اتوار، 18 ستمبر، 2016

راجدھانی دہلی- ڈینگو اور چکن گنیا کی چپیٹ میں


یہ بات صحیح ہے کہ گرمیوں کے آواخر اوربرسات کے آغاز میں ایک طویل عرصہ سے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ڈینگو اور چکنگنیا جیسی خطرناک بیماریاں گزشتہ کئی سالوں سے شہریوں کو اپنی چپیٹ میں لیتی رہی ہیں۔اس کے باوجود اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات بھی موجود ہے کہ جس طرح امسال ان بیماریوں نے ملک کی مختلف ریاستوں میں لوگوں کو بیماریوں سے دوچار کیا ہے ،اس قدر بڑے پیمانہ پر آج تک یہ بیماریاں وبائی امراض کی طرح عام نہیں ہوئیں۔وہیں دہلی جو ملک کی راجدھانی ہے یہاں بے شمار مسائل آغاز ہی سے موجود ہیں، جن کے خاتمہ کے لیے کبھی منظم کوشش نہیں کی گئی۔

راجدھانی کے بڑے مسائل میں برسات کے پانی کی نکاسی آغاز ہی سے ایک بڑا مسئلہ بناہوا ہے،وہیں راجدھانی دہلی کی جغرافیائی وسعت ،آبادی کا اضافہ ، ترقی کے نام پر بلڈنگوںکی تعمیرات ،خراب مٹیریئل سے بننے والی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، نئی کالونیوں کا نقشہ کے بنا ہی وجود میں آنا، کوڑا اور غلاظت کے جمع کرنے اور اٹھانے کا ناقص نظام،صحت عامہ کے لیے ایمس جیسے بڑے اسپتالوں کی قلت،گندے پانی کے بہتے نالوں کے آس پاس جھگی جھونپڑیوں کا وجود میں آنا،اور حکومت کی قائم کردہ جے جے کالونیوں (جگھی جھونپڑی کالونیوں)کی وسائل کے لحاظ سے بدترین صورتحال،وغیرہ جیسے بڑے مسائل نے دہلی کو آج تک وہ درجہ نہیں دلایا،جس کی وہ بحیثیت ملک کی راجدھانی حق دار ہونی چاہیے تھی۔آزادی کے بعد ہی سے ملک اور رراجدھانی میں مختلف حکومتیں آئیں اور جاتی رہیں،اس کے باوجود یہ مسائل جن کا تذکرہ کیا گیا، آج بھی برقرار ہیں۔ہاں یہ صحیح ہے کہ جس شہر کے ہم واسی ہیں اس شہر میں اور عموماً بڑے شہروں میں تین طرح کے علاقہ پائے جاتے ہیں۔ایک پاش کالونیاں ،دوسرے درمیانی درجہ کے لوگوں کی کالونیاں اور تیسرے جے جے کالونیاں یا اس سے بدتر حالت میں رہنے بسنے والے لوگ،جنہیں بدبودار بہتے پانی کے آس پاس دیکھا جاسکتا ہے تو وہیں کوڑے اور غلاظت کے ڈھیروں کے نزدیک۔

راجدھانی دہلی کی جو تصویر یہاں کھینچی گئی ہے ایسا نہیں ہے یہ تصویر آپ کی نظروں سے نہیں گزری ۔ملک کے کسی بھی بڑے شہر سے آپ کا تعلق ہو،یہی تصویر آپ کو وہاں بھی دیکھنے کو ملے گی۔لیکن اگرہر بڑے شہر کی تصویر ایک جیسی ہی ہے تو پھر یہ سوال لازماً اٹھنا چاہیے کہ بڑے شہروں کے یہ پڑھے لکھے ،سمجھ دار،دانا،عقل مند،ہوش مند،دولت مند،برسراقتدار لوگ کیا یہ ساری سمجھداری ، عقل مندی اور دولت کا استعمال انہیں جیسے مسائل کو برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں؟یا پھر حقیقت یہ ہے کہ یہ "پڑھے لکھے"اور"روشن خیال"لوگ ہی دراصل انسانوں کو انسانوں کے درمیان بانٹنے اور تقسیم کرنے کا کام کرتے ہیں؟واقعہ بھی شاید یہی ہے کہ جیسے جیسے انسان معاشی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے اس کا رہنے سہنے کا انداز بھی بدلتا جاتا ہے۔اِس پڑھے لکھے اور دولت مند انسان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو چکھ اس نے کمایا اور حاصل کیا ہے اس کو صرف اور صرف وہ اپنے اوپر استعمال کرے،یہاں تک کہ بعض اوقات یا زیادہ تر خونی رشتہ دار وں کو بھی اُن وسائل سے فیض یاب نہیں ہونے دیا جاتا جس کے وہ حقدار ہیں۔اور اگر آپ مزید سوال کریں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے تو اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ جس تیز رفتار ی کے ساتھ دنیا وسائل کے اعتبار سے ترقی حاصل کرتی جا رہی ہے، اخلاقی ذمہ داریوں اور احساس ذمہ داری سے اسی قدر تیزی سے پستی میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے،وجہ یہ ہے کہ مادیت اُن پر غالب آچکی ہے۔آج کسی بھی فرد کودوسرے کی تکلیف اور پریشانی سے واسطہ نہیںہے،الّا ماشااللہ۔سماج کی یہ وہ تکلیف دہ صورتحال ہے جس کے نتیجہ میں مسائل میں ہر صبح اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔غنڈے اور لوفر افراد و گروہ مختلف بہانوں سے اپنے ہی جیسے انسانوں پر ظلم و زیادتیوں میں مصروف ہیں۔اس کے باوجود مادیت اور خود میں کھوجانے کی کیفیت نے دوسرے کے دکھ درد اور مسائل سے ہر ایک کو دوسرے سے دور کیا ہوا ہے۔حکومتوں اور سرکاری اداروں کی صورتحال بھی اسی سے ملتی جلتی ہے۔کیونکہ ان حکومتوں اور سرکاری فلاح و بہبود کے ادارووں میں بھی اسی ناقص سماج کے تربیت یافتہ افراد موجود ہیں۔لہذا حکومتیں اور فلاح و بہبود کے ادارے بھی اپنی ان ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں،ادا نہیں کرتے جو ان پر لازم آتی ہیں۔وہیں برسراقتدار طبقہ یا لیڈران خودنمائی میں تو مصروف رہتے ہیں لیکن مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس اور قبل از وقت لائحہ عمل طے نہیں کرتے۔نتیجہ میں صحت عامہ سے متعلق جن بیماریوں کا تذکرہ کیا گیا تھا،ڈینگو اور چکنگنیا جیسے امراض ہر دن بڑھ رہے ہیں،بیماروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،بچے بوڑھے جوان،گھر کی خواتین، بیٹے اور بیٹاں ، اور ماں باپ و دیگر رشتہ داروں کی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ایک عجیب و غریب خوفناک صورتحال ہے کہ جس سے ہر شخص گھبرایا ہوا اور ڈرا سہما ہے۔اس سب کے باوجود کلیم اور بلیم کا کھیل جاری ہے۔ایک طرف ایم سی ڈی ہے،دوسری طرف ریاستی حکومت ہے، تیسری طرف مرکزی حکومت ہے،سب بیماریوں کو ختم کرنے میں جٹے ہوئے ہیں،ایک دوسرے کو سہارا دے رہے ہیں،لیکن وبا کی طرح پھیلی ڈینگو اور چکنگنیا کی بیماریاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔پڑھنے والا سوچے گا کہ جب تمام ہی ادارے اور ذمہ داران مصروف عمل ہیں تو مسئلہ حل کیوں نہیں ہو رہا ہے؟جواب یہی ہے کہ قبل از وقت بیماریوں کو نظر انداز کیا گیا،ہلکے میں لیا گیا،کوششیں جو ہونی چاہیں تھیں وہ نہیں کی گئیں،اور اب جبکہ حالات بے قابو ہو چکے ہیں،تو کی جانے والا عمل ،ناکام ثابت ہو رہا ہے۔

