بدھ، 16 مارچ، 2011

! ٹھہرا ہوا پانی

ٹھہرا ہوا پانی!

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے بھی کہ نہیں! اسلام کیا صرف تحریر و تقریر میں زندہ رہنے کا نام ہے یا اس کی حیثیت عملی ہے۔ اسلا م کیا چند معاملات میں زندہ رہنے کا نام ہے یا جملہ مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ پھر وہ مسائل جن کے حل ہم اسلام میںموجود نہیں پاتے (اپنی تنگ نظری کی بنا پر یا ایک مخصوص رویہ کی بنا پر) ان کو حل کیسے کیا جائے؟ اپنی بقا کے تحفظ کا سوال تو وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں زندگی پائی جاتی ہو۔ مردہ لاشیں چاہے وہ زمین دوز ہوں یا زمیں پر موجود، ان کی کیا حیثیت! مقابلہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، اپنے گھر کو شاداب و آباد رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جہاں گھر ہی نہ ہو، وجود ہی نہ ہو، پھر مقابلہ کس بات کا! ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ غیر حقیقی مسائل(جو ہماری نظر میں غیر حقیقی ہیں) کے حل تلاش کرنا ہی بند کر دیے جائیں۔ ان مسائل کو بھول جائیں، ان کو نظر انداز کر دیں۔ پھر! اس سے آگے یہ کہ ان مسائل کو تحریر میں نہ لائیں، تقریر میں بیان نہ کریں۔ آخری انتہا یہ کہ خود کو بھول جائیں، اپنے وجود کو ختم کر ڈالیں اور ان مسائل پر بحث و تکرار ختم کر دیں !!

مسائل تقاریر میں حل کرنے سے حل نہیں ہو جاتے۔ ان کے لیے ایک حقیقی دنیا درکار ہے اور حقیقی راستے ۔اگر آنکھوں سے راستے اوجھل ہوں تواس کا مطلب یہ نہیں ہوا کرتا کہ راستہ موجود ہی نہیں۔ ضرورت اس گرد و غبار کو صاف کرنے کی ہے جو دل و دماغ پر تہہ در تہہ چھا گیا ہے۔جیسے جیسے وہ صاف ہوتا جائے گا رفتہ رفتہ راستہ نہیں راستے (تمام مسائل اور ان کا حل) نمایاں ہوتے چلے جائیں گے۔مسائل بھی یہیں موجود، راستے بھی یہیں موجود۔ نہ کہیں دور جانے کی ضرورت ہے نہ کہیں سے مسائل کے حل تلاش کر کے لانے کی ضرورت ہے۔ جو مسائل آج تحریر و تقریر میں موجود ہیں ان کے تمام تر حل بھی وہیں موجود ہیں جہاں وہ تحریر و تقریر پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔

خود داری یہ نہیں کہ اپنی انا کے لیے ندیوں کے سوتوں کو خشک ہی چھوڑ دیا جائے۔ خود داری یہ ہے کہ خشک سوتوں میں زندگانی تلاش کی جائے۔ اس ٹھہرے ہوئے پانی کی روانی کو جاری و ساری کیا جائے۔ اس پانی کو اس قدر نہ ٹھہرا یا جائے کہ اس سے بد بو اٹھنے لگے۔ لوگ اس سے دور بھاگیں، اس کو کسی میں ملایا نہ جا سکے۔ بلکہ اس پانی کو رواں رکھا جائے کہ جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے نیز ایسے پانی سے ہر چھوٹا اور بڑامستفیض ہو سکے ۔ پھر یہ پانی جب اپنی مخصوص خوشبو اور مٹھاس کی وجہ سے دوسرے پانی میں ملے تو اُس کو معطر کردے اور کھارے پانی میں مٹھاس پیدا کردے۔ ایسا پانی ٹھہرے ہوئے پانی سے قطعی مختلف ہوگا!!

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...