جمعرات، 13 دسمبر، 2012

گھپلوں اور اسکینڈلس کے ملک میں!


گھپلوں اور اسکینڈلس کے ملک میں!

                گھوٹالے اوراسکینڈلس ہندوستان میں اب عام بات ہو گئی ہے۔جب بھی کوئی اسکینڈل سامنے آتا ہے تو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اس کی خبریں شائع کرتے ہیں اس کے باوجود نہ اسکینڈلس میں کمی آتی ہے اور نہ ہی ان لوگوں کی گرفت کی جاتی ہے جو سزا وار ہوتے ہیں۔ہاں ہوتا ہے تو بس اتنا کہ کچھ جانچ کمیٹیا تشکیل دے دی جاتی ہیں اور وہ اپنی کارورائی اطمینان کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی ان کو سب سے پہلے ڈاٹا جمع کرنے پڑتے ہیں،پھر ثبوت فراہم کرنے کا اہم کام ،گواہوں کے بیانات وغیرہ وغیرہ پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے۔تب کہیں جاکر رپورٹ تیار ہوتی ہے،چند نام سامنے آتے ہیں،ان سے جرح ہوتی ہے،وہ اپنے خلاف کاروائی کو سیاسی رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،کاروائی کا آغاز عدالتوں میں ایک بار پھر شروع ہوتا ہے،پھر انھیں پروسیس سے گزرتے ہوئے اور عدالتوں کی بے انتہا مصروفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دن،مہینہ اور سال گزرتے جاتے ہیں۔کچھ لوگ باقی رہ جاتے ہیں اور زیادہ تراِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔فیصلہ کبھی فرد واحد یا گروہ کی موجودگی میں آجاتا ہے اور زیادہ تر وہ افراد ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں جن پر کبھی کسی زمانے میں کاروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔عوام آئے دن گھوٹالوں سے تنگ آکر روزمرہ کی مصروفیات میں مشغول رہنے کو ہی مناسب سمجھتی ہے۔ وہ جو ٹیکس اور دیگر ذرائع سے ملک کی فلاح و ترقی کے لیے پیسہ ادا کرتے ہیں ان کو چند لوگ لوٹتے ہیں،ناجائز انداز سے اپنی ذات اور متعلقین پر صرف کرتے ہوئے عیاشی کے مختلف مدات میں خرچ کرتے ہیں۔ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن رہتا ہے اور اہل ملک سب کچھ دیکھنے سننے اور جاننے کے باوجود ان معاملات سے خود کو ناواقف ثابت کرنے ہی میں اپنی بھلائی سمجھتے ہیں۔کیونکہ وہ خود جن پریشانیوں اور دشواریوں اور مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اگر وہ ان کے علاج اور حل کے لیے کوشاں نہ رہے اور ملک اور ملک میں پنپنے والے زہریلے ساپنوںکو مارنے کی کوشش میں پڑگئے تو وہ جانتے ہیں کہ نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلے گا کہ ان کا قیمتی وقت برباد ہوگا،ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا اور عین ممکن ہے کہ ان کو کورٹ اور کچہریوں کے چکر بھی کاٹنے پڑجائیں ۔لہذا عوام کی اکثریت خاموش تماشائی بنے رہنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہے۔اور یہی فی الوقت ملک عزیز ہند اور اس کے شہریوں کی صورتحال ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔

