جمعہ، 18 مارچ، 2011

.....تبدیلی قیادت

تبدیلی قیادت - وقت کی آواز

        اگر ہم نے غور و فکر کی صلاحیتوں سے کام نہ لیا تو پھر جمود ہمارا مقدر ہوگا۔ ہماری انقلابیت سرد پڑ جائے گی اور پھر منزل ِ مقصودہم سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ اس سے محفوظ رہنے کی صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے عقلی و سائنسی بنیادوں پر اپنی فکر اور پروگرام کا بے لاگ تنقیدی و تجزیاتی جائزہ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حقیقی اور بنیادی مسائل کی نشان دہی کریں اور انہیں نئی فکر اور قوت کے ذریعے حل کرنے کی سمت میں آگے بڑھیں۔زمانہ اس پر شاہد ہے کہ ہمارے ذہن کی ساخت، سوچنے اور غور و فکر کرنے کا اندازہمیشہ ہمارے ذاتی حالات سے متاثر رہاہے۔ آج ہم غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ کوئی برائی نہیں لیکن برائی اس وقت بن جاتی ہے جب کہ ہم پس ماندگی ، اخلاقی گراوٹ، علمی فقدان، سائنسی رویہ اور رجحان کی کمی سے دوبالا ہوتے ہیں اور یہ ساری چیزیں مل کر ہماری فکر و فہم پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری قوتِ فیصلہ و تدبّر ہم سے چھن جاتی ہے اور ہمارے نظریات اور حقیقت (idialismاور realism) میں فرق رونما ہونے لگتا ہے۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے یعنی ان میں توازن قائم ہو اور ہم حقیقت پر مبنی سوچ رکھتے ہوں جو ہمارے نظریات سے مطابقت رکھتی ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ ہم بصیرت سے محروم نہ ہوں۔حالات حاضرہ کا تجزیہ ہو یا قرآن و حدیث کی تفہیم و تشریح، سب کچھ بصیرت افروز نگاہوں اور انقلابی نقطہ نظر سے کیا جانا چاہیے۔اس راہ میں ہمارے لیے سب سے بڑی رکاوٹ وہ غیر متقی، خوفِ خدا سے عاری اور اخلاص و دیانت کے ہتھیاروں سے محروم قیادت ہے جسے نہ تو قوم و ملت کی کوئی فکر ہے اور نہ حالاتِ حاضرہ کی عالمانہ اور حقیقت پسندانہ بصیرت۔جب تک ہم ان موجودہ ناعاقبت اندیش قیادت کو چلانے اور قائم کرنے والوں میں شمار ہوتے رہیں گے تب تک یہ وبا ہمارے سروں پر اسی طرح منڈ لاتی رہے گی۔

انکار و اقرار کی بنیاد یں:
        قرآنِ حکیم میں مختلف مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے‘ کیا تم تدبر نہیں کرتے‘ کیا تم جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ انداز قرآن حکیم کا ایک الگ انداز ہے جس میں لوگوں کو متوجہ کیا گیا، انھیں غور و فکر کرنے کی جانب متوجہ کیا گیا ہے، ان سے کہا گیا ہے کہ کسی بھی چیزکے اقرار یا انکار سے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان اس کے بارے میں سوچ سمجھ لے، یہی جاننا اور نہ جاننا‘ یہی فکر و تدبر اور یہی فکر و نظر قرآن میں ایک ایسے نظریے اور تفکر و فلسفہ کی تخلیق کرتا ہے‘ جو ملت اسلامیہ کی ذہنی‘ علمی‘ فکری‘ نفسیاتی‘ قومی‘ سماجی‘ معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ دینی اور بین الاقوامی حیثیت کو مکمل طور پر جداگانہ حیثیت میں ممیز کرتا ہے۔ یہی قرآنی نظریہ اور فلسفہ حیات ہے اور یہی ملت اسلامیہ کی قرآنی تعلیم و تربیت ہے‘ یہی کیفیت دینی اور ملی اساس کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ قرآن حکیم نے مزید فرمایا: ہم نے تمہیں واضح طور پر ان امور و معاملات سے آگاہ کر دیا ہے‘ اگر تم عقل و فکر سے کام لو گے ۔یعنی زندگی کے صحیح راستے پر گامزن رہو گے۔اسلام اور قرآن کے نزول کے ساتھ ہی بنی نوع انسان دو مختلف نظریات اور دو حتمی مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے تھے ایک نظریہ ایمان لانے والوں کا دوسرا ایمان نہ لانے والوں کا۔ چنانچہ اولاد آدم دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی شرارِ بولہبی ایک جانب اور چراغ مصطفوی دوسری جانب‘ اس نظریے نے خون اور حسب و نسب کی نفی بھی کر دی۔ برادری‘ قبیلے اور ذات پات کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ اس کی بہترین مثال جنگ بدر اور جنگ احد ہے جس میں نبی آخرالزماں حضور اکرم اور دوسرے صحابہ کرام کے قریبی رشتہ دار دشمن کی صف میں تھے اور ایمان لانے والے غیر رشتہ دار حضور اکرم کی صف میں موجودتھے۔ چنانچہ قرآن نے کافروں اور منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو بڑی سختی سے متنبہ کیا ہے۔ ان کی بغض‘ عداوت اور دشمنی کی بعض باتیں تو ان کے منہ پر آ جاتی ہیں لیکن جو کچھ ان کے دلوں میں چھپا رہتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

