پیر، 29 اگست، 2016

مذاہب کی آڑ میں سیاسی داﺅ پیچ

 یہ عجب مذاق ہے کہ سیاسی لیڈران نہ صرف مختلف مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی راہنمابنے ہوئے ہیں بلکہ عرف عام میں سماج بھی انہیں اسی حیثیت سے دیکھتا ہے۔اس کے باوجود کہ ان کی عملی زندگیاں مذہب بیزار ی کے شواہد فراہم کرتی ہیں۔کچھ یہی معاملہ ملک کی اکثرتی طبقہ ہندو ﺅں کے تعلق سے ہے۔ تووہیں اقلیتوں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔موجودہ برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوﺅں کے ایک بڑے طبقہ کی ہر سطح پر رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔اور ہندوبھی انہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔
ہندو مذہب و ثقافت کا تحفظ وبقا اور اس کا قیام اِس مخصوص پارٹی سے وابستہ ہوکر رہ گیا ہے۔دوسری جانب سماج کا کمزور طبقہ جسے عرف عام میں دلت کہا جاتا ہے ،وہ بھی اپنے افکار ونظریات کی ترویج ،بقا و تحفظ کے لیے بہوجن سماج پارٹی کی جانب نظریں اٹھاتاہے۔تیسری جانب مسلمان ہیں جو گرچہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے کسی مخصوص پارٹی کی جانب متوجہ نہیں ہیں ،اس کے باوجود مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مسلمان سیاست داں یہی ثابت کرنے میں کوشاںرہتے ہیں کہ ہم نے جو اس سیاسی پارٹی سے اپنا تعلق استوار کیاہے ، اس کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل حل ہوں، ان کو تحفظ ملے۔ اوریہاں بھی عموماً اسی پس منظر میں ان مسلمان لیڈران کو دیکھنے کا رواج ہوگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان انہیں کامیاب کرتے ہیں اور اپنا سیاسی و مذہبی مسیحا سمجھتے ہیں۔مذہبی و سیاسی راہنما اس لحاظ سے کہ مذہب پر عمل پیرا وہ رہنے میںاسٹیٹ اور قانون جو مواقع فراہم کرتا ہے ، اس میں وہ مدد گار ہوں گے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو تاثر ان سیاسی لیڈران اور ان کی سیاسی پارٹیوں کے تعلق سے قائم کیا گیا ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ شواہد یہی ثابت کرتے ہیں کہ ان کے قول و عمل میں تضاد ہے اور مذہب اور مذہبی عقائد و نظریات سے وہ حد درجہ دورہیں۔

