منگل، 27 نومبر، 2012

گجرات و ہماچل کا انتخابی بگل اور ملک کی حالت زار!


گجرات و ہماچل کا انتخابی بگل اور ملک کی حالت زار!

                اُدھر گجرات اور ہماچل کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا اور اِدھر سیاست کی بساط پر شہ مات کے کھیل کا آغاز۔گجرات میں اسمبلی نتخابات تیرہ اور سترہ دسمبر کو ہوں گے جبکہ ہماچل پردیش میں چار نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ انتخابی کمیشن نے ان تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ووٹوں کی گنتی بیس دسمبر کو کی جائے گی اور اسی روز نتائج آنے کی توقع ہے۔اعلان کے ساتھ ہی انتخابی ضابطہ اخلاق کا بھی نفاذ ہوگیا ہے۔یہ دونوں ہی ریاستیں وہ ہیں جہاں فی الوقت بی جے پی کی حکومت ہے۔ریاست گجرات کے شوراشٹر کے علاقے میں کسانوں کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے ۔بدعنوانی کے سوال پرسونیا گاندھی نے کہا کہ بی جے پی کے قول و فعل میں بہت فرق ہے۔ ’یہ لوگ بدعنوانی کے خلاف نہیں بلکہ ہمارے خلاف ہیں۔ وہ اپنی ان ریاستوں میں کارروائی کے لیے تیار نہیں جہاں وہ خود بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ترقیاتی کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس ترقی کا تعلق ہم سے بھی ہے کیونکہ اس کے لیے مرکزی حکومت بھی پچاس فیصد کا تعاون کر رہی ہے۔لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ سونیا گاندھی نے نریندر مودی پر نکتہ چینی کرنے سے گریز کیا اور مودی کے الزامات کا جواب تک نہیں دیا۔اس کے برعکس مودی کا کہنا تھا کہ جب دو ہزار آٹھ میں جارج بش کو دوسری بار انتخابات میں مسائل کا سامنا تھا تو کانگریسی حکومت نے ایک بڑا رسک لے کر جوہری معاہدہ کیا تھا اور اب ایک بار پھر جب صدر اوباما اسی صورت حال سے گزر رہے ہیں تو امریکی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریٹیل سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا ہے۔مودی کا الزام تھا کہ منموہن سنگھ اسی وقت جاگتے ہیں جب امریکی معیشت کو مسائل در پیش ہوتے ہیں اور ہندوستان کے گھریلو مسائل میں ان کی دلچسپی نہیں ہے۔سونیا گاندھی نے اپنے دورہ گجرات میں ان تمام الزامات پر کوئی بات نہیں کی۔سوال یہ اٹھتا ہے کیا واقعی ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا یا جو بات کہی جا رہی ہے اس میں کسی درجہ سچائی پائی جاتی ہے؟
اب ایس پی بھی زورآزمائی کرے گی:
                گجرات میں مسلمانوں کی آبادی کے پیش نظر یو پی کے بعد گجرات میں بھی سماج وادی پارٹی اب زور آزمائی کیاچاہتی ہے۔پارٹی لیڈران کا گمان ہے کہ جس طرح اتر پردیش میں یکطرفہ مسلم ووٹوں سے اس کو کامیابی نصیب ہوئی ہے اسی طرح گجرات میں بھی مسلم ووٹوں سے فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔یہ فائدہ نہ صرف ریاست میں سود مند ثابت ہوگابلکہ آئندہ آنے والے 2014کے پارلیمانی انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔182سیٹ والی ریاست میں وہ منجملہ کم از کم80نشستوں پر مقابلہ پر غور کر رہی ہے۔دیگر پارٹیوں کے بعض سینئر سیاسی قائدین کو ساتھ لینے کا امکان بھی محسوس ہو رہا ہے تاکہ گجرات میں پارٹی کی بنیاد مضبوط کی جا سکے۔پارٹی کے ایک سینئر قائد نے کہا کہ گجرات میں نریندر مودی سے مقابلہ یقینی طور پر پارٹی کو سیکولر محاذپر فوقیت فراہم کرے گا اور اس کے نتیجہ میں پارٹی کو 2014لوک سبھا انتخابات کے دوران سارے ملک میں مسلم ووٹوںکو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔انھوں نے بتایا کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں ایس پی کے مقابلہ کی اہمیت کو پارٹی کی جانب سے حاصل کی جانے والی نشستوںیا اس کے محصلہ ووٹوں کے تناسب سے نہیں جانچنا چاہیے بلکہ اس کے اقلیتوں کے لیے پیام کی اہمیت کی اساس پر جانچنا چاہیے۔