نظریہ قوت و طاقت:
        تبدیلی کب کہاں اور کیسے آتی ہے یہ مسلئہ صرف تھامس ہابس اور جان لاک ہی کا نہیں تھا۔ بلکہ ہیگل نے تو پوری انسانی تاریخ کو ”نظریات کی جنگ“ کا سفر قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ایک نظریہ پیدا ہوتا ہے اور دنیا میں اپنے اثرات پھیلاتا رہتا ہے جسے اس نے thesis کہا۔ ہیگل کہتا ہے کہ یہ اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس نظریے کی ”ضد“ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہی، جسے اس نے anti-thesis کہا۔ ہیگل کے مطابق تھیسس اور اینٹی تھیسس میں تصادم ہوتا ہے اور اس تصادم سے ایک تیسری چیز synthesis نمودار ہوتا ہے۔ یہ synthesis صالح یا بہترین اجزاءپر مشتمل ہوتا ہے۔ ہیگل کے اس نظریے کا کارل مارکس پر گہرا اثر پڑا، البتہ مارکس نے یہ کیا کہ ہیگل نے جس معرکہ آرائی کو ”نظریات“ میں دکھایا تھا، مارکس نے اس آویزش کو طبقات میں دکھایا۔ مارکس نے اس تبدیلی کو معنی خیز انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہیگل سر کے بل کھڑا تھا میں نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔

        اسی طرح چین میں ماوزے تنگ کے نظریات میں بھی طاقت کو مرکزیت حاصل ہوئی۔ ماوکا یہ قول مشہور زمانہ ہے کہ طاقت بندوق کی نال سے برآمد ہوتی ہے۔ اگرچہ کمیونسٹ انقلابات نے خود کو ”نظریاتی“ کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظریاتی طاقت ثانوی چیز تھی۔ ان کا اوّل و آخر طاقت تھی۔ چوں کہ ان کا آغاز طاقت تھی اس لیے ان کا انجام بھی طاقت ہی کے حوالے سے سامنے آیا۔ روس میں کمیونزم کے پاس طاقت کی قلت ہوئی تو کمیونزم معاشرے پر اپنی گرفت قائم نہ رکھ سکا اور معمولی قوت سے سامنے آنے والے جوابی انقلاب یا Counter Revolution کی نذر ہوگیا۔ بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے طاقت کا ایک نیا مظہر ”مارشل لا“ کی صورت میں سامنے آیا۔ نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے والے تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں فوج سب سے منظم، باخبر، تعلیم یافتہ اور طاقتور ادارہ تھا۔ اس ادارے نے اپنی اس حیثیت کو ملک و قوم کے حق میں استعمال کرنے کے بجائے ان کے خلاف استعمال کیا۔ ایشیا اور افریقہ کے متعدد ممالک میں مارشل لا نمودار ہوئے اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا فلسفہ جگہ جگہ حقیقت بنتا نظر آیا۔