31اگست2016تک 12,255چکنگنیا کے کیسس رجسٹرڈ کیے جا چکے تھے،جبکہ گزشتہ سال 2015میں یہ تعداد آدھی ہی تھی۔جبکہ 27,879کیسس ڈینگو کے سامنے آچکے تھے جن میں سے 60لوگوں کی اموات بھی ہوئی تھیں۔وہیں گزشتہ 2015میں ڈینگو کے مریضوں کی تعداد99,913تھی جس میں 220لوگوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھویا تھا۔اگر یہ تعداد گزشتہ سال بڑھی ہوئی پہلے ہی سامنے آچکی تھی تو کیا وجہ تھی کہ اس سال ان تمام ریاستوں میں جہاں سے یہ تعداد لی گئی ،قبل از وقت ہی الرٹ جاری نہیں کیا؟کیوں ان ریاستوں کی حکومتوں اور متعلقہ اداروں نے کوششیں نہیں کیں؟وجہ صاف ہے کہ سماج کے جس پیرامڈ کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے،اس میں ان بیماریوں سے بھی سب سے زیادہ متاثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو سماج کے نچلے یا درمیانی طبقہ میں آتے ہیں۔پڑھے لکھے ،سمجھ دار،دانا،عقل مند،ہوش مند،دولت مند اوربرسراقتدار لوگ عموماً ان بیماریوں سے بچے رہتے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہی طبقہ سماج کے اِن کمزور ترین افراد کی زندگی کے مختلف اتار چڑھاﺅ سے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ بھی کرتا ہے۔انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق ہر سال حساس آبادی کا 23%فیصد حصہ ڈینگو سے متاثر ہوتا ہے جسے اعداد و شمار کی روشنی میں 228,000افراد سے سمجھا جاسکتا ہے۔یہ تعداد معمولی نہیں ہے۔اس کے باوجود اگر متعلقہ حکومتیں ایسے ہی بے حس بنی رہیں تو پھر یہ وبائی امراض کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔اور آج کل دہلی اور کرناٹک میں ان بیماریوں نے حقیقتاً وبائی شکل ہی اختیار کی ہوئی ہے۔ڈینگو اور چکنگنیا دونوں ہی امراض میں ہر سال اضافہ سامنے آرہا ہے۔2010سے لے کر 2015تک چکنگنیا سے متاثرہ افراد کی تعداد الترتیب48,176،20,402،15,977،8,840،16,049،27,553تھی تو وہیں ڈینگو سے متاثرین کی تعدادبالترتیب 28,292،18,860،50,222،75,808،40,751اور99,913رہی ہے۔صرف ساﺅتھ دہلی کے جامعہ نگر علاقہ میں اب تک34اموات ہو چکی ہیں،دہلی اور ملک میں اموات و متاثرین کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ترین مرحلہ ہے ۔اس پس منظر میں محسوس ہوتا ہے کہ سال رواں2016یہ تعدادپچھلے تمام اعداد و شمار سے زیادہ ہوسکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان بچے ہوئے دنوں میں ہمارے لیڈران،برسراقتدار حکومتیں اور فلاح و بہبود کے ادارے ،گزشتہ اعداد و شمار کے ریکارڈ توڑنے کا کام کرتے ہیںذرا سی بھی انسانیت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے، عام شہریوں کی تکالیف اور دکھ درد میں شامل ہوتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کریں گے!

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...