائج بھی لازماً برداشت کرنے ہوں گے۔سگمنڈ فرائڈ کے لائق ترین شاگرد الفریڈ ریڈلر نے واضح کیا تھا کہ ہر بچے کی زندگی کے پہلے پانچ سال اس کی آیندہ زندگی کو بڑی حد تک متاثر کرتے ہیں۔ نفسیات اطفال کے جدید ماہرین بچے کی پیدایش سے بارہ سال کی عمر تک ذہن و کردار کے حوالے سے مطالعہ کرتے اور مشورے دیتے ہیں (طلبا کو مشورے دینے کے لیے ابتدائی تعلیمی مراکزChild Guidance Clinics کا قیام ترقی یافتہ ممالک میں انتہائی کام یاب تجربہ ثابت ہوا تھا) ان ماہرین کے نزدیک پانچ سے سات سال کے درمیان بچہ کتابوں کے بجائے عملی چیزوں سے زیادہ سیکھتا ہے وہ اپنی ٹیچر کی نقالی عمدگی سے کرتا ہے۔ اب ٹیچر اس کو لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری یاد کرائے یا پھر ”بابا بلیک شیپ اور ہمپٹی ڈمٹی“ کا رٹّا لگوائے، دونوں کے لیے بچہ بہترین نقال ثابت ہوتا ہے۔اس حیثیت سے استاد کی خدمات انتہائی اہم ہوتی ہیں ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ استاد اچھا ہو تو کمزور طالب علم کو بھی اس طرح پڑھا سکتا ہے کہ اس سے اس کا معیار تعلیم بلند ہو جائے برخلاف اس کے استاد اچھا نہ ہو تو وہ اعلیٰ درجے کے نصاب کو بھی معمولی بناسکتا ہے۔آج ہمارے ملک میں نہ صرف معیار تعلیم خراب ہو ر ہا ہے بلکہ وہ اساتذہ جو ملک کا مستقبل بنانے اور سنوارنے والے تھے ان کی کارکردگی کا گراف بھی نیچے ہوتا جا رہا ہے۔اور یہ دونوں متذکرہ واقعات اسی جانب توجہ دلا رہے ہیں۔ایک جانب مستقبل کے اساتذہ کی صلاحیتیں مشکوک ہیں تو وہیں دوسری جانب ریاستی اور مرکزی ریاستوں کی غیر اخلاقی، غیر ذمہ دارانہ اور کرپٹ شبیہ سامنے آتی ہے۔اور یہ دونوں ہی واقعات ہمارے لیے لمحہ  فکریہ ہیں۔
                ان حلات میں ویسے تو ہر استاد کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریاںبحسن و خوبی انجام دے اور اس کے لیے اپنے آپ کو اَپ ٹو ڈیٹ رکھے۔طلبہ سے محبت و شفت کار ویہ اپنائیں اور ان کی ہمہ جہت تربیت و ترقی کی کوشش کریں۔لیکن بحیثیت مسلمان اس حصول علم و ترقی کے لیے ہر طالب علم اور استاد کو یہ بھی چاہیے کہ وہ مالک برحق علیم و بصیر اللہ رب العزت سے یہ دعا بھی کرتا رہے: "اے میرے رب میرے سینے کو کھول دے اور میرے کام کو (جس کا بیڑا اٹھا رہا ہوں)آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے "۔اور ساتھ ہی ساتھ اس فہم و ادراک کے ساتھ اگر یہ عقیدہ بھی مضبوط تر کہ حواس، عقل و شعور ، فکر و تخیل، تجربات و مشاہدات کے ساتھ خالق انسان نے اس کی رہنمائی کے لیے وحی کا ذریعہ بھی پسند کیا ہے۔وحی کا سلسلہ گرچہ خاتم النبیین پر مکمل ہوا، اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کو مکمل کرتے ہوئے قرآن کی حفاظت کی خودذمہ داری اٹھالی۔اس لحاظ سے وحی میں علم و ذریعہ علم کے اعتبار سے کوئی نقص یا خامی نہیں ہے۔پھر ساتھ ہی یہ بات کہ سارے ذرائع علم اللہ ہی کی عطا ہیں۔بس شرط واحد یہ ہے کہ حواس کا استعمال علم و حی سے حاصل کردہ شعور کی روشنی میں کیا جائے۔ان روشنیوں میں جب مزید گہرائی و بصیرت پیدا کرنے کی سعی و جہد کی جائے گی تومقاصد کے حصول میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوں گے۔روشن دماغ خودی ذات کے لیے بھی اور دیگر افراد کے لیے خیر ثابت ہوں گے۔محنت و جستجو کے مراحل سے گزرا جائے گا۔اور نہ صرف استاد و طلبہ مطلوبہ معیار پرپورے اتریں گے بلکہ ایک خوشگوار معاشرہ بھی وقوع پذیر ہوگا۔ 
vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...