چائلڈ ڈیو لپمنٹ گھپلہ !
                کہتے ہیں بچے ملک کا مستقبل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی ہمہ جہت ترقی و کامیابی کے لیے حکومتیں مختلف قسم کی اسکیم چلاتی ہیں۔جن میں ان کو رعایتیں دی جاتی ہیں نیز ان کی مدد و رہنمائی انجام دی جاتی ہے تاکہ ملک کا مستقبل روشن اور تابناک ہو۔اسی طرح کی ایک اسکیم1975میں خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزرات نے جاری کی تھی۔جس کا مقصد خواتین اور کمزور و غریب بچوں کی غذائی کمی کو پورا کرنا اور بھوک و لاچاری سے دوچار بچوں کی مدد کرنا تھی۔اس کے باوجود 37سال کا عرصہ گزرنے اوراربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ہندوستان غذا کے معاملے میں سب سے پیچھے ہی رہ گیا۔معاملہ مہاراشٹر کا ہے جہاں ایک نیا گھپلہ سامنے آیا ہے۔گھپلہ میں بچوں کی فلاح وہ ترقی اور ان کے حقوق سے متعلق منصوبوں میں دھاندلی کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے مہارشٹر میں چلائی جانے والی بچوں کی اسکیم میں ایک ہزار کروڑ روپے کا گھپلہ ہوا ہے۔ گھپلے کا انکشاف غذائی تحفظ پر چل رہی سرکاری اسکیمیوںکی نگرانی کے لیے مقرر سپریم کورٹ کے کمشنر نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نجی کمپنیوں نے فرضی خاتون کمیٹی بنا کر پورے منصوبے پر قبضہ کر لیا۔آدرش، آبپاشی،ٹول ٹیکس گھپلوں کے بعد اب تغذیہ کی کمی کے شکار بچوں اور خواتین کے لیے کھانے پر بھی گھپلے بازوں کی نظر پڑگئی ہے۔ ملک بھر میں جاری تغذیہ کی سلامتی کے منصوبوں کی نگرانی کے لیے مقرر سپریم کورٹ کے کمشنروں کی یہ رپورٹ حیرت انگیز ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہارشٹر میں 1000کروڑ کی بچہ ترقی منصوبہ پر ٹھیکداروں نے قبضہ کر کے کچھ نجی کمپنیوں نے خواتین ڈویزن کی آڑ میں پورے منصوبہ کی سپلائی کا ٹھیکہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس معاملے میں لیڈروں، ٹھیکداروں اور کمپنیوں کی ممکنہ ساز باز کی پوری جانچ سپریم کورٹ کی نگرانی میں غیر جانب دار ایجنسی کی جانب سے کیے جانے کا منصوبہ ہے۔غور طلب ہے کہ کچھ سال قبل سپریم کورٹ نے آئی سی ڈی ایس میں ٹھیکہ دینے پر روک لگا دی تھی، اس کے باوجود مہارشٹر حکومت نے 2009ءمیں قوانین بدل کر سماجی تنظیموں اور خواتین کے اداروں کو ٹھیکہ لینے کی اجازت دے دی تھی، اس کے بعد سے ہی بچوں اور ان کے خاندان کو مفت میں کھانا فراہم کرنے کی ذمہ داری ان کمپنیوں نے لی تھی۔اس درمیان، کمپنیوں کو موقع مل گیا کہ وہ سپلائی کے بہانے گھپلہ کر سکیں۔مہاراشٹر میں حکومت نے سپلائی کا ٹھیکہ تین خواتین ڈویزن کو دیا، تاہم ان خواتین کے پاس نہ کھانا بنانے اور نہ ہی سپلائی کرنے کی کوئی سہلوت تھی۔رپورٹ صاف ظاہر کرتی ہے کہ انہی کمپنیوں نے لیڈروں کے ساتھ ساز باز کرکے خاتون ڈویزن کو اپنا مہرہ بنایا۔رپورٹ اس جا نب بھی توجہ دلاتی ہے کہ جہاں کھانا سپلائی ہو رہا تھا وہ بھی کوالٹی لے لحاظ سے نہایت خراب تھا۔