        تھامس ہابس اور جان لاک کے نظریات کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ یہ نظریات محض قیاس آرائی ہیں، لیکن مارشل لا کو دیکھ کر اور برت کر بہت سے لوگ یہ گمان کرنے لگے کہ ممکن ہے تھامس ہابس اور جان لاک کے قیاسات صحیح ہوں۔ اہم بات یہ ہے کہ مارشل لا نے ہر جگہ معاشرے کی تشکیلِ نو کی۔ پاکستان میں مارشل لا لگانے والے جنرل ایوب اور جنرل پرویزمشرف سیکولرتھے، چنانچہ ان کے دور میں معاشرے میں سیکولرازم کو قوت حاصل ہوئی۔ جنرل ضیاءالحق کا ذہن مذہبی تھا، ان کے دور میں معاشرے میں مذہبی رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔ جمہوریت اگرچہ کمیونزم اور مارشل لا کی ضد ہے، لیکن طاقت کا تصور تینوں نظاموں میں مشترک ہے۔ فرق یہ ہے کہ کمیونزم میں طاقت کا سرچشمہ کمیونسٹ پارٹی، مارشل لا میں طاقت کا سرچشمہ فوج ہوتی ہی، اور جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ افراد اور معاشروں کو نسلی، قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات بھی متاثر اور تبدیل کرتے رہے ہیں۔ یہودیت ایک آسمانی مذہب تھا مگر اس کے ماننے والوں نے اسے ایک نسلی مذہب بنادیا۔ ہندوازم کے بارے میں بھی غالب گمان یہی ہے کہ وہ بھی کبھی ایک الہامی مذہب رہا ہوگا مگر ہندوازم چار ذاتوں کا مذہب بن گیا۔ ہندوستان کی تاریخ، سماجیات، یہاں تک کہ معاشیات پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ گزشتہ چار صدیوں میں یورپ کی قوم پرستی نے ایرک فرام کے مطابق 2600 جنگیں ایجاد کیں۔ ان میں 20 ویں صدی میں لڑی جانے والی دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں جن میں مجموعی طور پر تقریباً 7کروڑ افراد ہلاک ہوئے، اور جنہوں نے مغرب کے فلسفہ، ادب اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس قوم پرستی نے تیسری دنیا کے ملکوں میں بھی قوم پرستی کی تحریکیں پیدا کیں۔ ان تحریکوں نے معاشروں کی سماجی، نفسیاتی اور جذباتی ساخت کو متاثر کیا۔ جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ پیشگوئی بڑی حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ لیکن 21 ویں صدی کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں انسانی تقدیر معاشی اصطلاحوں میں لکھی جارہی ہے اور معاشیات ایک"عالمگیر مذہب" بن کر ابھر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج "عالمگیر مذہب"کی لپیٹ میں پوری دنیاآ متاثر ہو چکی ہے ۔موجودہ عوامی بغاوت کے پیچھے بھی دوسری وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ فیکٹر بھی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن اس موقع پر ایک لمحہ رک کر غور کریں کہ کیا ناموں اور کرسیوں کی تبدیلی سے یہ مسلئہ حل ہوسکتا ہے۔