یہ وہ خوش فہمی ہے جس میں سماج وادی پارٹی کے لیڈران ملوث ہیں اس کے باوجود کہ انھیں کے نظم و نسق اور سرپرستی میں مسلمانوں کی جان و مال سے کھلواڑ کی جا رہی ہے وہ ہیں کہ تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ریاست اتر پردیش کے مختلف مقامات پرلوٹ مار، آگ زنی اورفسادات کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری ہے اور یہ سب ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔مسلمان بار بار متوجہ کر رہے ہیں اس کے باجود ہر دن کوئی نیا معا ملہ سامنے آ جاتاہے۔کہیں مسلم نوجوانوں کی بلاجواز،قیاس پر مبنی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے تو کہیں فسادات کی آندھی ہے کی جس نے پوری ریاست میں مسلمانوں کو ایک نئے خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔اور یہ سب کچھ اس ریاست میں ہو رہا ہے جہاں مسلمانوں ہی کی کرم فرمائیوں کے نتیجہ میں یہ پارٹی حکومت میں آئی ہے۔ایسے موقع پر سماج وادی پارٹی کے لیڈران اگر مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا کوئی معقول اور مستحکم اقدام نہیں کرتے تو پھراس خوش فہمی سے انھیں جلد ہی نکلنا بھی پڑجائے گا۔
اور یہ نئی نئی پارٹیاں:
                نہ صرف گجرات بلکہ اس وقت ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ نئی نئی سیاسی پارٹیاں تشکیل پا رہی ہیں اور سب کو امید ہے کہ وہ کسی نہ کسی درجہ میں حالیہ اور آئندہ2014میں اثر انداز ہوں گے۔ ان نئی پارٹیوں کی آمد سے نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بی جے پی کی اندرونی چپقلش ضرور اس کے ووٹ بنیک پر اثرانداز ہوگی۔ابھی حال ہی میں گجرات بی جے پی کے سابق سینئر رہنما کیشو بھائی پٹیل نے"گجرات پریورتن پارٹی" کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ریاستی دارالحکومت احمد آباد میں اپنی نئی جماعت کا اعلان کرتے ہوئے مسٹر پٹیل نے کہا کہ وہ اس برس ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیں گے۔اور بتایا کہ ان کی جماعت کا مقصد گجرات کا وقار بحال کرنا اور سبھی لوگوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہے۔پارٹی سے استعفیٰ دیتے ہوئے کیشو بھائی پٹیل کا کہنا تھا کہ جس طرح اس وقت پارٹی کام کررہی ہے اس سے وہ خوش نہیں ہیں اور میں پارٹی بڑے درد کے ساتھ چھوڑ رہا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:"موجودہ بی جے پی جمہوریت سے کوسوں دور جا چکی ہے اور عوام سے لا تعلق ہوچکی ہے،ان حالات میں وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے نئی جماعت بنانے کے بارے میں سوچا جو اصل بی جے پی ہوگی"۔ادھر دوسری طرف کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپانے بی جے پی سے اپنے الگ ہونے کا واضح طور پر اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ 19نومبر کو نئی سیاسی پارٹی تشکیل دیں گے۔ مسٹر یدی یو رپا نے نامہ نگاروں سے کہا کہ وہ کسی دیگر سیاسی پارٹی میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر نئی سیاسی پارٹی تشکیل دیں گے۔انھوں نے کہا کہ وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے کے خواہش مند نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں بی جے پی کے ریاستی صدر کا عہدہ چاہیے۔ مزیدبتایاکہ پارٹی اعلیٰ کمان نے انہیں ریاستی صدر بنانے کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرادی ۔وہ کہتے ہیں کہ پارٹی عہدیداروں نے انہیں ایذائیں دیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب بی جے پی سے اپنا رشتہ منقطع کرنا چاہتے ہیں۔اورایک تیسری ابھرتی ہوئی نئی سیاسی پارٹی جس کا دراصل پس منظر بھی وہی ہے جو اوپر دو کا بیان کیا جاچکا ہے۔