پیر، 21 نومبر، 2011

مایا کا ٹرمپ کارڈ

مایا کا ٹرمپ کارڈ

عام طور پر سیاست کی بساط پر وہی لوگ کامیاب کہلاتے ہیں جن میںمختلف خوبیوں کے ساتھ ساتھ وقت کی نزاکت کو سمجھنے، حالات کے تحت منصوبہ بندی کرنے اور فیصلہ لینے کی صلاحیت موجود ہو۔ہندوستان کو 1947میں آزادی ملی اور اسی وقت سے ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیاگرچہ اس وقت ملک میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی زبان اردو تھی لیکن اردو کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہندی زبان کو فروغ ملا پھر نہ صرف ہندی اردو کے درمیان دوریاں بڑھائی گئیں بلکہ زبانوں کی بنیاد پر سیاسی کرسیاں تقسیم ہوئیں۔جس وقت انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا ناجائز قبضہ کیا اس وقت بھی انھوں نے divide and ruleکی پالیسی اپنائی تھی اوریہ بات آزادی سے پہلے کی تھی لیکن ہائے افسوس کہ آزادی کے بعد بھی ملک میں یہ پالیسی مختلف وقتوں میں استعمال کی جاتی رہی کیونکہ تقسیم کے بعد چھوٹی مچھلی نگلنا بہ نسبت بڑی مچھلی کے زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔

مایا کی یوپی:

اّتر پردیش کی وزیر اعلیٰ مایا وتی نے یوپی کو چار چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی بات اس وقت کہی ہے جبکہ ایک دن پہلے راہل گاندھی نے بڑی محنت اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوپی میں آئندہ ہونے والے الیکشن مہم کا آغاز پھولپورکانسٹی ٹیونسی سے کر دیا ہے۔یہ وہی مقام ہے جہاں ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کامیاب ہوئے تھے۔پنڈت جی نہ صرف پہلے وزیر اعظم تھے بلکہ آئندہ ہونے والے کانگریس پارٹی کے وزیر اعظم کے نانا بھی ہوا کرتے تھے۔مجمع کو خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے یوپی کے لوگوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کی وہیں وہ خود بھی جوش میں آکر یوپی کے لوگوں کو یہ نصیحت کر بیٹھے کہ وہ دیگر ریاستوں میں بھکاریوں کی سی زندگی گزارنا چھوڑ دیں۔لیکن اس خطاب کے مثبت نتائج نکلنے کی بجائے منفی تاثرات سامنے آئے اور میڈیا جو کسی کو اوپر اور نیچے چندہی سکنڈ میں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس نے راہل اور ان کی کوششوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مایاوتی کے بیان کو اہمیت دی کہ" یوپی کو چار چھوٹی ریاستوں میں ہرت پردیش،اودھ پردیش،بندیل کھنڈ اور پوروانچل کی تجویز 21نومبر سے شروع ہونے والے اسمبلی سرمائی اجلاس میں پاس کراکر مرکزی حکومت کو بھیج دی جائے گی"۔ اور اس بیان کو اہمیت بھی کیوں نہ دی جائے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ راہل کا خطاب ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو لیکن مایا وتی کا بیان نہ صرف یوپی کےعوام بلکہ ملک کی سیاست کے لیے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

حقیقت کیا ہے:

مایا وتی کے بیان کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟ یہ دیکھنے اور غور کرنے کی بات ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یوپی کیونکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اس لیے یہاں فلاح و بہبود کے کام کرنا مشکل ہے۔نظم و ضبط قائم رکھنا اور لوگوں کو ان کے حقوق دلانا ، ریاست کی ترقی اور خوشحالی اور ایڈمنسٹریشن پر کنٹرول رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے بدنظمی دیکھنے میں آتی ہے۔اگر ریاست چھوٹی ہو تو یہ دشواریاں جلد دور ہو جائیں گی اور یہ قدم انھوں نے یکساں ترقی کے لیے چھوٹی اکائیوں کے تعلق سے بابا صاحب امبیڈ کر کے فلسفے سے متاثر ہوکر کیا ہے۔بی جے پی اور سماج وادی پارٹی ان کے اس دعوے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔دونوں کے مطابق یہ الیکشن سے قبل مایاوتی کی چال ہے۔ملائم سنگھ کے مطابق یہ سیاسی سازش اور انتخابی چال ہے جبکہ بی جے پی مغربی اتر پردیش کو الگ ریاست بنائے جانے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے۔کانگریس نے اس معاملے میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ایک جانب جہاں اتر پردیش کی صدر نے اسے گھبراہٹ میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا وہیں مرکزی وزیر سلمان خورشید نے کہا کہ کانگریس ہمیشہ سے چھوٹی ریاستوں کے حق میں رہی ہے۔بقول مایا وتی 2011مردم شماری کے مطابق یوپی کی کل آبادی 19کروڑ 95لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔مایا وتی کا کہنا ہے کہ آئین کی دفعہ تین کے مطابق نئی ریاستوں کی تشکیل اور ان کے علاقوں میں تبدیلی کا حق مرکزی حکومت کا ہے اس لیے کابینہ نے تجویز منظور کردی ہے اور اب اسے قانون ساز کونسل سے منظور کروانے کے بعد مرکزی حکومت کے پاس بھیج دی جائے گا۔