        ایسے موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نیکی کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی، تقوے کے ابلاغ سے ہونے والی قلب ِماہیت کئی کئی نسلوں تک باقی رہتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیکی ایسا نعرہ، ایسا نظریہ اور ایسا فلسفہ ہے جوکئی نسلوں کو اپنا اسیر کرسکتا ہے۔ مسلئہ کا حل جب پیش کیا جاتا ہے یا جن لوگوں کے پاس حل موجود ہے اور وہ اس کو لے کر آگے بڑھنے کا عزم کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو مختلف پابندیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ پھر ان کے تعلق کو امن کی بجائے دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی درمیان مذہب اسلام جو امن کا داعی ہے اس کو فرقہ وارانہ منافرت میں پیش کرنے کی سعی وجہد شروع ہو جاتی ہے۔یہی نہیں جہاد کا ذکرکے اسلام دشمن طاقتیں کہتی ہیںکہ اسلام تلوار اور طاقت کے زور پر پھیلاہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق و باطل کا پہلا معرکہ غزوہ بدر کی صورت میں اس وقت لڑاجب باطل کی قوت حق سے بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ مسلمان کافروں کے مقابلے کبھی بھی اپنے زورِ بازو پر بھروسا نہیں کرتے۔ ان کا بھروسا تھا تو اللہ پر اور ہے تو بھی اُس ہی کی امداد اور نصرت پر.... اور یہ صرف غزوہ بدر کا معاملہ نہیں، مسلمان حق و باطل کے کسی بھی معرکے میں شریک ہوں انہیں ہمیشہ اصل امید اللہ کی ذات ہی سے ہوتی ہے۔ پھر جس کا انحصار ہر صورت میں اللہ پر ہو وہ نہ طاقت پرست ہوسکتا ہے اورنہ طاقت کے ذریعے اپنے نظریے کو پھیلا سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرہ اپنی روح میں ایک جہادی اور مزاحمتی معاشرہ ہوتا ہے اور اس کی مزاحمت اپنے نفس سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک پھیلی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے علمبردار ایک مضبوط،واضح اور مکمل نظام حیات کے فروغ و استحکام کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے جس میں معیشیت سے لے کر معاشرت اور تہذیب و تمدن کے تمام معرکے حل کیے جا سکتے ہیں۔لہذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کے فروغ، اس کی بقا، اس کے استحکام اور اس کے قیام کے لیے سعی و جہد کرے ۔اور ایک متبادل نظام حکومت فراہم کرے جس میں لوگوں کے لیے امن ہو اور ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے مذہب پر بہ آسانی عمل پیرا رہ سکیں اور ان کا خاندان تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کر سکے۔آج کے موجودہ نظام حکومت میں جہاں افلاس و غربت کی آندھیاںتھپیڑے مار رہی ہیں، جہاں لوگوں کو اپنی بنیادیں ضرورتیں پوری کرنا مشکل تر ہوا جا رہا ہے، جہاں صحت و تعلیم میں دشواریاں لاحق ہیں۔ وہاں یہ مسلئہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر حالاتِ حاضرہ پر گفت و شنید سے حل نہیں ہوگا اور نہ ہی متبادل نظام خود بہ خود وجود میں آجائے گا۔ اگر یہ ممکن ہے تو اس کا آغاز تبدیلی ِ قیادت کے اس نعرے سے ہونی چاہیے جو نہ صرف عملی ہو بلکہ اس کے حصول کے لیے بھی راہیں ہموار کی جاچکی ہوں۔یہ جب تک ممکن نہیں جب تک کہ رائے عامہ اس کے لیے ہموار نہ کر لی جائے ۔لہذا اس کا آغاز کرتے ہوئےہمیں میدانِ عمل میں آنا چاہیے، یہی وقت کی آواز ہے اور یہی انسانیت کی فلاح و بہبو د کا ذریعہ۔پھر یہی وہ سعی وجہد ہوگی جو کسی کونے میںبیٹھ کر عبادت کرنے سے شاید کہ بڑھ کرہو جائے۔