یعنی یہ کہ جو کل ساتھ تھے آج ان کے کام اور طریقہ کار سے اتفاق نہیں لہذا بہتر اور مناسب یہی طریقہ لگا کہ اب اپنی بانسری خود ہی بجائی جائے اور ایک نئی سیاسی پارٹی وجود میں آجائے۔یہ لوگ کون ہیں؟یہ پارٹی اور لوگ وہی ہیں جنھوں نے ہندوستان میں بدعنوانی کے خلاف تحریک چلائی تھی۔جن کا کہنا تھا کہ وہ کسی سیاسی پارٹی یا اس کے مفاد سے وابستہ نہیں اور یہ صرف اور صرف عوامی تحریک ہے۔لیکن جب پردے کے پیچھے کی حقیقتیں ظاہر ہونے لگیں، وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے بلند ہوئے تو یہ ایسے بکھرے کہ جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہ ہو۔اور اب یہ اہم سماجی کارکنان بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کر رہے ہیں۔دو اکتوبر یعنی مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر دارالحکومت دلی میں سماجی کارکن اروند کیجروی وال اور ان کے بعض ساتھیوں نے ایک شاندار تقریب میں نئی پارٹی کا اعلان کیا لیکن جماعت کا نام ابھی نہیں رکھا۔کہاکہ نام کے لیے عوام سے رائے مانگی گئی ہے اور لوگوں کی طرف سے تجویز کردہ کسی ایک نام کا اعلان چھبیس نومبر کو کیا جائے گا۔
پھر یہ تشویشناک پہلوبھی سامنے رہنا چاہیے:
                ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے صدر صاحب کا معاملہ بھی آج کل کچھ صاف نہیں لگتا۔آرٹی آئی کارکن انجلی دمانیا کے انکشاف کے بعد بی جے پی صدر نتن گڈکری کی مشکلیں مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ گڈکری کے ذریعہ لکھے گئے دو ایسے خطوط سامنے آئے ہیں جن میں انھوں نے آبی وسائل کے وزیر پون کمار بنسل سے اپنے قریبی اجے سنجنتی کی کمپنی کے بقایا پیسے جاری کرنے کی سفارش کی ہے۔ گڈکری نے پون کمار بنسل سے درخواست کی ہے کہ مہاراشٹر آبپاشی محمکے کے منصوبوں میں کام کر رہے کچھ ٹھیکداروں کے پیسے جاری کیے جائیں۔بی جے پی صدر نے جن کمپنیوں کی حمایت میں بنسل کو خط لکھاان میں کچھ کمپنیوں کے مالک گڈکری کے قریبی اجے سنجینی ہیں۔گڈکری نے بنسل کو بھیجے خط میں لکھا کہ آبپاشی محکمے کے منصوبوں کا کام پوری تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اگر ان کے بقایا جات نہیں ملے تو ٹھیکدار کام روک سکتے ہیں جس سے منصوبوں کے پورا ہونے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس وقت قریب400کروڑ باقی ہیں۔ انھوں نے آبی وسائل کے وزیر سے درخواست کی ہے کہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جلد از جلد رقم جاری کر دی جائے۔ اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ آبپاشی گھپلے میں نتن گڈکری کے قریبی اجے سنچتی، راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے رکن اسمبلی سندیپ باجوریا اور کانگریس کے وزیر پتنگ را کدم کے ہونے والے سمدھی اویناش بھوسلے شامل ہیں۔دعویٰ کیا گیا تھا کہ سب پر اجیت پوار کی مہربانی رہی ہے، جنھوں نے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے پیسوں کی لوٹ مچائی اور انہیں کنٹریکٹ دیے۔ سنچیتی کو قوانین کو الگ رکھ کر تین سے زیادہ کنٹریکٹ دیے گئے جبکہ قانون کے مطابق ایک فرم کو تین سے زیادہ کنٹریکٹ نہیں دیے جا سکتے۔ سال 2005میں سنچیتی کا نام بدل کر ایس ایم ایس انفرا اسٹرکچر کر دیا گیا اور اس کے بعد جوائنٹ وینچر کے طور پر ڈی اینڈ ایس این بنا اور اسے آبپاشی محمکے کے کنٹریکٹ ملے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب پراجیت پوارکی مہربانی رہی۔اجیت پوار1999سے2009تک آبپاشی کے وزیر رہے اور ودربھ سینچائی ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے صدر بھی رہے۔ان سب کو اجاگر کرنے والی ہیں آر ٹی آئی کارکن انجلی دمانیا۔ انہی کی کوششوں سے یہ سارے معاملے اب میڈیا میں اٹھ رہے ہیں۔
ملک کے حالات بہت سنگین ہیں!
