منگل، 14 جولائی، 2015

ماہِ قرآن، ماہِ شکر و عنایات


ماہِ قرآن، ماہِ شکر و عنایات!
        ہر شخص کی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں کہ اگر ان پر ذرا ٹھہر کر غور کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا کھلے دل سے اعتراف کیاجائےبلکہ فکر و عمل میں بھی نمایاں تبدیلی آجائے۔اس کے باوجود عموماً انسان واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے روز مرہ کی زندگی جاری رکھتا ہے۔کچھ ایسا ہی واقعہ دو دن قبل ہمارے ساتھ بھی گزرا ہے ۔دو دن قبل صبح جب بیدار ہوئے اور قدم زمین پر رکھنا چاہا تو معذور ہوگئے۔دائیں پیر میں شدید درد اور وہ بھی اچانک،اس حالت میں ایک قدم بھی بڑھا لیتے تو کیا کہنے۔بعد میں ڈاکٹر کو گھر پر بلایا گیا،معائنہ ہوا،کچھ نہ نکلا،دوا لکھی گئی،دو دن دوا کھائی، اس دوران دوا کھائی تو تکلیف بھی برداشت کرتے رہے۔دو دن تک گھر میں قید رہنے کے بعد تیسرے دن جب ذرا چلنے لگے تو گھر کے تمام لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔عالم یہ تھا کہ جیسے خدا نے پیر عنایت کردیے ہوں،جوآج سے پہلے نہیں تھے۔ خوشی کا احساس دوسروں کو ہی نہیں ہمیں بھی تھا۔اسی عالم میں ،اپنی کمزوریوں کے مکمل احساس کے ساتھ خدا کے سامنے کچھ اس طرح سر بجود ہوئے ،کہ جس طرح آج سے قبل شاید کبھی نہ ہوئے ہوں۔آپ کہیں گے مضحکہ خیزواقعہ ہے جس کی کوئی اہمیت نہیںہے۔وجہ یہ ہے کہ ہر فرد کی زندگی میں ایسے اور ا س سے بہت بڑے واقعات رونما ہوتے ہیں۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ متذکرہ واقعہ کم از کم ہماری زندگی میں ایک عظیم تاثر چھوڑ گیا ہے۔معاملہ احساس کا ہے،کیونکہ جو احساس ہمیں ہوا ہے،ممکن ہے بڑے واقعات رونما ہونے کے بعد بھی شاید آپ کو نہ ہوا ہو۔

        آئیے ایک اور معمول کے واقعہ کو پیش کرتے ہیں۔معاملہ قرآن سے ہمارے رشتہ کا ہے۔ہم ہردن اور خصوصاً آج کل ماہ قرآن یعنی رمضان المبارک میں دن میں ایک سے زائد مرتبہ بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔لیکن کیا کبھی ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ جس قرآن کی تلاوت کے ذریعہ ہم ثواب میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں،اس کے نزول کا مقصد کیا ہے؟یہ صحیح ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن وہ فرقانِ عظیم ہے جس نے انسانوں پر دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو بہت ہی واضح انداز میں کھول کر رکھ دیا ،جم غفیر جن تاریکیوں میں مبتلا تھی اس کے سامنے وہ روشنی منور کی جس کے ذریعہ صراط مستقیم عیاں ہو گئی۔کامیابی اور ناکامی کی راہیں متعین کیں اور ذلت ورسوائی سے نکال کر عزت وشرف کا مقام بخشا۔لیکن کیا یہ جانکاری ہماری ذات کو تبدیل کرنے میں کوئی موثر ذریعہ بن رہی ہے؟جس زمانہ میں یہ تبدیلی رونما ہوئی ،کیا یہ تبدیلی خود بہ خود آگئی تھی؟آپ کہیں گے نہیں،نہ صرف اس کے لیے عظیم قربانیاں دی گئیں بلکہ حد درجہ صبر و استقامت کی راہ بھی اختیار کی گئی۔ساتھ ہی آئندہ آنے والی نسل انسانی کو ،جودنیا و آخرت میںکامیابیوں کی خواہش مند ہو،بتایا:" یہ کتاب الٰہی( تمہارے ہاتھوں میں ) اللہ تعالی کی رسی ہے ، جس نے اس کی اتباع کی وہ راہ ہدایت پر گامزن رہا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے راہ ضلالت اختیار کی"(صحیح مسلم)۔دوسری جانب ہمیں علم ہے اور مکمل علم ہے کہ یہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے اپنے بندوں پر نازل کیا۔اب جو شخص اس کو مضبوطی سے تھامے گا ،دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگااور جواس کو پس پشت ڈالے گا وہ ہلاک ہو نے والا ہے۔اس کے باوجود سوال آپ سے بھی ہے اور اپنے آپ سے بھی ، کہ کیا نزول قرآن کے مقصد کو جاننے کے باوجودہمارے شب و روز کے اعمال قرآن کے طے شدہ اصولوں پر قائم ہیں؟اور اگر نہیں ۔تو کیا ہم وہ قربانیاں دے رہے ہیں جو قرآن سے تعلق استوار کرنے کے بعد دینی چاہیں؟یا ہم یہاں بھی یہی کہیں گے کہ جناب ہم قرآن پڑھتے بھی ہیں اورسمجھتے بھی ہیں ،لیکن ہماری زندگیوں میں جو تضاد بظاہر دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقی نہیں ہے،کیونکہ نیتوں کا علم تو صرف اللہ کو ہے،لہذا نیت پر کسی صورت سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔ممکن ہے آپ کی بات صحیح ہو لیکن ظاہری اعمال باطنی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔لہذا یہاں بھی معاملہ احساس ہی کا ٹھہرا،اور یہ احساس اسی وقت نفا بخش ہوسکتا ہے جبکہ قرآن کے ایک ایک لفظ کو مفہوم کی روشنی میں زندگی کے رویوں سے کروس چیک کیا جائے ۔پھر جس درجہ بھی تضاد محسوس ہو، فوراًتبدیلی لائی جائے۔اسے یہ کہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مشکل ترین مرحلہ ہونے کے سبب،فی الوقت ممکن نہیں ہے،جب وقت ہوگا تو کوشش کی جائے گی!

