ہفتہ، 8 فروری، 2014

اسیمانند کا بیان اور انسداد فرقہ وارانہ بل کا بائیکاٹ!


اسیمانند کا بیان اور انسداد فرقہ وارانہ بل کا بائیکاٹ!

               'کارواں میگزین'کی رائٹر گیتا رگھو ناتھ سے گفتگو کرتے ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے بم دھماکہ کے اہم ترین ملزم سوامی اسیمانند نے بھگوا دہشت گردی کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں مبینہ طور پر ملوث رہے ہیں اور ان کے بارے میں انہیں جانکاری بھی تھی۔ اسیما نند نے نمائندہ کو بتایا کہ جولائی2005میں ایک میٹنگ سورت میں آر ایس ایس کے کیمپ کے بعد منعقد کی گئی جس میں موہن بھاگوت اور اندریش کمار سمیت آر ایس ایس کے کئی لیڈران شریک ہوئے تھے۔ قومی عاملہ کے سبھی طاقتور 7ممبران نے ڈانگ، گجرات کا سفر کیا، جہاں ایک مندر میں اسیما نند رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے اسیما نند سے ملاقات کی ، بھاگوت اور اندریش کمار کے ساتھ سنیل جوشی بھی تھے،جوشی نے بھاگوت کو ہندوستان میں مسلمانوں کو بم دھماکوں کے ذریعے نقصان پہنچانے کی سازش سے آگاہ کیا۔ اسیما نند کے مطابق دونوں آر ایس ایس لیڈران نے اس کی منظوری دے دی اور بھاگوت نے اسیما نند سے کہا کہ'وہ سنیل جوشی کے ساتھ اس کام کو انجام دیں۔ ہم تمہارے ساتھ ملوث نہیں ہوں گے، لیکن اگر تم یہ کام انجام دیتے ہو تو اس موقع پر ہمیں اپنے ساتھ سمجھنا'۔بقول اسیما نندانھوں نے کہا "سوامی جی ایسا کرنے سے یہ جرم نہیں ہوگا اور عوام اس بات کا اظہار نہیں کریں گے کہ ہم نے کوئی جرم کیا ہے کیونکہ یہ ہماری آئیڈیالوجی کا حصہ ہے۔ یہ ہندوں کے لیے انتہائی ضروری ہے، اسے انجام دے دیں، ہماری دعائیں ساتھ ہیں"۔موہن بھاگوت کے سازش میں ملوث ہونے کا یہ بیان اشتعال سے بھرپور اور بے مثال ہے۔دوسری طرف کارواں میگزین کے مدیر اعلیٰ ونود کے جوس نے حقائق کو بے نقاب کرنے کے لیے جس بے باکی کا مظاہرہ کیا ہے اس آواز کو دبانے کے لے انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کے انٹرویو کو فرضی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ باوجود اس کے کارواں کے مدیر اعلیٰ اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2سال میں اسیمانند سے 4بار ملاقات کی گئی تھی اور انٹرویو لیا گیا تھا۔ جس کی 9گھنٹے پر مشتمل ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔وہیں اس انٹرویو کے بڑے پیمانہ پر شائع ہونے کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس، درگاہ اجمیر شریف اور مالیگاں مکہ مسجد میں ہوئے دہشت گردانہ دھماکوں کے معاملے میں آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کی گرفتاری کے مطالبے کی شدت کو دیکھتے ہوئے ان دھماکوں کے کلیدی ملزم سوامی اسیمانند نے اپنے بیان پر یو ٹرن لے لیے ہے اور تحریری طور پر بیان دیا ہے کہ کارواں میگزین نے آر ایس ایس سے متعلق جو انٹرویو شائع کیا ہے، وہ انھوں نے نہیں دیا ہے۔ ادھر اسیما نند کے پہلے بیان پر جو انٹرویو کی شکل میں سامنے آیا ملک کی تمام سیکولر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ مرکزی وزراءسلمان خورشید، راجیو شکلا، بینی پرساد ورما نے بھی مطالبہ شروع کر دیاتھا کہ موہن بھاگوت کو گرفتار کیا جائے، نیز اس پورے معاملے کی جانچ کرائی جائے، تاکہ سچ سامنے آسکے۔ خود وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے بھی یہ بیان دیا کہ اگر اسیما نند کہہ رہے ہیں تو بات سچ ہوگی۔کانگریس لیڈر دگوجے سنگھ نے کہا کہ یہ ایک پختہ ثبوت ہے جس کی بنیاد پر این آئی اے کو ضرور کاروائی کرنی چاہیے۔ اسے اسیمانند کے انٹرویو کے ریکارڈنگ ٹیپ اپنے قبضے میں لینے چاہیے۔یہ وہ مختصر حقیقت ہے جس کا کچھ تذکرہ کارواں میگزین نے اسیما نند سے لیے گئے انٹرویو کی شکل میں پیش کیا ہے۔لیکن اس سے زائد کیا کچھ پردے کے پیچھے ہورہا ہے اس سے کوئی واقف نہیں، اور جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ واقف ہوں یعنی حکومتی ادارے اور ایجنسیاں جو ملک کی سلامتی اور سالمیت کے لیے ہر چھوٹے اور بڑے عمل پر نظر رکھتی ہیں،ان میں خود ایک بڑا طبقہ اقلیتوں کے تعلق سے زہر آلود فضا سے متاثر ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں قیاس پر مبنی،بلا تحقیق معصوم مسلم نوجوانوں کی بڑے پیمانہ پر پکڑ دھکڑ جاری تھی جس میں حالیہ دنوں کچھ کمی آئی ہے لیکن نہیں معلوم کہ یہ وقفہ کب تک رہے گا!
بیان کے پس منظر میں فسادات کا سلسلہ بھی کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا:
               دوسری طرف آزاد ہندوستان کے آغاز تا حال منظم اور منصوبہ بند فسادات کا سلسلہ بھی کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا۔ہندوستان کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کے ایک قتل عام کی کہانیاں دہرائی گئیںہیں۔1969ءکے گجرات فسادات، 1980ءکے اترپردیش فسادات، 1983ءکے آسام فسادات، 1987ءکے میرٹھ فسادات،1989ءکے بھاگلپور(بہار) فسادات، 1990ءکے سری نگرفسادات(جنوری میں بھی ہوئے اور فروری میں بھی)، دسمبر1992ءاور جنوری1993ءمیں ہونے والے ممبئی فسادات،1993ءکے سوپور(مقبوضہ کشمیر) فسادات اور پھر فروری2002ءمیں ہونے والے گجرات فسادات۔نیز دیگربے شمار چھوٹے فسادات کے علاوہ2012کے کوکراجھار( آسام) فسادات اور2013کے مظفر نگر(اترپردیش) فسادات قابل ذکر ہیں۔ان فسادات نے نہ صرف متاثرہ شہریوں کے حوصلوں کو پست کیا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک کے چہرے پر بھی بدنما داغ لگادیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی تاریخ کے ان صفحات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے بعض اوقات مایوسی سامنے آتی ہے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان واقعات کا تذکرہ ہند سے دور سننے والوں کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی کسمپرسی کا اظہار ہوتاہو۔اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان ان حالات میں بھی "پرسکون"زندگی گزار رہے ہیں۔نہ صرف پرسکون زندگی بلکہ بعض اوقات تو گمان ہوتا ہے کہ دراصل یہ سب باتیں سیاسی ہتھکنڈے اور چال بازیاں ہیں۔شاید اسی لیے "اہل علم" پوچھتے ہیں کیا مسلمانوں کے مسائل وہ نہیں جو عام انسانی آبادی کے مسائل ہیں؟کیا ان کے مسائل کچھ الگ ہیں؟اورکیا مسائل کو ہندو مسائل،مسلم مسائل ، سکھ مسائل اور دیگر حصوں اور طبقوں میں بانٹ کر دیکھا جانا عقلمندی کی بات ہے؟ہم نہیں جانتے کہ ان سوالات کے صحیح جواب کیا ہیں۔لیکن ممکن ہے کہ اہل فہم ان سوالات کے جواب تلاش کرلیں۔نہ صرف جواب تلاش کریں بلکہ حل کی جانب بھی صحیح خطوط پر پیش رفت کریں ۔
اور اب یہ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کا بائیکاٹ!