تبدیلیِ قیادت:
        تبدیلی ِقیادت سے ہماری مراد وہ قیادت جو خوف خدا سے سے عاری ہو وہ نہ تو خود اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ انسانیت کو، لہذا اس پہلو پر بھی توجہ دی جائے کہ قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کی جائے جو انسانی قوانین کے پاس و لحاظ رکھنے کے علاوہ اُس ہستی کو بھی مانتے ہوں جو خود انسانوں کا موجد اعلیٰ ہے۔لہذا اس مرحلے میں قیادت کی تبدیلی ناگزیر عمل بن جائے گا۔اور یہ تبدیلی ِ قیادت کا عمل اسی طرح لایا جائے گا جو موجودہ دور میں انسانو ں کے لیے قابل ِ قبول ہو یعنی ،شورائیت جس کے لیے موجودہ نظام انتخابی عمل کا نام تجویز کرتا ہے۔ہمیں یہ بات بھی واضح کر دینی چاہیے کہ ہماری جدو جہد ہمارے "اپنوں" کے خلاف نہیں ہے بلکہ دنیا کی ان طاقتوں کے خلاف ہے جو اپنے قومی و ذاتی مفادات کی وجہ سے عالم ِ انسانیت کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہیں اور اس کے لیے مختلف خوبصورت ناموں کی ٹرمس استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جو چیز آپ دنیا کو دینا چاہتے ہیں اس کے لیے سب سے پہلے آپ خود اٹھ کھڑے ہوں۔اُٹھ کھڑے ہونے سے ہماری مراد علمی و عملی پہلوں کا جائزہ، تجزیہ اور صورتحال سے آگاہی ہے جس کو حاصل کرنا کسی بھی جانب قدم اٹھانے سے قبل ہونی چاہیے ۔ہم جانتے ہیں کہ سوچے سمجھے قدم صحیح راہ کو جلد پالیتے ہیں۔اس کے لیے ہمارے پاس باصلاحیت،جرات مند، بلند حوصلہ اشخاص کی کثیر تعداد ہونی چاہیے ۔جو غورو فکر کرنے اور تدبر و دانائی کو اپنا شعار بنانے والے ہوں۔ جو علم و عمل میں یکسانیت رکھتے ہوں یا پھر اس کے لیے سعی و جہد کرنے والے ہوں۔ہمیں ان ناکارہ، بے مقصد، اور نفس پرست انسانوں کی بھیڑ کی ضرورت نہیں ہے کہ جو اعلیٰ تعلیمی اداروں کی اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں تو رکھتے ہیں لیکن اخلاق و کردار کے پیمانے پر جب ان کو تولا جاتا ہے تو ان کا وزن اس جھاگ سے ذرہ برابر بھی زیادہ نہیں ہوتا جو سمندر کے اوپر پھیلارہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بے کار یا ناکارہ لوگ ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی فکر کی تصحیح نہیں ہو سکی ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی سندوں کے سہارے جینے والے جب عمل کے میدان میں آتے ہیں تو وہ دوسروں کے لیے نہیں بلکہ خود کے لیے جینا پسند کرتے ہیں۔ ان کا ہر عمل صرف ان کی ذات تک محدود ہوتا ہے، اس کے فائدے اور نقصانات وہ اپنی ذات میں تلاش کرتے ہیں۔ اور جب کہیں بھی کسی بھی طرح کا فائدہ حاصل ہوتا نظر آتا ہے تو وہ اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے کہ دوسروں کو اس سے کس قدر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ان کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر علم و نہر کا بے انتہا قیمتی اثاثہ توموجود ہے لیکن وہ اس بات سے غافل ہے کہ اس کا استعمال کیا ،کہاں اور کیسے کرے ۔وجہ بس اتنی کہ وہ علم سے تو بہرہ مند ہوئے لیکن صحیح اور ٹھیک راہ متعین نہ کر سکے ۔یا ان کو راہ دکھانے والے خود راہ سے بھٹکے ہوئے لوگ تھے۔اس لیے ضروری ہے کہ جرات و شجاعت رکھنے والے افراد سوچ سمجھ کر اپنے جذبات کا استعمال کرنا سیکھیں اور وہ بھی ٹھیک اور صحیح مقدار میں ۔

        ہمیں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خرابی کی اصل جڑ موجودہ نظام اور اس کی پروردہ مفاد پرست، ملت فروش اور دنیا پرست قیادت ہے کہ جس پر نوٹس نہ لیا گیا تو اصلاح و فلاح کے پہلو مدھم پڑتے جائیں گے۔ ان طاقتوں کے خلاف اقدام سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ موجودہ فلسفہ زندگی پر تفکر کیا جائے، اس میں اصلاح کے پہلوں کو ابھارا جائے، اور سب سے بہترتو یہ ہوگا کہ اسلامی فلسفہ زندگی کو نافذ العمل بنانے میں سعی و جہد کی جائے۔ آج ہر طرف ظلم و بربیت کا دور دورہ ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنے طرز معاشرت کو بہتر بنانے کی فکر نے ،مسائل کو سمجھنے، ان پر غور و فکر کرنے اور ان کے خاتمہ کی سعی و جہدکرنے سے دور کر رکھا ہے۔لیکن اسلام کی رو سے یہ بھی ظلم ہی کی کٹہرے میں آتا ہے جو ہم آج خود پر کر رہے ہیں۔بنی کریم کا ارشاد ہے برائی کو ہاتھ سے روکا جائے، اس کو زبان سے برا کہا جائے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں برا سمجھاجائے۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے ٹھہریں اور اپنے دل پر ہاتھ کر دیکھیں اور خو د سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریںکہ کیا کبھی ہم نے اس جانب توجہکی ہے؟اللہ تعالی فرماتا ہے :اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے جاتا ہے ۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں (النحل:۱۶)۔فرصت کے لمحات کو گنوانا نادانی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ لہذاجو لمحات بھی مہلت کے باتی ہیں ان کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔یہی وقت کی آواز ہے اور یہی ہمارا اولین فرض ۔لیکن ظلم و بربیت سے نجات دلانے والوں کا طرز عمل بھی امنپسند ہونا چاہیے تبھی یہ ہمارے لیے اور دوسروں کے لیے نفع بخش سودہ ثابت ہوسکے گا!!

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...