پیر، 20 جون، 2016

کیرانہ کا سفید جھوٹ اور بی جے پی کا مشن اترپردیش


کیرانہ کا سفید جھوٹ اور بی جے پی کا مشن اترپردیش!


        ایک جانب کانگریس نے اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی باگ دوڑ کی ذمہ داری غلام نبی آزاد کو سونپی تو اُدھر بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ الہ آباد میں مکمل ہوئی۔دونوں ہی کا نشانہ آئندہ 2017میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔لیکن اس سے پہلے کہ کانگریس کسی ایشو کو اٹھاتی اور اسے انتخابی رخ دیتی، بی جے پی نے پہل کرتے ہوئے کیرانہ کا مسئلہ زور و شور سے اٹھا دیا ہے۔اس کے باوجود افسوس کی بات یہ ہے کہ جس حکم سنگھ نے اس مسئلہ کو بڑی تیاری کے ساتھ اٹھایا تھا وہ خود اپنے موقف سے پلٹ گئے ہیں۔یہ بات بھی آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک میں ہوئے 2014کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے اتر پردیش میں بی جے پی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کے لیڈران کی زبانی جنگ تیز سے تیر تر ہو چکی ہے۔اس بدزبانی اور نفرت آمیزگی کا ہی نتیجہ تھا کہ چند ماہ پہلے نریندر مودی نے آر ایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کی اور اس پر لگام لگانے کی بات کہی تھی یہاں تک کہ اپنے عہدے سے سبکدوشی کی بات بھی کہی تھی۔اس کے باوجود اترپردیش کے چند سادھونما سیاست داں نفرت کا ماحول پروان چڑھانے میں مستقل مصروف عمل رہے ہیں۔ممکن ہے اسی پس منظر میں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کو لکھنو میں کہنا پڑا کہ سادھوی پراچی کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ بی جے پی کی رکن بھی نہیں ہیں۔لیکن امت شاہ کا یہ بیان سادھوی پراچی کو بڑا شاق گزرا ۔اور انہوں نے بھی اس بیان کے بعد یہ بیان دے ڈالا کہ کام میں کرتی ہوں اور فائدہ بی جے پی اٹھاتی ہے،پھرجس طرح سے مظفر نگر سانحہ میں ،میں نے اپنا کردار ادا کیا اور مجھ پر قومی سلامتی ایکٹ لگا،اس کا فائدہ بھی تو بی جے پی ہی کو ملا۔میں نے قومی سلامتی ایکٹ برداشت کیا،کورٹ کچہری کے چکر لگائے اور اب کا فائدہ امت شاہ اٹھا رہے ہیں۔

        وہیں کیرانہ کے مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی نے کہا کہ معاملہ یہ ہے کہ بی جے پی نے ریاست میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیرانہ کا مسئلہ اٹھایا ہے۔جس کا بنیادی مقصد انتخابات سے قبل کشیدگی پھیلانے اور فرقہ وارانہ فساد کروانے کی سازش ہے۔انہوں نے ریاست کی برسراقتدار سماج وادی پارٹی،بی جے پی کے الزامات کا جواب دینے میں ناکام رہی ہے لیکن ان کے فرضی الزامات کی اصلیت بتا کر میڈیا نے اس سازش کو بے نقاب کیا ہے۔ریاست میں امن و قانون کی صورتحال بدتر ہے جس سے لوگ پریشان ہیں۔اس بدحالی کے لیے تنہا سماج وادی حکومت ہی نہیں بلکہ بی جے پی اور کانگریس بھی ذمہ دار ہیں۔انہوں نے کہا راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل کے الیکشن میں اپنے دو امیدواروں کی شکست کے بعد بی جے پی بری طرح سے زمین پر آگئی ہے، اس سے توجہ ہٹانے کے لیے کیرانہ کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔لیکن یہ اچھی بات ہے کہ میڈیا ہی نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔

        کیرانہ شاملی ڈسٹرکٹ کا ایک چھوٹا شہر ہے ۔یہ علاقہ مظفر نگر فسادات کے دوران بھی متاثر ہوا تھا۔شہر میں 80فیصد مسلمان ہیں تو وہیں18فیصد ہندو۔ واقعہ یہ بھی کہ جس طرح حکم سنگھ کی لسٹ میں ہندوں کی نقل مکانی کی بات اٹھائی گئی ہے وہیں دوسری جانب 'دا وائر'کی رپورٹ کی روشنی میں 150مسلم خاندان بھی اِس علاقہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔وجہ؟خوف کی سیاست ،کرائم کا اضافہ ،معاشی تنگی اور امن و امان کی تلاش۔رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ غنڈہ گردی میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔علاقہ کے دو مشہور سرگرم گینگ سربرہ کے ناموں میں سے ایک کانام مکم کالا ہے تو دوسرے کا نام فرقان ہے، اور فی الوقت دونوں ہی جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کی روشنی میں جو لسٹ حکم سنگھ نے فراہم کی اس میں سے 5افراد مرچکے ہیں،4افراد بہتر معاش کی تلاش میں علاقہ چھوڑ کر گئے ہیں، 10افراد ایسے ہیں جو تقریباً10سال پہلے یہاں سے جا چکے ہیں۔وہیں 118نام جو شا ملی ڈسٹرکٹ پولیس کو فراہم ہوئے ہیں ان میں سے 5لوگ مرچکے ہیں،12ابھی بھی وہیں مقیم ہیں،46افراد ایسے ہیں جو 2011میں ہی یہاں سے جاچکے ہیں،اور55افراد ایسے ہیں جو 11سال پہلے یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ان تمام اعداد و شمار کے ساتھ ہی سینئر جرنلسٹ پنکج چتر ویدی کہتے ہیں کہ لسٹ میں 10لوگ مرے پائے گئے ہیں، کئی سرکاری نوکرہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد علاقہ سے جا چکے ہیں،کئی خاندان وہیں موجود ہیں،اور اگر اس لسٹ کو تسلی کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر افراد مزدور ہیں جو روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں،پھر اگر وہ ایسا نہ کریں تو کیا کریں؟ان حالات میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے سوال تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ علاقہ میں کرائم کا خاتمہ اور امن و امان بحال کرنے کی کس کی ذمہ داری ہے اور وہ کب ادا کی جائے گی؟وہیں شہر یوں کی معاشی تنگ دستی کے لیے کیا پالیسی اور پروگرام مرتب کیا گیا ہے؟لیکن فی الوقت یہ سوالات پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔برخلاف اس کے لگتا ایسا ہے کہ کیرانہ کا مسئلہ بی جے پی ختم کرنے والی نہیں ہے۔وہ چاہتی ہے کہ جس ایشو کی باقاعدہ زمین ہموار کی گئی،جس کے لیے میڈیا میں اس کی تشہیر ہوئی،اور علاقہ سے وابستہ لیڈر حکم سنگھ کی ساکھ دا پر لگی،اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔اس لیے جہاں اُس نے پہلے مقیم مسلمانوں کی دبندگی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا وہیں اب کیرانہ سے ہندو خاندانوں کی مبینہ نقل مکانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اپنی 9رکنی ٹیم کو مقامی شہریوں کی سخت مخالفت کے باوجود بھیجا ،اور کہا کہ جس طرح ہم یہاں تحقیقات کرنے آئے ہیں اسی طرح ریاستی حکومت کو بھی یہاں آکر زمینی حقائق کی تلاش کرنی چاہیے۔دوسری جانب ایک مقامی شہری نے بتایاکہ یہاں ہم ہندو مسلمان ایک طویل عرصہ سے امن و امان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔مسئلہ صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر اٹھایا جا رہا ہے۔پوری ریاست میں قانون و انتظامیہ کا مسئلہ ہے اور اسے روکنے کے لیے کارروائی ہونی چاہیے،اور جو نقل مکانی کی وجہ بتائی جا رہی ہے ،وہ نہیں ہے ۔جن ستّا اخبار کی روشنی میں خبر کا ایک تیسرا رخ یہ ہے کہ سہارنپور ربینچ کے ڈی آئی جی ،اے کے راگھو نے ڈی جی پی ہیڈکوارٹر کو رپورٹ بھیجی ،جس میں کئی خلاصے سامنے آئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے ہندں کی لسٹ بنانے والے بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ حکم سنگھ اپنی بیٹی کو چنا لڑوانا چاہتے ہیں۔سنگھ اپنی بیٹی کو کامیابی دلانے کے لیے فرقہ ورانہ صف بندی (Communal polarization)کرانا چاہتے ہیں۔غور طلب ہے کہ سنگھ نے ہندو خاندانوں کی ایک لسٹ جاری کی تھی اور کہا تھا کہ بڑی تعداد میں کیرانہ کے مخصوص مذہب کے افراد کی دہشت سے ہندو خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ فساد کی شکل اختیار کر سکتا ہے لہذا یہاں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک خاتون کے اغوا اور قتل کےمعاملہ میں ہندو سماج کے دو لوگوں کا نام آرہا تھا لیکن سنگھ نے ان دونوں لوگوں کا نام رپورٹ سے ہٹانے کا دبا بنایا ۔اوراس معاملہ میں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔

        کیرانہ کا معاملہ لگتا ایسا ہے کہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔شاید اسی وجہ سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی سنگیت سوم نے تقریباً دوہزار حامیوں کے ساتھ اپنی 'نربھیہ یاترا'شروع کی۔سوم نے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے لیے پندرہ دن کا الٹی میٹم دیا ہے ورنہ سڑکوں پر اترنے کی بات کہی ہے۔گرچہ پولیس نے سوم ان کے حامیوں کی یاترا کو روک دیا ہے،اس کے باوجودہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس یاترا میں کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش کی گئیاوراشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔کیرانہ کا معاملہ پوری طرح صاف ہے کہ عمل کے پس پشت مقاصد کیا ہیں۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آغاز ہے 2017میں ہونے والے اترپردیش اسمبلی الیکشن کا۔غوروفکر اور لائحہ عمل ان تمام لوگوں کو طے کرنا چاہیے جو اس لیکشن میں راست حصہ داری نبھائیں گے۔کہا جا سکتا ہے کہ ابھی کافی وقت موجود ہے۔اس کے باوجود بہتر یہی ہوگا کہ وقت کا زیاں کیے بناکسی بہتر اور ٹھوس لائحہ عمل کی جانب پیش قدمی کی جائے!

v v v v v v v

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...