                ایک طرف ملک کی باگ دوڑ سنبھال رہی حکومت ہے کہ جس پر یہ الزامات آئے دن لگتے رہتے ہیں کہ وہ ہندوستان سے زیادہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی فکر رکھتے ہیں۔ وہاں کی معیشت کے مسائل ہندوستان جیسی بڑی منڈی سے حل کیے جاتے ہیں۔ جس کی تازہ مثال کھدرابازار، پنشن اور انشورنس میں بیرونی سرمایہ کاری یعنی ایف ڈی آئی کا بڑھا اثر و وثوق اور شراکت داری ہے ۔تو دوسری طرف ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹی اندرونی خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔جس کے نتیجہ میں وہ نہ خود اس حالت میں ہیں کہ کوئی متبادل پیش کر سکیں اور نہ ہی ان کے مددگار کوئی صاف ستھری تصویر رکھتے ہیں کہ ان کی طرف نظر اٹھائی جائے۔تیسری طرف بدعنوانی، کالا دھن اور اسی طرز کی باتیں اور نعرے بلند کرنے والے بھی اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔چوتھی طرف اقلیتوں کے مسیحا خصوصاً مسلمانوں کے چیمپیئن، انھوں نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف حکومت کی گدی کے حصول تک تو بڑی بڑی باتیں کر سکتے ہیں لیکن انتظامیہ اور نظم و نسق کے اداروں میں ان کی کوئی خاص پکڑ نہیں جس کے نتیجہ میں وہ کوئی بڑا اقدام کر سکیں۔اور اس سب کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدلیہ کا حالیہ فیصلہ ۔جس میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم اور غیر معمولی فیصلے میں سلمان خان کی فلم"مائی نیم از خان ، بٹ آئی ایم ناٹ ٹیررسٹ"کا حوالہ دیتے ہوئے1994ءکے 11ٹاڈا قیدیوں کو باعزت رہا کر دیا ہے۔سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ایک معصوم شخص کو صرف اس بناءپر دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ایسے موقع پر بہت ہی اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور پولس وضع کردی تھیوری"تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں مگر تمام دہشت گرد مسلمان ہیں"کے زیر اثر کام کر رہی ہیں؟ان تمام واقعات کے پس منظر میں پھیلی چہار طرفہ بے سکونی، افسردگی، خوف و ہراس اور بد امنی پر یہ کیسے کہا اور سمجھا جائے کہ ملک کی موجودہ سیاست اقدار پر مبنی ہو سکتی ہے یا کی جا سکتی ہے؟ شاید صرف اس بنا پر کہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو دنیا کے نظام کو چلانے والا متبادل بھی پیش کرتا ہے۔ اور یہ متبادل وہی ہوگا جوا قدار پر مبنی ہوگا!
vvvvvvv

شائع کردہ:
ہفت روزہ عالمی سہارا،نئی دہلی (صفح نمبر:37-36) بتاریخ:۰۲اکتوبر۲۱۰۲ء(http://aalamisahara.com/20102012/Home.aspx)

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...