ان حالات میں ۔۔۔۔۔۔!
                جس ملک کا نیشنل فیملی ہیلتھ سروے3یہ بتاتا ہو کہ ملک میں ہر روز 5000بچے غذ اکی کمی سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔وہاں بڑے بڑے گھپلے ہوتے رہیں ، ملک کی دولت سرے عام لوٹی جائے،کہیں چند لوگوں کو قیمتی زمینیں سستے داموں پر بیچ دی جائیںصرف اس بنا پر کہ وہ بڑے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں،تو کہیں آبپاشی اور اسی طرح کے دوسرے ناموں سے گھوٹالے سامنے آئیں، ملک کا غریب مزید غریب اور امیر ، امیر سے امیر تر ہوتا جائے،غربت کی گھاٹیاں مزیدگہری اور اندھیری ہوتی جائیں،اس سے بھی دل نہ بھرے توقتل و گارت گری، لوٹ ماراور فسادات کیے اور کروائے جائیں اور حکومت و انتظامیہ بے بس نظر آئے۔ان حالات میں جہاںسیاسی لیڈران خود اپنی ہی ساکھ نہ بچا سکیں وہاں مداوے کی امید کس سے کی جا سکتی ہے ؟ایسے موقع پر عوام کی خاموشی مزید بہران پیدا کرنے کے سوا کوئی خاص رول ادا نہیں کرے گی۔لہذا ملک کے باشعور طبقے کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کی جانب متوجہ ہو۔فرداً فرداً بھی اور جہاں ممکن ہو اجتماعی سعی و جہد بھی کی جائے۔ لیکن اس سعی و جہد کے پیچھے مقصد واضح ہونا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ ملک میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے ایک مخصو ص طبقے کی طرح ان کی بھی صورتحال ہو جائے کہ پہلے ایک پارٹی کے خلاف نعرے لگاتے رہے اور دوسری کی حمایت توبعد میں وہ اپنا وجود ہی کھو بیٹھے اور منتشر ہوگئے۔پھر حقیقت سامنے آئی اور ایک نئی سیاسی پارٹی وقوع پذیر ہو گئی۔اب "سیاسی پارٹی "کے سیاسی لیڈران دیگر سیاسی لیڈران پر الزام تراشیوں میں مصروف عمل ہیں ۔اور مقصد جو جگ پر ظاہر ہے وہ وہی سیاسی کرسی کی چاہت جو کرپشن کی جانب بے مقصد لوگوں کے راستے مزید آسان کر دیتی ہے۔اب جبکہ 2014کے الیکشن قریب ہیں اور اُس سے بھی قبل گجرات اور ہماچل پردیش کے الیکشن ہیں۔اس موقع پر باشعور طبقے کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ ملک کی باگ دوڑ کن لوگوں کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔اگر وہ موجودہ سیاسی لیڈران سے ناراض ہیں اور ان کے عملی رویہ سے خوش نہیں تو اس کا واضح ثبوت ان الیکشن کے ذریعہ دینا چاہیے۔اِس طبقے کو چاہیے کہ وہ خود بھی اپنی پسند اور ناپسند کو ظاہر کریں اور ان لوگوں کی بھی ذہن سازی کریں جو رنگ و نسل،ذات پات اور علاقائیت کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ایسے لوگوں پر واضح کرنا چاہیے کہ آج ملک اور اہل ملک کو اقدارپر مبنی سیاست کی ضرورت ہے نہ کہ ان لوگوں کی جو وقت اور حالات کے لحاظ سے بیان دیتے ہیں اور اسی مناسبت سے اپنے کاموں کو انجاد دینے والے ہیں۔الیکشن کے وقت ہر مقام پر ایک سے زائد نمائندے اپنے منشور کے ساتھ میدان عمل میں آتے ہیں۔دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ان میں طبقاتی کشمکش،مذہبی اشتعال ،سماجی برائیوں اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے ہیں۔پھر یہ بات ان کے قول سے نہیں بلکہ ان کے ماضی کے احوال سے چانچنی چاہیے کہ جو وعدے یہ اپنے منشور میں کر رہے ہیں یا کرتے ہیں آئے ہیں کیا ان کو انھوں نے مخلصانہ پورا بھی کیا ہے؟ممکن ہے اس کوشش سے چند ایسے لوگ سامنے آجائیں جو اپنے قول و عمل میں کسی حد تک ان سے بہتر ہوں جو نہ قول میں سچے ہیں اور نہ ہی عمل میں۔ اور اگر وہ لوگ نہ گھپلہ کرتے ہوں اور نہ کرواتے ہوں تو یہ اور بھی بہتر ہوگا۔ایسے لوگوں کی تلاش اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو لوگ زبان سے ملک کی وفادری کے نعرے بلند کرتے آئے ہیں درحقیقت وہ میدان عمل میں ملک کے وفادار ثابت نہیں ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دن اُن ہی سیاسی لیڈران، اُن کے متعلقین اور اُن کے گرگوں کے ذریعہ ایک نیا گھپلہ سامنے آجاتا ہے ۔ پھر یہی وہ گھپلے اور اسکینڈلس ہیں جو ملک کو مزید اندر سے کمزور کیے جا رہے ہیں ۔ان گھپلوں اور اسکینڈلس ہی کا نتیجہ ہے کہ عوامی مسائل غربت و لاچاری،بے روزگاری اور غیر منصفانہ تقسیم دولت میں اضافہ ہوا جا رہا ہے۔جس کے نتیجہ میں چہار جانب تشویش ،لاچاری ارو بے بسی پائی جاتی ہے لیکن پھر بھی پرسان حال کوئی نظر نہیں آتا۔لہذا اگر ان گھپلوں اور اسکینڈلس سے ملک اور اہل ملک کو راحت پہنچانی ہے تو لازم ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کا متبادل تلاش کیا جائے۔جہاں صرف چہروں کہ تبدیلی نہ ہو بلکہ نظام بھی تبدیل ہواور ملک اور اہل ملک امن و امان کی زندگی گزار سکیں۔


vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...