        فی الوقت چونکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں آئندہ سال انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے اترپردیش کی سماجی و مذہبی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں وقوع پذیر مختلف حادثات اور واقعات پر سیاسی لیڈران اپنا ردعمل سامنے لا رہے ہیں۔آپ کہ سکتے ہیں چونکہ وہ مختلف طبقات ومذاہب کے نمائندے ہیں،اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا رد عمل سامنے لائیں۔لیکن ہمارے خیال میں یہ بات اس لیے درست نہیں ہے کہ جس منصوبہ بندی کے ساتھ آج کل سیاسی محاذ پر سرگرمیاں جاری ہیں،وہ اس سے قبل گزشتہ سال ہونے والے واقعات کے بعد ،اپنا رد عمل ظاہر نہیں کر رہے تھے۔آج دلت سماج نے منظم طور پر گجرات واقعہ کے بعد اپنے جذبات کا جس طرح اظہار کیا ہے ،وہ گزشتہ سال رونما ہونے والے واقعات کے بعد نہیں تھا۔لیکن چونکہ ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ کون کس وقت کس مسئلہ پر اپنا رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔سروکار ہے اس بات سے ہے کہ اس طبقہ کے بیشتر رہنما جو زندگی کے بہترین دور ،دور جوانی میں ،طبقہ کے مسائل کے لیے سعی و جہد کرتے نظر آتے ہیں،اپنے نظریہ اور فکر اور سماجی تانے بانے کے خلاف موجود طاقتوں کو زبانی اور کہیں کہیں عملی بھی زیر کرتے نظر آتے ہیں،وہ آخر کار کیوں زندگی کے آخری دور میں داخل ہوتے وقت، اپنی فکر ونظریہ اور سماجی تانے بانے کے خلاف منظم و منصوبہ بند سعی و جہد کرنے والوں کاآلہ کار بن جاتے ہیں؟جس طرح ضعیفی کی حالت میں انسان کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح سیاسی و سماجی سطح پر وہ اپنے موقف میں اس وقت کیوں کمزور نظر آتے ہیںجبکہ وہ ساسی و سماجی سطح پر ایک مقام حاصل کر لیتے ہیں؟واقعہ یہ ہے کہ سیاسی وسماجی ہر دو سطحوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔اس کے باوجود بہوجن سماج پارٹی سے وابستہ یا اس طبقہ کے لیڈران زندگی کے آخری دور میں اُسی حریف کے ساتھ کیوں کھڑے نظرآتے ہیں جس کے خلاف وہ زندگی بھر آواز اٹھاتے آتے ہیں؟کیا وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہے؟یا ان کا ماننا ہے کہ سماج میں ذلت کی زندگی سے نکل کر عزت کی زندگی صرف سیاسی سطح پر بظاہر کامیابی ہی کی شکل میں حاصل کیا جا سکتا ؟کیا عزت کی زندگی سیاسی بساط پر کچھ عروج پالینا ہے ؟یا عزت یہ ہے کہ انسان جس عقیدہ اور نظریہ سے وابستہ ہے اس پر کاربند رہتے ہوئے مسائل کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اس دارفانی سے رخصت ہو جائے؟ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ اردو میں لکھی تحریر کا اس طبقہ سے کیا تعلق جس کا تذکرہ اور مسائل یہاںچھیڑے جا رہے ہیں؟کیونکہ بات کو کہنے کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے مخاطب ہوں،ان سے ،ان ہی کی زبان میں ان کے سامنے بات کی جائے۔پھر یہاں اس تحریر کو پڑھنے والے عموماً مسلمان ہیں تو مسلمانوں کے سامنے یہ سوالات کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میری کوشش کارآمد ثابت ہو رہی ہے اور رائیگاں نہیں جائے گی۔کیونکہ مخاطب آپ اور ہم ہی ہیں،یعنی وہ عام مسلمان،جو سیاسی محاذ پر اپنے مسائل کے حل،مختلف سیاسی پارٹیوں کے ان لیڈران سے وابستہ کرتے ہیں،جن کی سیاسی پارٹی نے ،کبھی بھی آپ کے مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ نہیں دی۔اب آپ سوچئے اور غور کیجیے کہ ہم بحیثیت مسلمان اُن سیاسی پارٹیوں سے اپنے مسائل کے حل کے لیے کیوں توقعات وابستہ کیے رہتے ہیں؟کیا ان سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اور منصوبہ ساز،آپ اور آپ کے مسائل کی جانب کبھی متوجہ ہوئے ہیں؟کیا انہوں نے آپ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا ہے؟کیا ان مسلم لیڈران کی جو مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں،اپنی ہی پارٹی میں مسلمانوں کے تعلق سے آواز اٹھانے پر ،متعلقہ لیڈران اور منصوبہ ساز،حوصلہ افزائی کرتے ہیں؟عمل درآمد،رد عمل ،اور مسئلہ کے حل کی جانب پیش قدمی کی جاتی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مسلمان ہندوستان کی آزادی کے بعد سے اب تک ،اس ستر سالہ دور اور اس میں درپیش مسائل کے مشاہدے کے بعد ،کوئی اور لائحہ عمل تیار کیوں نہیں کرتے؟اور کیا یہ لائحہ عمل صرف سیاسی لیڈران ہی تیار کرسکتے ہیں؟یا اس لائحہ عمل میں علاقائی سطح پر موجودسیاسی شعور رکھنے والے افراد بھی کوئی موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہیں؟

        بات کا اختتام اس بیان پر کرتے ہیں جس میں بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے کہا گیا ہے کہ معاشرہ بیدار ہوجائے تو پھر وہ کروڑوں لوگوں کے ساتھ بدھ مت اپنائیں گی۔مایاوتی نے کہا کہ باباصاحب امبیدکر نے بھی بدھ مت اپنانے میں جلد بازی نہیں کی تھی اور زندگی کے آخری وقت میں بدھ مت مذہب اپنایا تھا۔مایاوتی کا یہ بیان مہاراشٹر کے دلت لیڈر اٹھاولے کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے۔جس میں اتھاولے نے امبیڈکر کے نام پر مایاوتی پر سیاست کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ امبیڈکر کے نام پر سیاست تو کرتی ہیں لیکن ان کے نظریات کو نہیں مانتیں۔جواب میں مایاوتی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ رام داس اٹھاولے بی جے پی کی غلامی میں باباصاحب امبیڈکر کی تحریک کو صدمہ پہنچا رہے ہیں۔نیز یہ بھی کہ اٹھاولے دلتوں کو غلام بنانے کی ذہنیت رکھنے والے بی جے پی کے ایجنڈے پر کام کرنا بند کریں اور دلت اتحاد کو نہ توڑیں۔وہ یہ بھی کہتی سنی گئیں کہ وہ سچی امبیڈکروادی ہیں اوراترپردیش اسمبلی انتخابات میں اپنی شکست کے خوف سے بی جے پی مذہب کی آڑ میں سیاست کر رہی ہے ۔اسی مقصد سے اس نے حال میں'بدھ دھرم یاترا'شروع کی ہے۔ساتھ ہی الزام لگایا کہ آرایس ایس اور نریندر مودی نے اپنے سیاسی مفاد کے پیش نظر ہی بدھ مذہب کی تعریف شروع کی ہے،برخلاف اس کے وہ بدھ مذہب کی تعلیمات کو نہیں مانتے اور ان کے ماننے والوں پر ظلم کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔مایاوتی اور اٹھاولے کے بیان دربیان کے بعد اب آپ بتائیے کہ آپ اپنے مسائل کے حل کے لیے کون سا مذہب اختیار کرنے والےہیں!


v v v v v v v
01.08.2016

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...