        آئیے ایک اور جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ہم بات کر رہے ہیں شب قدر کی جو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کے لیے کہی گہی ہے۔سورة القدر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا،اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے؟شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے،۔۔۔"۔اس تعلق سے بھی ہمیں علم ہے کہ یہی وہ عظیم رات ہے جس میں تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ ہوا۔ اس رات میں قدریں، بنیادیں اور پیمانے وضع ہوئے، اس رات میں افراد کی قسمتوں سے بڑھ کر قوموں، نسلوں اور حکومتوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا، بلکہ اس سے بھی زیادہ عظیم امر، حقائق، طور طریق اور قلوب کی قدریں طے ہوئیں۔اس رات کی قدر بے انتہا ہے اور اگر اس کو کوئی بنا عزر حاصل کرنے کی سعی نہ کرے تو وہ اللہ کی نصرت و تائید سے محروم ہے۔ انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:"تمہارے اوپر یہ مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہ گیا، وہ تمام ہی خیر سے محروم رہ گیا، اور اس سے وہی شخص دور رہتا ہے جو خیر سے محروم ہے"(سنن ابن ماجہ)۔ہمیں اور آپ کو یہ بھی باخوبی علم ہے کہ آج کل ہم اسی آخری عشرہ سے گزر رہے ہیں جس میں یہ رات آتی ہے۔آخری عشرے کی چند راتیں گزر چکی ہیں اور چند باقی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے گزری راتوں سے استفادہ کیا؟اور کیا آئندہ آنے والی راتوں سے استفادہ کا منصوبہ رکھتے ہیں؟ہر رات کے آخری پہر میں عبادت گزار تہجد کا اہتمام کرتے ہیں،دعائیں بھی کرتے ہیں،لیکن اس رات کی خاص دعا بتائی گئی ہے۔حضرت عائشہ عرض کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول!اگر مجھے شب قدر نصیب ہو جائے تو کیا دعا کروں؟ فرمایا " اللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفوتُحِبُّ العَفوَ فَاعف عَنِیّ ۔کہو، "اے اللہ! تو بہت معاف کرنے والا ہے،معافی کو پسند کرتا ہے،تو میری خطائیں معاف فرما " (ابن ماجہ)۔دعا کے لیے ہاتھ اٹھنے سے قبل یہ سوال بھی اہم بن جاتا ہے کہ کیا حقیقی معنوں میں ہمیں اپنی خطاں کا احساس ہے؟اور کیا ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ یہ موقع ممکن ہے ہماری زندگی میں دوبارہ نہ آئے ،توجو موقع میسر آیا ہے اس سے بھر پور استفادہ کیا جانا چاہیے؟

        ایک اور دن جو الحمداللہ ہماری زندگی میں کئی مرتبہ آچکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا،انشااللہ ۔یہ عید الفطرکا دن ہے، جو مومنین کو پورے ایک ماہ رمضان المبارک کی عبادات کے بعد نصیب ہوتا ہے۔نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوتا ہے اورخوشیوں سے نوازتا ہے۔ معدؓ بن اوس انصاری اپنے والد حضرت اویسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ و سلم نے ارشاد فرمایا :"جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو خدا کے فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے مسلمانو! رب کے پاس چلو جو بڑا کریم ہے ،نیکی اور بھلائی کی راہ بتاتا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس پر بہت انعام سے نوازتا ہے، تمہیں اس کی طرف سے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کی ۔تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے تراویح پڑھی سو اب چلو اپنا انعام لو۔ اور جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے۔اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرمادی پس تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو یہ عید کا دن انعام کا دن ہے"۔خوشی و مسرت کے اس موقع پر بھی ہمیں اللہ کی عطا کردہ نعمتیں نہیں بھولنا چاہیں،اور اگر ایسا ہوا تو لازماً ہماری زبان اللہ کی کبرائی بیان کرے گی "اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد"۔متذکرہ بڑی نعمتوں کے ساتھ ہی ہر اس چھوٹی نعمت کو بھی یاد رکھا جائے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔نعمتوں کی یہی یاد دہانی دنیا و آخرت میں انشااللہ مزید نصرت و کامرانی سے ہمکنار کرے گی!


vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...