مایاوتی کے چھوٹی ریاست کے بیان سے قبل راہل گاندھی نے پھولپور سے اپنی انتخابی مہم کا با ضابطہ آغاز کرتے ہوئے اتر پردیش کی مایا وتی حکومت کو جم کر نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ اتر پردیش کو فلاحی اسکیموں کے لیے مرکز سے جو پیسہ ملتا ہے وہ بدعنوانی کی نظر ہو جاتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ گزشتہ چھ سالوں سے ریاست کا دورہ کر رہے ہیں لیکن انھیں مختلف علاقوں میں غریبی،مظلومی اور بے بسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔مزید کہا کہ ریاست میں کسانوں سے زمین زبردستی چھینی جا رہی ہے اور احتجاج کرنے پر لوگوں کو گولیوںکا نشانہ بنیا یا جا رہا ہے۔مرکزی حکومت سے 60کروڑ روپے کا پیکیج بھجوایا گیا لیکن وہ بد عنوانی کی نظر ہو گیا۔اس کے برخلاف مایاوتی کہتی ہیں کہ یہ وہی ریاست ہے جس نے ملک کو سب سے زیادہ وزیر اعظم دیے لیکن اس کے باوجود اس کی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی۔انھوں نے کہا کہ ریاست کے سب سے پس ماندہ علاقے بندیل کھنڈ کی ترقی کے لیے ان کی حکومت نے 80ہزار کروڑ کے پیکیج کا مرکز سے مطالبہ کیا تھا لیکن مرکز نے اب تک کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک جانب راہل گاندھی ملک کی اعلیٰ ترین سیٹ حاصل کرنے کی مہم میں ہیں تو وہیں دوسری طرف ملک کو سب سے زیادہ وزیر اعظم دینے والی ریاست میں بہوجن سماج پارٹی،سماج وادی پارٹی، بھارتی جنتا پارٹی بھی کسی سے کم نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک جانب بی جے پی اور اس کی مادری تنظیم آرایس ایس نے بابا رام دیو، اننا ہزارے اور سری سری روی شنکر کوملک سے کرپشن اور بد عنوانی کے خاتمہ کا مدا اٹھا کر الیکٹرانک میڈیا میں چھا جانے کی مہم تیز کی تو وہیں دوسری جانب کانگریس کے دگ وجے سنگھ اپنے پرانے ساتھیوں کے کارنامے بیان کرتے پھر رہے ہیں اور اُن واقعات کا بھی تذکرہ و قیاس کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کو گمان ہے کہ یہ دہشت گردی کے کام اور ملک میں بد امنی اُن ہی لوگوں نے پھیلائی ہے جن کی فکر سے کبھی وہ خود بھی وابستہ رہے ہیں۔

مایا کا ٹرمپ کارڈ:

ایسے موقع پر جب کہ ایک جانب یادو ووٹ تقسیم ہوا چاہتا ہے اور ایس پی کا سب سے بڑا ووٹ بنک مسلمان بھی اب ملائم سنگھ یادو کے وعدوں پر توجہ نہیں دے رہے کیونکہ ملائم سنگھ نے کلیان سنگھ جو بابری مسجد شہید کرنے میں پیش پیش رہے ان کوایس پی میں شامل کر کے اور پھر نکال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی موقع کی تلاش اور کرسی کی دوڑ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔کل کے ملائم جو بی جے پی اور اس کے لیڈروں پر آوازیںکستے تھے آج وہ ان کے قدم چومنے کے لیے تیار ہیں، یہ الگ پریشانی کی بات ہے کہ بی جے پی سے زیادہ قربت پیدا کرنے کے نتیجہ میں ان کو اپنا وجود خود ہی خطرے میں نظر آتا ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ وہ بی جے پی سے دوری بنائے رکھنے میں ہی اپنی آفیت سمجھتے ہیں۔پھر دوسری جانب ان کی بہت ہی قریبی دوست رہے ٹھاکر امر سنگھ بھی ان کی کاٹ میں مصروف ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی سیاسی پارٹی راشٹریہ لوک منچ کا اسٹیج سجانے کی تیار کری چکے ہیں۔لہذا ملائم کی ایس پی مایا وتی کے لیے ایک بار پھر ملائم ثابت ہوسکتی ہے۔