               گفتگو کے پس منظر میں پارلیمنٹ کا آخری اجلاس اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ دیگر پیش ہونے والے بلوں میں " انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل"بھی تھا۔اور امید تھی کہ اس آخری سیشن میں حکومت اس کو پاس کروائے گی۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دراصل فرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام کے لیے قانون لانے کا وعدہ یو پی اے کی حکومت نے اپنے پہلے دور اقتدار میں کیا تھا اور پہلی مرتبہ 2005 میں پارلیمان میں پیش بھی کیا تھا۔2011 میں سونیا گاندھی کی قیادت والی قومی مشاورتی کونسل نے بل میں کئی ترامیم کیں جس کے بعد اسے گذشتہ برس وزارت داخلہ بھیجاگیا۔بل پر قومی مشاورتی کونسل کا کہنا ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب کسی ریاست میں مذہبی یا لسانی یا درج فہرست ذات و قبائل سے تعلق رکھنے والے گروپوں کو ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو ریاستی مشینری کی طرف سے انھیں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک وفاقی اتھارٹی تشکیل دینے کی تجویز رکھی گئی ہے جس کے احکامات پر عمل کرنا ریاستوں کے لیے لازمی ہوگا۔کونسل کے رکن اور شہری حقوق کے کارکن ہرش میندھر کے مطابق یہ قانون کسی خاص مذہب کے خلاف یا حق میں نہیں ہے، اور اس کا مقصد مذہبی فسادات کو روکنا ہے۔لیکن ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی سخت مخالفت کی وجہ سے انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کا پیش کیا جانا ملتوی کردیاگیا۔اپوزیشن جماعتوں کا دعوی تھا کہ پارلیمنٹ اس قانون کونہیں بناسکتا اور یہ وفاقی ڈھانچہ کی روح کے خلاف ہے۔بی جے پی ، سی پی ایم ، ڈی ایم کے ، ڈی ایم اور ایس پی سمیت مختلف جماعتوں کی سخت مخالفت کے بعدڈپٹی چیئرمین پی جے کرین نے اطلاع دی کہ ایوان کی خواہشات کو دیکھتے ہوئے انسدادفرقہ وارنہ فسادات بل 2014کو روکا جاتا ہے۔
               مغربی بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس جیسی علاقائی پارٹیوں کا موقف ہے کہ یہ قانون ملک کے وفاقی کردار سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس سے ریاستوں کے اختیارات متاثر ہوں گے کیونکہ دستور ہند کے مطابق امن و قانون کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کو حاصل ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریاستوں کے پاس ان مسائل کا کوئی واضح حل موجود ہے؟ اور کیا آزادی سے لے کر آج تک ہونے والے فسادات اور ان میں متاثرین کو انصاف ملا ہے؟ کیا اُن لوگوں پر گرفت کی گئی جو اشتعال انگیزی پھیلانے میں ملوث رہے ہیں؟اور کیا ان اختیارات کاغلط استعمال نہیں کیا جاتا جو ریاستوں کو حاصل ہیں؟اگر ایسا ہے تو پھر اس بل کو پیش کرنے اور پاس کرانے میں کیا دشواری ہے؟یا پھر یہ وہی لوگ اور پارٹیاں نہیں ہیں جو اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے کی بات تو کرتی ہیں لیکن جب اُن ٹھوس اقدامات کی پہل کی جاتی ہے جن سے مسائل حل ہونے کے امکانات وابستہ ہیں تو سب سے پہلے مخالفت میں سرفہرست بھی یہی نظر آتے ہیں؟ان حالات میں اقلیتوں اور متاثرین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل پس پشت توسکے کے دونوں جانب ایک ہی تصویر ثبت ہے یہ الگ بات ہے کہ مختلف اوقات میں اِن رخوںکو اس خوبی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ معصوم یا خالی الذہن افرادسحر انگیزی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان سے نہ صرف لوگوں کو باخبر رکھا جائے بلکہ ایک مضبوط پلیٹ فارم کے ساتھ ٹھوس لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے۔جہاں مسائل کے حل میں پیش قدمی ہو تو وہیں قیام عدل کے نفاذ کے امکانات بھی پیدا ہو سکیں!
*****

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...