یوپی میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات کا بگل تو بجایا ہی جا چکا ہے لیکن تمام ہی پارٹیاں بری طرح سے بوکھلائی نظر آرہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر بی جے پی نے اپنے پرانے مدے "رام مندر"کی تعمیر کی بات کہنی شروع کردی ہے۔ لیکن فی الوقت مایا وتی کے یوپی تقسیم کے پلان نے سب کے نیندیں حرام کر دی ہیں۔جہاں ایک طرف یہ حقیقت ہے کہ چھوٹی ریاست بڑی ریاست کے بالمقابل زیادہ بہتر نظم و نسق قائم رکھ سکتی ہے وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹی ریاست کے نتیجہ میں یوپی کے بہت سے پرانے مدے بھی تقسیم ہو جائیں گے۔اور ان تمام مدوں میں سب سے بڑا مدا شہید بابری مسجد کا مدا ہوگا جس کی بنیاد پر ابھی تک ملک میں اور خصوصاً یوپی میں بی جے پی اپنی ایک الگ شناخت بناتی آئی ہے۔پھر وہ لوگ بھی جو ایک طویل عرصہ سے چھوٹی ریاست کے حق میں اپنی آوازیں اٹھا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ یوپی تقسیم ہو کر ہرت پردیش اور دیگر ناموں سے ان کے قبضہ اختیار میں آجائے ان کے خوابوں پر بھی پانی پھر سکتا ہے۔لیکن سیاست اتنی آسان بھی نہیں کیونکہ یہ وہ موقع ہے جب کہ سی بی آئی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں کہ اتر پردیش کی وزیراعلیٰ مایاوتی اور ان کے رشتہ داروں کے پاس غیر قانونی دولت ہے۔ مایاوتی کے خلاف کرپشن کیس کے سلسلے میں ایک حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے پاس گواہوں کے بیانات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مایاوتی نے عوام سے زبردستی تحائف حاصل کئے ہیں۔ سی بی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ معاملہ بڑاسنگین ہے لہٰذا وزیراعلیٰ اور ان کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا جائے۔ سی بی آئی نے مزید کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ ان کے پاس اپنے جائز وسائل سے زائد اثاثہ جات ہیں۔ سی بی آئی کے حلف نامے میں ہزار ہزار روپوں کے ہار بھی ظاہر کئے جس کی مالیت 21 لاکھ روپے ہے جو مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر 15 مارچ کو لکھنومیں پیش کیا گیا۔ اس کے باوجود مایاوتی کہتی ہیں کہ سی بی آئی کا حلف نامہ کانگریس کی مرکزی حکومت نے ان سے سیاسی معاملات طے کرنے کیلئے پیش کیا ہے لہٰذا عدالت ان کے خلاف کرپشن کیس ختم کر دے۔وہیں یوپی اے سرکار کو بھی اس تذبذب میں ڈال دیا ہے کہ آیا وہ چھوٹی ریاست کے حق میں بیان دے یا اس کے خلاف۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف کانگریس کی ریاستی صدر کچھ کہتی ہیں تو وہیں مرکزی وزیر سلمان خورشید کچھ اور۔

مایاوتی نے اپنا ٹرمپ کارڈ کھول دیا ہے اور یہ وہ مدا ہے کہ جس پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بھی دلچسپی لیے بغیر نہ رہ سکے گا۔فائدہ یہ ہوگا کہ مایا وتی کو موقع مل جائے ان لوگوں کو سامنے لانے کا جو اس کے مخالف ہیں اور یہ کہنے کا بھی کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ریاست میں امن و امان اور ترقی و خوشحالی دیکھنا نہیں چاہتے۔فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مایا وتی کا کرپشن دب جائے گا،کانگریس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی کی آواز میڈیا میں پست کی جا سکے گی اور اُن لوگوں کی آوازیں بھی پست کی جا سکیں گی جو ریاست میں سیاست صرف مذہبی رنگ چڑھا کر ہی کیا کرتے ہیں ان کی کمندیں بھی ڈھیلی ہو چلیں گی!

vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...